چیف جسٹس پاکستان کا پنجاب پولیس سے خطاب

مزمل سہروردی  پير 25 نومبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اگر لوگوں کو پولیس سے انصاف ملنے لگ جائے تو عدالتوں کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔ لوگ عدالتوں میں تب جاتے ہیں جب وہ متعلقہ اداروں سے انصاف لینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہی بات چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سی پی او لاہور کے دورے کے دوران پنجاب کے پولیس افسران اور تمام صوبوں سے آئے ہوئے آئی جی صاحبان سے خطاب کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے خود بتایا کہ صرف پولیس کے نظام میں ایس پی کمپلینٹ کا اضافہ کرنے سے اعلیٰ عدلیہ میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے دائر کی جانے والی رٹ پٹیشن میں تیس فیصد اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں اس مقصد کے لے دائر کی جانے والی درخواستوں میں پندرہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔

سی پی لاہور پہنچنے سے پہلے میری رائے تھی کہ کسی بھی چیف جسٹس کو اس طرح پولیس افسران کی محفل میں نہیں جانا چاہیے۔ تا ہم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا خطاب سننے کے بعد میری رائے تبدیل ہو گئی بلکہ اب میری رائے ہے کہ انھیں ملک بھر میں مقدمات کی تفتیش کرنے والے پولیس افسرا ن سے خطاب کرنا چاہیے۔

اگر وہ تفتیشی افسران سے خطاب شروع کر دیں تو نہ صرف نظام تفتیش ٹھیک ہو سکتا ہے بلکہ اس کے نظام انصاف پر بھی نہایت مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ کیونکہ اگر نظام تفتیش ٹھیک ہو جائے تو انصاف بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ مقدمات میں غلط تفتیش ہی نظام انصاف میں ایسی خرابیوں کو جنم دیتی ہے  جن کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس پاکستان اپنی تقریر میں پولیس افسران کو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی کو گرفتار مت کریں۔ صرف ایف آئی آر میں نامزدگی گرفتاری کی کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اس سے عدلیہ پر ضمانت قبل از گرفتاری کے مقدمات کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔

چیف جسٹس سمجھارہے تھے کہ پولیس مدعی کے ایجنٹ کے طور پر کام نہ کرے۔ پولیس کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مدعی جھوٹ بھی بول سکتا۔ اس لیے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد نامزد ملزمان کو پکڑنے کا نظام ایک فرسودہ روایت ہے۔ جس نے معاشرہ میں جھوٹے مقدمات اور جھوٹی ایف آئی آرز کی بنیاد رکھ دی ہے۔ لوگ جھوٹی ایف آئی آر درج ہی اس لیے کرواتے ہیں کہ اس طرح ان کے مخالفین گرفتار ہوںگے۔ ان کی عزت خراب ہوگی۔ بعد میں اگر کئی سال بعد بری بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہی ہمارے معاشرہ کی حقیقت ہے۔

اور یہی پولیس کی بدنامی کی بنیادی وجہ ہے۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ پہلے تفتیش کے آخر میں تفتیشی ضمنی میں لکھتا تھا کہ اب جب کہ ملزم کے خلاف تمام ثبوت سامنے آگئے ہیں تو میں ملزم کو گرفتار کر نے جا رہا ہوں۔ اب پہلی ضمنی ہوتی ہے کہ جیسا کے ملزم کو ایف آئی آر میں نامزد کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اس کو گرفتار کرنے نکل رہا ہوں۔ اس غلط روایت نے نظام انصاف اور خود پولیس دونوں کو ہی آلودہ کر دیا ہے۔

آجکل بہت شور ہے کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر ملزمان کو بری کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس ضمن میں جتنے بھی پولیس افسران سے ماضی میں بات ہوتی رہی ہے توان کا موقف تھا کہ کہاں سے لائیں سچی گواہیاں۔ کون دیتا ہے سچی گواہیاں۔ اس طرح تو سارے ملزمان چھوٹ جائیں گے۔

کسی کو سزا نہیں ملے گی۔ چیف جسٹس پاکستان نے اس سوال کا کھل کر جواب دیا۔ ان کی منطق اور دلیل بھی قابل غور ہے۔ انھوں نے کہا 1951میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب نے فیصلہ دیا کہ اگر کسی گواہ نے گواہی کے دوران آدھا سچ اور آدھا جھوٹ بولا ہے تو یہ کام عدالت کا ہے کہ وہ اس کی گواہی میں سے سچ اور جھوٹ الگ الگ کر لے۔ سچ کو استعمال کر لے۔ جھوٹ کو ضایع کر دے۔

چیف جسٹس کے مطابق 1951 کے اس فیصلے نے گواہان کو عدالتوں میں جھوٹ بولنے کا نہ صرف فری لائسنس دے دیا۔ بلکہ تفتیشی افسر کو بھی ایک فری لائسنس دے دیا کہ وہ جتنے مرضیٰ جھوٹے گواہ پیش کر دے۔ ستر سال میں نظام انصاف کے بازار میں جھوٹ کا جمعہ بازار لگ گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے خلاف بلا خوف جھوٹی گواہیاں دینے لگے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ قانون میں اس کی کوئی سزا نہیں۔ بلکہ یہ طے ہوگیا کہ جھوٹ کوئی جرم ہی نہیں ہے۔

معاشرہ میں جھوٹ عام ہوگیا۔ اس لیے اس عدالتی فیصلہ کو ختم کر دیا گیا۔ اب نئے عدالتی فیصلہ کے تحت یہ طے کر دیا گیا ہے کہ اگر گواہ کی ایک بات بھی جھوٹی نکل آئی تو اس کی ساری گواہی جھوٹی تصور کی جائے گی۔ سچ میں جھوٹ کی آمیزش برداشت نہیں کی جائے گی۔ جھوٹ کی بنیاد پر سزائیں کوئی انصاف نہیں ہے۔ اسی لیے اب تک جھوٹی گواہیوں پر کئی گواہان کے خلاف مقدمات بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ یہاں میرا خیال ہے جب مقدمہ میں یہ طے ہوجاتا ہے کہ گواہی جھوٹی تھے۔ جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو پھر نئے مقدمہ اور نئے ٹرائل کے چکر میں کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ وہی سزا دینے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ نیا مقدمہ نظام انصاف پر بھی بوجھ ہوگا۔

اور مدعی کے لیے بھی ایک نئی درد سر ہوگا۔ اس لیے جب عدالت یہ طے کرتی  ہے کہ گواہی جھوٹی ہے وہیں اس کی سزا دے۔ اس سے مزید بہتری آئے گی۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی جب چیف جسٹس پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ اب صرف جھوٹے گواہان کو ہی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ غلط تفتیش کرنے اور تفتیش میں حقائق کو مسخ کرنے پر تفتیشی افسر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ جب تفتیشی افسر کو یہ خوف ہوگا کہ غلط تفتیش پر اس کے خلاف بھی مقدمہ بنے گا۔ اسے بھی سزاملے گی۔ وہ بھی قانون کی گرفت میں آجائے گا تو وہ ٹھیک تفتیش کرے گا۔

ابھی تو کسی کو کوئی ڈر نہیں۔ پولیس کے تفتیشی افسران بے گناہ کو گنہگار لکھ کو خود ہی کہتے ہیں جاؤ عدالت سے بری ہو جاؤ۔ لیکن اگر عدالتیں ناقص اور غلط تفتیش پر تفتیشی افسر کو سزائیں دینا شروع کر دیں گی تو نظام تفتیش خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن یہاں بھی نئے مقدمات کے اندراج کے بجائے وہیں سزا دینے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سو موٹو کے اختیار کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی انھوں نے برملا تسلیم کیا ہے کہ ماضی میں یہ اختیار غلط استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کوئی ایسا راستہ نہیں دے کر جا رہے کہ آیندہ یہ اختیار غلط استعمال نہ ہو۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کل دوبارہ کوئی چیف جسٹس سو موٹو کا بے دریغ استعمال کرنا چاہے تو وہ کر سکے گا ۔ اس کا راستہ روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان کا پولیس افسران سے خطاب اچھا تھا۔ اس سے نظام انصاف کی بہتری کی امید ہے۔ لیکن میری آئی جی پنجاب عارف نواز سے بھی گزارش ہے کہ وہ چیف جسٹس پاکستان کی ہدایات کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بنائیں۔ بے گناہوں کی گرفتاریاں روکنے کے لیے نئے قواعد بنائیں۔ ناقص تفتیش کے لیے قواعد بنائیں۔ عدالتوں سے سزاؤں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ پولیس کو خود ایسا نظام بنانا چاہیے۔ کہ اس کا راستہ روکا جا سکے۔ بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں۔ لیکن یہ کسی انقلاب سے کم نہیں، لیکن کیا ایسا ممکن ہے۔ بس یہی سوچ رہا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔