نمبر ون ٹیم کی ’’دونمبری‘‘

سلیم ملک  ہفتہ 26 اکتوبر 2013
alimalik@hotmail.com

[email protected]

جیت کا جذبہ ہر انسان کے دل میں سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہے، کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت اور جمود میں موت ہے، اس لیے انسان جونہی شعور کی منزل پر قدم رکھے تو خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن رات ایک کر دیتا ہے، اس کی یہ کوشش زندگی کی آخری سانسوں تک جاری رہتی ہے، اپنی واہ واہ کیلیے بسا اوقات وہ اوچھے اور منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا لیکن زندگی کے دوسرے شعبوں کے برعکس کھیلوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ انسان کو اسپورٹس مین اسپرٹ سکھاتے ہیں، اس کے باوجود دنیائے کھیل میں تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوئے اور ہو رہے ہیں کہ جب کھلاڑی کامیابی کے حصول کیلیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے، جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کے2 کھلاڑیوں کی دبئی ٹیسٹ کے دوران اوچھی حرکت سمجھ سے باہر ہے، پروٹیز کی جیت واضح نظر آرہی تھی، ان کے بولرزکو بال ٹیمپرنگ کر کے اپنے اور ملک کے ماتھے پر’’کالک‘‘ ملنے کی آخر کیا ضرورت تھی۔

بلاشبہ پہلے ٹیسٹ میں شرمناک شکست کے بعد سیریز کے دوسرے میچ میں بہادورں کی طرح مقابلہ کرتے ہوئے گرین شرٹس کو پریشان کرنا جنوبی افریقی کرکٹرزکا شاندارکارنامہ ہے لیکن منزل سامنے دیکھتے ہوئے بھی فاف ڈوپلیسس اور ورنون فلینڈر کی طرف سے گیندکے ساتھ چھیڑ خانی باعث شرم ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، اگر ایسی حرکت کسی پاکستانی بولر نے کی ہوتی تو دنیائے کرکٹ میں بھونچال آجاتا اور اس کی بازگشت کئی روز تک سنائی دیتی، اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائوں، اپنے قارئین کے ساتھ ایک تجربہ شیئر کرنا چاہتا ہوں،1995 میں قومی ٹیم میری قیادت میں زمبابوے کے دورے پر تھی، تیسرے ٹیسٹ میں امپائر روبنسن نے پیسر وسیم اکرم سے گیند لے کر ایک جانب تھوک لگا کر اسے خاصا خراب کر دیا،وسیم کے کہنے پر میں نے امپائر کے پاس جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن روبنسن نے داد رسی کے بجائے ویسٹ انڈین میچ ریفری ہینڈرک سے مل کر نہ صرف مجھ پر میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ کر دیا بلکہ تنبیہ بھی کی کہ ایسی حرکت دوبارہ کرنے کی صورت میں انٹرنیشنل میچ کھیلنے کی پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔

وسیم کے بجائے مجھ پر جرمانہ اس لیے کیا گیا کیونکہ میچ ریفری کا موقف تھا کہ بطور کپتان میں صورتحال کو صحیح طور پر سنبھال نہیں سکا، میں نے تو ایک جائز بات پرصرف احتجاج کیا تھا جس پر مجھے سزا سنا دی گئی لیکن جنوبی افریقی بولرز تو سرعام بالٹیمپرنگ کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، میری رائے میں دونوں بولرزکے ساتھ کپتان گریم اسمتھ کو بھی جرمانہ، میچ پابندی یا دونوں سزائوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ وہ بطور کپتان میچ کو درست انداز میں سنبھال نہیں سکے۔ دبئی ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی ناقص ترین کارکردگی پر قارئین سے دل کی باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن صورتحال ایسی ہو گئی کہ بات میچ سے نکل کر بال ٹیمپرنگ کی طرف نکل گئی۔ خیر، تیسرے دن کے اختتام تک جنوبی افریقہ کو پاکستان کے خلاف اب بھی286 رنز کی سبقت حاصل ہے، ایسے میں میچ 99.99 فیصد پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا، ٹیسٹ میں ممکنہ شکست میں پروٹیز کی کوششوں سے زیادہ ہمارے اپنے بیٹسمینوں اور بولرزکی غلطیوں کا زیادہ ہاتھ ہے، یونس خان اور اظہرعلی پاکستانی ٹیم کے قابل اعتبار بیٹسمین ہیں، چاہتے تو دوسری اننگز میں وکٹ پر زیادہ سے زیادہ قیام کر کے گرین شرٹس کو شکست کے بھنور سے نکال سکتے تھے لیکن افسوس دونوں سیٹ ہو کر غیر ذمہ دارانہ اسٹروکس کھیلتے ہوئے آئوٹ ہوئے،پہلی اننگز کی طرح اسد شفیق ایک بار پھر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر نکل کر شاٹس کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے، اب میچ کا دارومدار صرف اور صرف مصباح الحق کی بیٹنگ پر ہے لیکن وہ وکٹ پر پڑنے والے کریکس کے بعد اکیلے اورکتنی دیر تک ٹیم کی بقا کی جنگ لڑ سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔