بول زباں اب تک تیری ہے

صادقہ خان  پير 25 نومبر 2019
پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرا تعلق کوئٹہ کی ایک پڑھی لکھی فیملی سے ہے مگر دیگر قدامت پسند خاندانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی بیٹی کے ٹیلنٹ اور آگے بڑھ کر کچھ غیر معمولی کر دکھانے کی خواہش اور راہ میں سماجی روایات اور بندشیں حائل ہیں۔ کوئٹہ شہر سے سائنس رائٹنگ جیسی نو آموز اور مشکل فیلڈ میں جگہ بنالینے کے باوجود مجھے آج بھی صبح سے شام تک متعدد سوالات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ہر دفعہ یہ سوچ مجھے حوصلہ دلاتی ہے کہ اسی شہر میں نجانے کتنی مجھ سے بھی زیادہ باصلاحیت لڑکیاں اور خواتین موجود ہیں، جنھیں گھر سے باہر نکلنے بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ سو یہی سوچ ہر ناکامی اور زمانے کی ہر نئی ٹھوکر پر میرے سست پڑتے قدموں کو کچھ اور تیز کردیتی ہے کہ میرے پاس قلم جیسی طاقت ہے جو بعض اوقات خونریز جنگوں کا لمحوں میں پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میرے پاس الفاظ کی طاقت ہے جس سے میں اپنے پسماندہ صوبے میں رہنے والی لاکھوں خواتین کی آواز بن سکتی ہوں۔

لیکن خواتین کے جائز حقوق صرف بلوچستان ہی میں نہیں پاکستان کے ہر کونے میں پامال کیے جاتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس وقت تک پامال کیے جاتے رہیں گے جب تک ہم خود اپنے حقوق کےلیے آواز اٹھانا نہیں سیکھ لیں گی۔ مگر اس کےلیے ہمیں نام نہاد این جی او والی آنٹیوں اور برگر خواتین سے ہوشیار رہنا چاہیے، جن کا اصل مقصد کسی دکھوں کی ماری کو ٹارگٹ بناکر کچھ عرصے ملکی و غیر ملکی میڈیا میں داد و تحسین حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہم میں سے کوئی بھی آج تک مختاراں مائی کے قصے کو نہیں بھولا۔ دنیا بھر میں اسے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر اچھالا گیا۔ یہاں تک کے مختاراں مائی کے نام پر کتاب بھی ایک معروف غیرملکی پبلشر نے شائع کی، مگر اس واقعے کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ نہ ہی بااثر افراد کو کوئی فرق پڑا، اور نہ اس علاقے میں خواتین کے ساتھ روا غیر انسانی سلوک میں کوئی کمی واقع ہوسکی۔ بلکہ رفتہ رفتہ ایسے واقعات روز کا معمول بنتے گئے۔ ہماری عدالتوں میں آج بھی ایسے ہزاروں کیسز برسوں سے زیر التوا ہیں اور بااثر ملزمان ضمانت پر باآسانی رہائی حاصل کرکے آج بھی پہلے ہی کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں۔

مقامی وصوبائی حکومتوں سے لے کر مرکزی حکومت اور اعلیٰ عدالتوں تک، ہر کسی کی آنکھوں پر مفاد کی عینک لگی ہوئی ہے۔ ہوش صرف اس وقت آتا ہے جب دوسروں کے بعد اپنے گھر کی بیٹی کی عزت لٹتی ہے۔ مگر اس وقت بھی قصور وار عورت ہی ٹھہرتی ہے، کیونکہ جو داغ کسی معصوم کے دامن پر ایک دفعہ لگ جاتا ہے اس سے موت کے ساتھ ہی اسےچھٹکارا ملتا ہے۔ یہ مرد کا معاشرہ ہے اور مرد چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو، وہ داغدار عورت کو عزت کے ساتھ شاذو نادر ہی قبول کرپاتا ہے۔

مگر ہمارے معاشرے کا ناسور محض عورت کا جنسی استحصال ہی نہیں۔ ہر گھر میں عورتوں کے ساتھ مار پیٹ، بےعزتی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اب معمول بن چکی ہے۔ جس کی کچھ وجویات مندرجہ ذیل ہیں۔

 

روایت اور آدرش

پاکستانی روایات، رسوم اور حدود و قیود پر برصغیر پاک و ہند کے معاشرے کی جھلک نمایاں ہے، جو اکیسویں صدی میں خواتین میں بڑھتے تعلیم کے رجحان اور آزادی نسواں کے بعد بہت حد تک ماند پڑتی جارہی ہے، مگر اب بھی پاکستان میں ایسے خاندانوں کی کمی نہیں، جہاں مرد گھر کا سربراہ ہی نہیں بلکہ ناخدا ہے۔ طاقت اور حقوق کا یہ عدم توازن عورت کی ترقی ہی نہیں خوشی اور زندگی کے فیصلوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنتا رہا ہے اور اس وقت تک بنتا رہے گا جب تک ان خاندانوں کی خواتین خود آواز اٹھا کر اپنے گھروں کے مردوں کو یہ باور نہیں کروا دیں گی کہ وہ ان کے مالک اور ناخدا ہرگز نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی صورت میں عورت کو مضبوط سہارا اور تحفظ عطا کیا ہے۔

 

ملائیت

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد بھی آباد ہیں، مگر اس کے آئین سے لے کر سماجی نظام تک ہر شے پر اسلام اور اسلامی قوانین کی جھلک نمایاں ہے۔ مگر بدقسمتی سے جو اسلام آج ہمارے سامنے ہے اس کا حضور پاکؐ کے دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کرنے اور بے زبان جانور کی طرح ہانکنے کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا، بلکہ یہ چلن عربوں کے زمانۂ جاہلیت میں عام تھا جس کی حضور پاکؐ نے تنسیخ کرتے ہوئے عورت کو اس کے جائز حقوق اور معاشرے میں ایک باعزت مقام عطا کیا۔ مگر آج کل مسلمان اسکالرز، مولوی اور مذہبی جماعتیں ان تعلیمات کی سرعام تنسیخ کرتی نظر آتی ہیں۔ لامحالہ جس کا فائدہ اینٹی اسلام اور اینٹی پاکستانی قوتوں کو ہوتا ہے اور عورتوں کے ساتھ گھریلو و جسمانی تشدد کے واقعات کو غیر ملکی میڈیا بھی زیادہ اچھالتا ہے۔ جس سے اسلام اور پاکستان کا امیج مزید بگڑ کر سامنے آتا ہے۔ یہاں سسٹم اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ اندرون ملک کسی بھی فورم پر عورت کے حقوق کی پامالی کی آواز اٹھانا نقارخانے میں طوطی کی صدا کے سوا اور کچھ نہیں۔

 

نفسیاتی مسائل

پاکستانی معاشرے میں 60 سے 70 فیصد مرد حضرات بیمار ذہنیت رکھتے ہیں۔ اپنے گھروں میں خواتین موجود ہونے کے باوجود وہ جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ساتھ کام کرنے والی خواتین کو عزت دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آفسز میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات اب روز کا معمول بنتے چلے جارہے ہیں اور بہت سے قدامت پسند گھرانوں کی باصلاحیت خواتین اعلیٰ اداروں میں کام کرنے سے کترا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آج کا مرد شادی کےلیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، جاب والی، فیشن ایبل لڑکی تو مانگتا ہے مگر شادی کے بعد ملازمت سے گھر متاثر ہونے کے بعد وہ بیوی کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے بچوں سمیت تمام ذمے داریوں کے بوجھ اس پر لاد کر خود بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ مڈل کلاس کے زیادہ تر مرد جاب کرنے والی بیوی کےلیے احساس کمتری، شک اور حسد کا شکار بھی رہتے ہیں اور اس حوالے سے بیوی پر تشدد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مردوں کے ان بڑھتے نفسیاتی عوارض کی ایک بڑی وجہ جنریشن گیپ ہے۔ آج کے مرد کو اپنے باپ سے ورثے میں فرعونیت ملی ہے، جہاں وہ عورت کا مالک، مختار اور ناخدا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس مرد کو اکیسویں صدی کے جدید دور میں جینا ہے اور چاہیے بھی من پسند فیشن ایبل بیوی، جو ستی ساوتری بن کر جھکنے کے بجائے اپنے حقوق کےلیے آواز اٹھانا چاہتی ہے۔

 

تعلیمی پسماندگی

اگرچہ گزشتہ دو عشروں کے دوران پاکستان میں مرد و خواتین دونوں کی تعلیمی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے جو بڑے شہروں میں زیادہ نمایاں ہے مگر اب بھی بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں یہ شرح تسلی بخش نہیں ہے۔ ایسے علاقوں میں نہ خواتین اپنے جائز حقوق سے آگاہ ہیں اور نہ ہی انھیں اتنی آزادی حاصل ہے کہ وہ شادی جیسے زندگی کی اہم فیصلے پر بول سکیں۔ دوسری طرف کم تعلیم یافتہ مرد عورت کو عزت دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایسے علاقوں سے گھروں میں خواتین پر بے رحمانہ تشدد، جنسی استحصال اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات آئے روز میڈیا کی ہیڈ لائن بنتے رہتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ایک طاقتور اور بااختیار میڈیا، ملکی و غیرملکی این جی اوز کی بھرمار اور سوشل میڈیا کی سہولت ہونے کے باوجود خواتین کے ساتھ گھروں، کام کے مقامات اور یہاں تک کہ پبلک مقامات پر بھی ہونے والے ناخوشگوار، اندوہناک اور بے رحمانہ واقعات میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے۔ نام نہاد آزادی نسواں کی علم بردار خواتین و این جی اوز آنٹیاں، جو کسی ڈرامے کے ڈائیلاگز ’’دانش نے مہوش کو دو ٹکے کی عورت کیوں بولا‘‘ (یہ ڈائیلاگ دو ہفتے قبل ہاٹ سوشل میڈیا ٹرینڈ رہا) تک کو بخشنے کو تیار نہیں، اس سنگین صورتحال میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

25 نومبر کو ہر برس دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، گھروں میں مارپیٹ و جنسی استحصال کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے، تاکہ دنیا کے ہر کونے میں اس طرح کے رویوں کا شکار خواتین کو آواز اٹھانے اور اپنے جائز حقوق کےلیے لڑنے کی طرف مائل کیا جائے۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ایک جرم ہے جس کی جڑیں اب پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں بھی بہت گہری ہوتی جارہی ہیں اور اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ پرایوں کے بعد اب اپنے ہی گھروں کے مردوں کے ہاتھوں خواتین جنسی تشدد کا شکار ہورہی ہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس کے خلاف اگر فوری طور پر ایکشن نہیں لیا گیا اور بیخ کنی کےلیے اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلے پانچ سے دس برسوں میں کسی کے ہاتھوں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صادقہ خان

صادقہ خان

مصنفہ کا تعلق کوئٹہ، بلوچستان سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے فری لانس سائنس جرنلسٹ اور فزکس کی استاد ہیں۔ ڈان، اے آر وائی، جنگ اور ایکسپریس ٹرایبیون میں سائنسی مضامین لکھنے کے علاوہ سائنس فکشن ناول نگار اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔