عورت دوسرے درجے کی شہری۔۔۔!

شائستہ سعید  منگل 26 نومبر 2019
نچلے درجوں کی محنت کش خواتین کو باعزت مقام حاصل کیوں نہیں ہوتا؟

نچلے درجوں کی محنت کش خواتین کو باعزت مقام حاصل کیوں نہیں ہوتا؟

گرمی کی دوپہر تھی کھانا کھانے کے بعد شمع کو ایک دم ایسی گہری نیند آئی کہ اسے کچھ خبر ہی نہ رہی، لیکن تھوڑی ہی دیر میں چھوٹی بہن نے جنھجوڑ کر جگا دیا۔

’باجی جلدی اٹھو شام کے اخبار میں تمہارا امتحانی نتیجہ آیا ہے۔ تم نے ’بی ای‘ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔‘ شمع نے بستر سے چھلانگ لگائی اور بے تابی سے بولی ’کہاں ہے جلدی دکھاؤ۔‘ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ کس قدر حسرت تھی اس کو کہ وہ انجینئر بنے۔ ٹیلیفون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ سارے خاندان کے لوگ ملنے والے سب ہی مبارک باد کے لیے ٹیلیفون کر رہے تھے۔

شمع پڑھائی میں اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ صورت کی بھی بہت پیاری تھی۔ اس کے لیے ’پیغام‘ تو جیسے اٹھتے بیٹھتے آتے تھے۔ لڑکے کی ماں ہر شرط ماننے کو تیار ہوتی، لیکن اماں نے کسی سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ’جب تک پڑھائی ختم نہ ہوجائے میں اپنی بچی کو کسی بندھن میں نہ باندھوں گی۔‘ اماں اس معاملے میں بہت سخت تھیں۔ انہیں بچیوں کو پڑھانے کا بے حد شوق تھا، خود میٹرک پاس تھیں، لیکن اپنی سب بچیوں کو کسی نہ کسی ہنر میں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔

’پیغام‘ لے کر آنے والوں کا اصرار سن کر شمع نے بڑے بھیا سے کہا۔ ’بھائی جان میں ملازمت کروں گی، ڈگری کے بعد آگے ملازمت نہ کرو تو اس ڈگری سے کیا فائدہ۔‘ بھائی جان نے رات کو کھانے کی میز پر اماں سے پوچھا ’کس کس کے ’پیغام‘ آر ہے ہیں ہماری شمع کے لیے۔‘ اماں نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے کہا۔ ’کس کس کے بتاؤں ، کئی لڑکے ہیں، خاندان کے بھی ہیں، باہر کے بھی ہیں، بھئی اب فیصلہ کرنا ہی ہوگا، بس اب پڑھائی ختم ہوگئی اب رخصت کرو، ہمیں لڑکی کی کمائی کھانی ہے کیا؟‘

اماں نے یہ سب اس قدر تحکمانہ انداز میں اور جلدی جلدی کہا کہ سب لوگ بالکل خاموش ہوگئے اور بھائی جان کی تو جیسے پھر کچھ کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ یوں بھی اماں کب کسی کی بات مانتی تھیں۔ ہفتہ بھر بھی نہ ہوا کہ صفدر سے جو امریکا سے میڈیکل کر کے آئے تھے اور اماں کے دور کے رشتہ دار بھی ہوتے تھے، شمع کی بات پکی ہوگئی۔ دو ماہ کے بعد شادی بھی کر دی گئی۔ صفدر ان چند لوگوں میں سے تھے جو امریکا سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے پاکستان کے کسی اسپتال میں کام کرنا چاہتے تھے۔ شادی کے شروع کے چند مہینے تو سیر و تفریح اور نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں لگے، پھر شمع نے ایک دن صفدر کو بہت اچھے موڈ میں دیکھا، تو ہمت کر کے کہا ’اخبار میں نوکری کے لیے اشتہار آیا ہے کیا میں جا کر بات کروں؟‘

’بھئی آپ کو ملازمت کی کیا ضرورت ہے۔ ہم آپ کے ملازم جو موجود ہیں بتائیے کیا چاہیے۔‘ صفدر نے بے حد پیار سے کہا، لیکن جب شمع نے قدرے سنجیدگی سے کہا تو صفدر یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے کہ ’ بھئی آپ کی مرضی ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔‘

شمع کو ملازمت تو بہت جلد مل گئی، لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ صفدر کے والد اور والدہ سے کس طرح ذکر کیا جائے، کیوں کہ سسر صاحب تو ہر وقت یہ رٹ لگائے رکھتے تھے کہ بھئی صفدر کے لیے ہمیں ملکہ اور کنیز دونوں چاہیے تھیں۔ سو وہ ایک میں مل گئیں۔ صورت دیکھو تو چندے آفتاب چندے ماہتاب اور پھر اس قدر سگھڑ اور سلیقہ مند کہ جس کی انتہا نہیں۔ ہر کام میں اس قدر جلد کرتی ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کب کیا۔ کھانا بھی بہت مزے کا پکاتی ہے۔ ادھر ساس صاحبہ جو شادی سے پہلے شمع کی ماں سے کہا کرتی تھیں کہ بھئی جب وہ انجینئرنگ کر رہی ہے تو نوکری تو کرے گی اور اس میں حرج ہی کیا ہے۔

آج کل بہت سی لڑکیاں نوکری کرتی ہیں، اگر ہماری بچیاں نہیں کرتیں تو کیا ہے۔‘ شادی کے دوسرے ہی دن سے انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ’ہماری شمع ماشاء اﷲ اس قدر سمجھدار ہے حالاں کہ انجینئرنگ پاس کیے ہوئے ہے، لیکن گھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے نوکری کرنے کا سوچتی بھی نہیں پھر ضرورت بھی کیا ہے اﷲ کا دیا سب موجود ہے۔‘

ملازمت کی درخواست منظور ہونے کے بعد شمع نے خاموشی سے ملازمت شروع کر دی۔ چند ہی دن میں شمع کو اندازہ ہوگیا کہ ساس سسر دونوں اس کی ملازمت سے خوش نہیں۔ ان کی گفتگو میں پہلے سی گرم جوشی نہیں رہی تھی۔ تعریفوں کی بہ جائے اکثر باتوں پر ناک بھوں چڑھ جاتی۔ کچھ ہی عرصے بعد بچے کی آمد ہوگئی تو ایسا لگا جیسے سب سسرال والوں کی زبانیں کھل گئی ہوں۔ ساس سسر تو ہر وقت ایک ہی رٹ لگائے رکھتے کہ اب کیسے جائے گی ملازمت پر ، بچے کی دیکھ بھال کرے گی یا ملازمت۔۔۔ ساس بار بار یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ بھئی اب ہمارے اندر طاقت نہیں کہ بچے پالیں، ہم نے اپنے بچے بہت پال لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ دو چار ماہ کی کش مکش کے بعد شمع کو ملازمت چھوڑنا پڑی۔ پھر چار بچوں کی ماں بننے تک وہ یہ بھی بھول گئی کہ سول انجینئرنگ میں میکنیکل انجینئرنگ میں کیا فرق ہے۔

ہمارے معاشرے میں شمع جیسی نہ جانے کتنی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ اکثر ماں باپ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹی نوکری کرے اور بعض سسرال والوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ خدا کا دیا سب موجود ہے اس لیے کیا ضرورت ہے بہو کو نوکری کرائیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص جس نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی ، اس پر ہزاروں روپیا خرچ کیا گیا اور پھر حاصل کیا ہوا، کچھ بھی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی بہتر پرورش کر سکتی ہے، لیکن صرف بچوں کی پرورش ہی کے لیے تو تعلیم کا حصول کافی نہیں، کیوں کہ بعض دفعہ غیر تعلیم یافتہ ماؤں کی اولادیں بھی بہت اچھی اور تعلیم یافتہ ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔

آج کل کے معاشرے میں یہ بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو اپنے بچوں کو خود پڑھائے اور اسکول کا ہوم ورک وغیرہ کرائے۔ تعلیم یافتہ یا ان پڑھ زیادہ تر ماؤں کے بچے اسکول کے بعد ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جاہل ماں ہر وقت اپنے بچوں میں ہی لگی رہے۔ بہت کم مائیں ایسی ہیں جو سارا وقت دینے کی کوشش کرتی ہیں اور اس وقت کو بہتر انداز میں صرف کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ہمارے یہاں ہر شعبے میں پڑھے لکھے لوگوںکی کمی ہے اس پر مشکل یہ کہ جو چند لڑکیاں تعلیم حاصل کر پاتی ہیں، ان میں سے بھی بہت سی لڑکیوں کو ملازمت کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس عمل سے اجتماعی طور پر جو قومی نقصان ہوتا ہے، اس کا اندازہ تو کیا ہی لگایا جا سکتا ہے، لیکن انفرادی طور پر بھی وہ لڑکی جس نے تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے پاس کوئی ہنر بھی ہے، جس کو اس نے شوق سے حاصل کیا ہے، پھر اس کو اسے استعمال کرنے سے روک دیا جائے تو وہ اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک طرف اسے اپنے اوپر اعتماد نہیں رہتا اور دوسری طرف وہ مایوسی کا شکار بھی ہونے لگتی ہے۔

اس کی زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے اور کم ہونے کا سوال مشکل سے ہی پیدا ہوتا ہے، پھر جب وقت گزر جاتا ہے۔ بچے پل جاتے ہیں اور ان کی اپنی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اس وقت اگر تعلیم یافتہ ماں وہ سرا پکڑنے کی کوشش بھی کرے جو ڈگری لینے کے بعد چھوٹ گیا تھا تو وہ ہاتھ نہیں آتا۔ اب اگر وہ ملازمت کے لیے نکلتی بھی ہے اور اسے ملازمت مل بھی جاتی ہے، تو وہ مطمئن نہیں ہو پاتی، کیوں کہ عمر کے لحاظ سے وہ بہت دور نکل آئی ہے، لیکن تجربے کے لحاظ سے ابھی پہلا قدم بھی پار نہیں کیا۔

کھانا پکانا اور گھر کی دیکھ بھال کرنا قطعاً کم درجے کا کام نہیں، جو عورت اپنے گھر کا تمام کام خود کرتی ہے، اپنے بچوں کی دیکھ بھال اچھی طرح کرتی ہے، وہ بھی بہت بڑا کارنامہ انجام دیتی ہے، لیکن اگر کسی عورت کے پاس تعلیم کی دولت بھی ہے اور وہ اسے استعمال کرنا چاہتی ہے، تو اس معاملے میں اسے آزادی حاصل ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر مردوں کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ عورت کاکام کرنا صرف اس کے شوق سے معنون نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ بچوں کی پرورش اور نگہداشت میں مرد کو بھی ہاتھ بٹانا چاہیے، ورنہ ہوتا یوں ہے کہ شام کو گھر آکر میاں تو اخبار لے کر یا ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور عورت کام میں مصروف ہوجاتی ہے۔ مرد حضرات یہ نہیں سوچتے کہ اگر ان تمام کاموں کے لیے انہیں نوکر رکھنا پڑتا تو شاید ان کی جیب برداشت نہ کر پاتی۔

اس سلسلے میں ایک بہت دل چسپ رپورٹ یاد آئی کہ امریکا کے شہر واشنگٹن میں ایک خانہ دار خاتون نے ایک ماہ تک اپنے دن بھر کے کام کا معاوضہ ایک ڈبے میں ڈالنا شروع کر دیا۔ ایک ماہ بعد انہوں نے ان پیسوں کو ڈبے سے نکال کر گنا تو معلوم ہوا کہ وہ پیسے ان کے شوہر کی تنخواہ کے برابر ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنا سوٹ کیس تیار کیا اور یہ پرچہ لکھ کر گھر سے چلی گئیں کہ معاف کیجئے میرے کاموں کا معاوضہ آپ برداشت نہیں کرسکتے، لہٰذا میں جارہی ہوں۔ مغرب کی عورت تو ایسی بات کر سکتی ہے، لیکن ہمارے یہاں کی عورت تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی، کیونکہ امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش عورت ہی کا اولین فرض سمجھا جاتا ہے۔ مرد تو ہمارے یہاں صرف حکمرانی کے لیے پیدا ہوتا ہے۔

ڈاکٹرصبیحہ حفیظ پاکستان کی مشہور ماہر عمرانیات ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے شہروں میں عورتوں کے بدلتے ہوئے کردار کے عوامل کے بارے میں بنیادی تحقیق کی ہے۔ اپنی کتاب’دی میٹروپولیٹن وومن ان پاکستان‘ میں تجزیہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے کی شہری عورت اب تعلیم حاصل کر رہی ہے اور ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔

اس عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملازمت کرنے کے بعد معاشرے میں اسے کیا درجہ ملتا ہے۔ جہاں تک ماں باپ کا تعلق ہے تو اکثر ماں باپ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور جب پیشہ اختیار کرنے کا وقت آتا ہے، تو لڑکا جو پیشہ چاہے اختیار کر سکتا ہے، لیکن لڑکی کے لیے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ میڈیکل یا تعلیم کا شعبہ اختیار کرے کیوں کہ معاشرہ عورت کے یہ دو روپ آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔

لیکن فیکٹری میں کام کرنے والی عورتیں یا نچلے درجے کے کام کرنے والی عورتوں کو ہمارے معاشرے میں بہتر مقام حاصل نہیں ہوتا۔‘ ڈاکٹر صبیحہ حفیظ کی گہری اور تفصیلی تحقیق سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے شہروں میں جو عورتیں ملازمت کرتی ہیں، ان کے اس عمل سے خود ان پر اور ان کے خاندان پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے، لیکن پھر بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ عورت کی اس حیثیت کو معاشرہ کیا مقام دیتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ معاشی اور معاشرتی ترقی میں عورت بھی شانہ بشانہ کام کرے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کے بارے میں کوئی بھی رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے مرد کے برابر معاشرے کا ایک فرد قرار دیا جائے اور اسے عورت ہونے کا اس طرح احساس نہ دلایا جائے کہ جیسے وہ ایک کم تر مخلوق ہے یا دوسرے درجے کی شہری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔