تاجروں نے آٹا مہنگا ہونے کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دیدیا

احتشام مفتی  منگل 26 نومبر 2019
سرکاری گندم کا معیار خراب ہونے  پرکچرے اور صفائی کے بعد 100کلو گندم کی بوری پراضافی350روپے خرچ کرناپڑتے ہیں
فوٹو: فائل

سرکاری گندم کا معیار خراب ہونے  پرکچرے اور صفائی کے بعد 100کلو گندم کی بوری پراضافی350روپے خرچ کرناپڑتے ہیں فوٹو: فائل

کراچی:  کراچی میں آٹے کی قیمتوں کا بحران سندھ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے فلور ملوں نے آٹے کی قیمت میں کمی گندم کی سپلائی میں بہتری سے مشروط کردی ہے۔

فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سدرن ریجن خالد مسعود کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے مشاورت کے بغیر ایکس مل قیمت مقرر کردی ہے صوبائی حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر آٹے کی فروخت ممکن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ گندم کی فراہمی اور آٹے کی قیمت پر فلور ملز مالکان کی صوبائی وزارت خوراک و زراعت سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے وائس چیئرمین چوہدری عامر عبداللہ کے مطابق سندھ حکومت نے رواں سیزن گندم کی سرکاری خریداری نہیں کی اور فلور ملوں کو گندم کا پرانا ذخیرہ ہی فراہم کیا جارہا ہے،کراچی کی فلور ملوں کے لیے ستمبر 2019سے کوٹہ سسٹم رائج کردیا اور کراچی کو آٹا فراہم کرنیو الی 75فیصد فلور ملوں کا انحصار ا س کوٹہ پر ہی ہوتا ہے۔

سندھ حکومت طلب کے مطابق گندم فراہم نہیں کررہی اور فلور ملیں اوپن مارکیٹ سے گندم خریدنے پر مجبور ہیں سرکاری نرخ اور اوپن مارکیٹ کے درمیان قیمت کا فرق 1150روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سرکاری نرخ 3450روپے ہے تاہم سرکاری گندم کا معیار خراب ہونے کی وجہ سے کچرے اور صفائی ستھرائی کے بعد 100کلو گندم کی بوری پر اضافی 350روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں اس طرح سرکاری گندم 3800روپے کی پڑتی ہے اس کے برعکس اوپن مارکیٹ میں صاف گندم کا نرخ 4600روپے تک پہنچ گیا ہے اور کراچی کی فلور ملیں کوٹہ بندی کی وجہ سے اوپن مارکیٹ سے مہنگے داموں گندم خریدنے پر مجبور ہیں۔

76میں سے 25فیصد ملیں اوپن مارکیٹ سے گندم خرید رہی ہیں باقی ملوں کا انحصار کوٹہ پر فراہم کی جانیو الی سرکاری گندم پر ہے۔ اس وقت کراچی میں 90میں سے 14ملیں بند پڑی ہیں اور 76ملوں میں پیداوار جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔