آئی سی سی کی انصاف ٹیمپرنگ، دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا

سلیم خالق  اتوار 27 اکتوبر 2013
جنوبی افریقی کھلاڑی ڈوپلیسی کو واضح طور پر ٹراؤزر کی زپ سے گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دکھایا گیا۔ فوٹو: فائل

جنوبی افریقی کھلاڑی ڈوپلیسی کو واضح طور پر ٹراؤزر کی زپ سے گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دکھایا گیا۔ فوٹو: فائل

’’پاکستانی پلیئرز بے ایمان ہیں، ان کی فتوحات بال ٹیمپرنگ کے مرہون منت ہوتی ہیں، ماضی میں پاکستان کے فلاں فلاں کھلاڑی گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے پکڑے گئے، ان پر تو تاحیات پابندی لگا دینی چاہیے، یہ تو فکسنگ بھی کرتے ہیں‘‘۔

ایسی باتیں ہمیں تب سننے کو ملتیں جب دبئی ٹیسٹ میں پاکستان کا کوئی کھلاڑی پکڑا جاتا، مگر چونکہ معاملہ ’’ورلڈ نمبر ون‘‘ جنوبی افریقہ کا تھا اس لیے اتنا شور نہ مچا، ڈوپلیسس کو واضح طور پر ٹراؤزر کی زپ سے گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دکھایا گیا مگر اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی، سوٹ بوٹ میں ملبوس گوروں کے انداز میں انگریزی بولنے والے وقار یونس سے زیادہ ٹیمپرنگ کے بارے میں کون جانتا ہو گا، وہ تو پورے کیریئر میں ان الزامات کی زد میں آئے مگر کمنٹری کے دوران انھوں نے معاملے کو زیادہ اچھالا نہ ہی دیگر کمنٹیٹرز نے ایسا کیا، مجھے پورا یقین ہے کہ اگر محمد عرفان یا جنید خان میں سے کوئی ایسی حرکت کرتے پکڑے جاتا تو ٹی وی چینل والے ماضی کی تمام فوٹیج زمین کھود کر بھی نکال لاتے اور میچ کو بھول کر اسی معاملے پر بحث کرتے رہتے، مگر چونکہ صرف دنیاکی تمام دیگر ٹیمیں ’’دودھ کی دھلی‘‘ ہیں۔

اس لیے ایسا نہ ہوا اسے ایک عام واقعہ ہی سمجھا گیا، دنیا بھر کے اخبارات میںکہیں بھی اس واقعے کی غیرمعمولی کوریج دکھائی نہ دی، زیادہ غیر ملکی سابق کرکٹرز نے بھی تاحال لب کشائی نہیں کی ہے، یہ دہرا معیار کیوں ہے؟ حسب توقع آئی سی سی نے بھی معاملے کو اہمیت نہ دی اور ڈو پلیسس کو میچ فیس کا50فیصد جرمانہ کر کے چھوڑ دیا، اس کے نزدیک پروٹیز پلیئر کا ارادہ جان بوجھ کر گیند کو خراب کرنے کا نہ تھا، کونسل سے پوچھنا چاہیے کہ اگر ایسی بات ہے تو ٹراؤزر کی زپ سے گیند کو رگڑنے کا آخر مقصد کیا تھا؟ ڈوپلیسس کو ضابطہ اخلاق کے تحت ایک ٹیسٹ،2ون ڈے یا اتنے ہی ٹوئنٹی 20کے لیے معطل کیا جا سکتا تھا مگر چونکہ اس کی چمڑی گوری تھی لہٰذا بچ نکلا،یقین مانیے پاکستانی پلیئر پر تو میچ ختم ہونے کے2 گھنٹے بعد ہی پابندی لگ چکی ہوتی،افسوس کہ پی سی بی نے اس معاملے میں تاحال کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، نجم سیٹھی کا اقتدار اب چند روز کا ہی رہ گیا ہے، جاتے جاتے وہ ایک تو ایسا کام کر جائیں کہ انھیں یاد رکھا جائے۔

انھوں نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی سمیت کسی اصل ایشو کو اہمیت نہ دی، ٹی وی پر سیاستدانوں کی کرپشن پر گھنٹوں بحث کرنے والے ایڈہاک کمیٹی چیف کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح اسپاٹ فکسنگ میں گرفتار ہونے والے عامرکی سزا ختم کرائی جائے، نجانے اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ نجم سیٹھی کو اس معاملے پر کونسل سے احتجاج کرتے ہوئے پروٹیز پلیئرز کیخلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کرنا چاہیے، ہارون لورگاٹ کے معاملے پر بھارتی بورڈ بھی ان دنوں جنوبی افریقہ سے ناراض ہے وہ بھی پی سی بی کا ساتھ دے گا۔

اگر سخت رویہ نہ اپنایا تو دہرے معیار کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، دنیا صرف ہمیں کرپٹ اور بے ایمان سمجھتی ہے جبکہ دیگر سب فرشتے ہیں، اس کی وجہ بعض کھلاڑیوں کا رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے ورنہ اس وقت دنیائے کرکٹ کا کوئی بڑا پلیئر فکسنگ یا فاسٹ بولر ٹیمپرنگ سے نہیں بچا ہوگا، جب تک ہم آوازنہیں اٹھائیں گے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا، قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے پروٹیز نے ٹیمپرنگ کی انھیں خمیازہ ضرور بھگتنا چاہیے،بال ٹیمپرنگ کی سزا اگر5پنالٹی رنز اور 50فیصد میچ فیس ہے تو دنیا کا ہر بولر ایسا کرے گا،گیند کی ساخت خراب کر کے حریف بیٹسمینوں کو آؤٹ کرنے کے عوض5رنز اورتھوڑی سی رقم خرچ کرنا بُرا سودا نہیں ہے۔

شعیب اختر سمیت چند سابق کرکٹرز کا یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ چونکہ بیشتر بولرز بال ٹیمپرنگ کرتے ہیں لہٰذا اسے قانونی قرار دے دینا چاہیے، اگر ایسا ہے تو فکسنگ بھی کئی کھلاڑی کرتے ہیں اس معاملے میں بھی ایسا ہونا چاہیے، درحقیقت یہ مسئلے کا حل نہیں ہے اس کے بجائے بولرز کو غیرقانونی حربے اختیار کرنے سے روکنا مناسب ہوگا،گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے ریورس سوئنگ میں مدد ملتی ہے، اسے قانونی قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

جس وقت سرفراز نواز نے ریورس سوئنگ شروع اور وسیم اکرم و وقار یونس نے اس میں مہارت حاصل کی تو دنیا حیران رہ گئی، برطانوی میڈیا ان کے پیچھے پڑ گیا،ٹو ڈبلیوز کی تمام کامیابیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا،ٹی وی کیمرے ہر وقت اس تلاش میں ہوتے کہ انھیں گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دکھایا جائے، پھر وقت نے پلٹا کھایا دیگر ٹیمیں بھی ریورس سوئنگ سیکھ گئیں تو اسے قانونی قرار دینے کا مطالبہ سامنے آنے لگا ہے، اب اگر پیٹر سڈل یا کوئی دوسرا گورا ٹیمپرنگ کرتے پکڑا جائے تو کہا جاتا ہے کہ بولر بیچارہ کیا کرے قوانین نے اس کے لیے کامیابیاں سمیٹنا مشکل بنا دیا، ہم کریں تو بے ایمان دوسرے کریں تو آرٹ، نجانے ایسا کب تک ایسا ہوتے رہے گا۔

’’چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے‘‘ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر یہ بات مکمل صادق آتی ہے، جس طرح ابوظبی میں ورلڈ نمبر ون پروٹیز کے چھکے چھڑائے اس پر قوم خوشی سے نہال ہو گئی،شائقین سوچنے لگے کہ شائد اب کرکٹ میں سنہری دنوں کی واپسی ہو چکی ہے،مگر یہ خواب ثابت ہوا، اس فتح کا ایک ہفتے بھی جشن منانے کا موقع نہ ملا،پہلے ٹیسٹ میں442رنز بنانے والی سائیڈ دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سنچری بھی نہ کر سکی اور99پرڈھیر ہو گئی، یہ کیا مذاق ہے؟

ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل کب آئے گا، خرم منظور، شان مسعود، اظہر علی، اسد شفیق یہ سب یقینا باصلاحیت بیٹسمین ہیں مگر کارکردگی میں تسلسل موجود نہیں، اوپنرز نے پہلی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں عمدہ پرفارم کیا اس کے بعد فلاپ ہو گئے،اسد شفیق نے آخری سنچری دورۂ جنوبی افریقہ میں بنائی پھر کئی اننگز میں ناکام رہے، اب پھر پروٹیز سے سیریز کی آخری اننگز میں تھری فیگر اننگز سجا کر ٹیم میں جگہ بچالی،ان کی جانب سے اگلی بڑی اننگز اب نجانے کب دیکھنے کو آئے۔

یقینا وہ بہت اچھا کھیلے مگر عظیم بیٹسمین بننے کے لیے انھیں تسلسل سے اسکور کرنا ہو گا، مصباح الحق نے دبئی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں عمدہ اننگز کھیلی اور اسد کے ساتھ مل کرٹیم کو اننگز کی شکست سے بچانے کی آس دلائی، مگر جب شائقین نے کچھ سکھ کا سانس لیا تھا تو وہ ایسے بولر ڈین ایلجرکو کیریئر کی اولین وکٹ کا تحفہ دے کر چلتے بنے، جس نے اس سے قبل ٹیسٹ کرکٹ میں تین ہی اوورز کیے تھے،اسی اننگز میں یونس خان مشکل وقت میں وکٹ پر قیام کے بجائے انتہائی غیر ذمے دارانہ شاٹ کھیل کر رخصت ہوئے، یہ دونوں سینئرز کسی نوجوان کو کیسے کچھ کہیں گے جب خود ہی خراب اسٹروکس کھیل کر وکٹیں گنوائی ہیں،بھارت میں ویرت کوہلی،مہندرا سنگھ دھونی، شیکھر دھون اور سریش رائنا جیسے بیٹسمین اسی وجہ سے آج سپراسٹارز ہیں کہ تسلسل سے عمدہ پرفارم کیا،ہمارے کھلاڑی بورڈ آفیشلز کے پاس جا کر انھیں اشتہارات میں کام دلانے کے لیے سفارش کاکہتے ہیں لیکن اگر وہ اپنی کارکردگی کا معیار بہتر بنا لیں تو اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

وکٹ کیپنگ پاکستان کا ایسا مسئلہ ہے جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، کامران اکمل نے اپنی اچھی کارکردگی سے ٹیم کو کم ہی میچز جتوائے ہوں گے مگر ناقص کھیل سے کئی مقابلوں میں ہروایا ضرور ہے،آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ اس کی واضح مثال ہے،وہ ٹیم سے گئے تو عدنان اکمل نے جگہ سنبھال لی، ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اپنے بھائی کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں، جس طرح دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے ڈی ویلیئرز کا کیچ ڈراپ کرکے انھیں سنچری بنانے کا موقع دیا اس سے یہ بات واضح ہو چکی کہ کسی نئے وکٹ کیپر کو لانا ضروری ہے، عدنان کی بیٹنگ بھی غیرمعمولی نہیں، ایک اور وکٹ کیپر سرفراز احمد کو بھی کئی مواقع دیے گئے مگر کامیاب نہ رہے، ایسے میں کسی نئے کھلاڑی کو تلاش کر کے گروم کرنا پڑے گا بصورت دیگر اسی طرح ڈراپ کیچز کا رونا روتے رہیں۔

جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں مصباح الحق نے سعید اجمل پر حد سے زیادہ انحصار کیا، وہ ماضی میں بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں، توقعات کے بوجھ سے اسپنر کی کارکردگی مثاثر ہونے لگی ہے،151رنز دے کر6وکٹیں یقینا ان کے شایان شان نہیں ہیں، دوسری اننگز میں کپتان نے ان سے تقریباً56اوورز کرائے، اتنی زیادہ بولنگ سے سعیدکی افادیت کم ہوتی جائے گی، وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے، اسی طرح پیسر محمد عرفان کی ویسے ہی فٹنس مثالی نہیں مگر ان سے 35اوورز کرا کے انجرڈ ہونے کا پورا سامان پیدا کر دیا گیا، اگر وہ دوران بولنگ ممنوعہ ایریا میں بار بار جا کر اننگز میں بولنگ کی پابندی کا شکار نہ ہوتے تو مزید کئی اوورز کر کے گر چکے ہوتے۔

جس طرح گریم اسمتھ نے مصباح اور اسد کی شراکت پارٹ ٹائم بولر ایلجر کی مدد سے توڑی، مصباح کو بھی ایسا کرنا چاہیے تھا، انھوں نے خاصی تاخیر سے اظہر علی کو گیند تھمائی اور صرف5اوورز کرائے، حالانکہ درمیان میں اگر ان سمیت یونس خان سے تھوڑی بولنگ کرا لی جاتی تو چاروں ریگولر بولرز کو بھی کچھ آرام ملتا اور شائد اسمتھ و ڈی ویلیئرز کی پارٹنر شپ بھی ٹوٹ جاتی۔ مصباح کو اپنے خلاف کچھ سننااور پڑھنا پسند نہیں، وہ ایسے سابق کرکٹرز اور صحافیوں سے سخت ناخوش ہیں جو ان پر تنقید کریں،اسی لیے کوئی کچھ بھی کہہ لے ان کے سر پر جوں نہیں رینگتی، مگر انھیں سوچنا چاہیے کہ ناقدین کا مقصد بھی پاکستان کرکٹ کی بھلائی ہی ہے، انھیں برا بھلا کہہ کر کچھ حاصل نہیں ہونے والا، ویسے بھی یہ بہت بے رحم کھیل ہے، چند روز قبل فتح کے زعم میں مصباح کہہ رہے تھے کہ ’’ناقدین کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا‘‘ اب دوسرے ٹیسٹ میں شکست کے بعد ایک بار پھر تمام توپوں کے رخ ان کی جانب ہو چکے ہیں، انھیں پھر چند روز ٹی وی و اخبارات سے پرہیز کرنا پڑے گا۔

پاکستانی ٹیم کے معاملات ان دنوں کچھ ٹھیک نہیں لگتے، ڈیو واٹمور کو بورڈ عہدے سے ہٹانا چاہتا ہے مگر معاہدے کی وجہ سے ایسا کر نہیں پایا، نجم سیٹھی کو اختیارات حاصل نہیں، ایسے میں انھوں نے سابق کپتان معین خان کو منیجر بنا دیا، وہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے چیف سلیکٹر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکے تھے، مگر اب دوہری ذمے داری نبھا رہے ہیں، غیراعلانیہ طور پر سلیکشن معاملات انہی کے ہاتھوں میں ہیں، اسی وجہ سے وکٹ کیپر سرفراز احمد کو عمر اکمل کی موجودگی کے باوجود دبئی بھیجا گیا، معین اور واٹمور کے درمیان معاملات کچھ ٹھیک نہیں لگتے۔

پہلا ٹیسٹ جیتنے کے بعد منیجر نے بیان دیا کہ دوسرے میچ کے لیے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، اگلے ہی روزکوچ نے بیان داغاکہ تبدیلی نہ ہونا ضروری نہیں ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اختیارات کے حوالے سے جنگ شروع ہو چکی، ویسے بھی منیجر کا عہدہ معین خان کے لیے موزوں نہیں لگتا، انھیں انتظار کرنا چاہیے وہ بطور چیف سلیکٹر خاصے کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں، بورڈ کسی تجربہ کار منیجر کا تقرر کرے تو مناسب رہے گا، جیسے اظہر زیدی ہیں وہ سہارا کپ سمیت کئی ٹورز میں ٹیم کے ساتھ منسلک رہ چکے، طویل عرصے سے کلب کرکٹ سے وابستہ اور تمام کھلاڑیوں سے بخوبی واقف ہیں، ان جیسے کسی فرد کو ہی منیجر بنایا جائے تو مناسب رہے گا۔

قومی کھلاڑی ان دنوں بے قابو ہو رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ بورڈ کا کنٹرول ختم ہو چکا، یونس خان جیسے سینئرز نے ون ڈے ٹیم سے نکالنے کے فیصلے پر شدید تنقید کر کے غیرضروری تنازع کھڑا کیا، وہ میڈیا سے دور دور ہی رہتے ہیں، جب سامنے آئے تو منفی حوالے سے ہیڈ لائنز کی زینت بن گئے، ان جیسے کھلاڑی کے لیے اپنی بیٹنگ سے ہی خبروں میں آنا مناسب رہے گا، سلیکٹرز کو نشانہ بنا کر وہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔

دبئی ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کی فتح اسپنر عمران طاہر کی مرہون منت رہی،وہ بہتر مستقبل کے لیے پاکستان چھوڑ کر جنوبی افریقہ منتقل ہو گئے تھے، اب پکے افریقی بن چکے اور اردو میں بات یا پاکستان سے تعلق جوڑنا بالکل پسند نہیں کرتے، عمران فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے تھے مگر پاکستانی ٹیم میں شامل نہ ہو سکے،اس وقت دانش کنیریا کا دور تھا اور ان کی جگہ نہیں بن سکی، وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لائے اور اب پروٹیز سائیڈ کا حصہ ہیں، اس سے قبل وہ گذشتہ ٹیسٹ میں آسٹریلیا کیخلاف تاریخ کی بدترین بولنگ کرتے ہوئے 260رنز دینے کے باوجود وکٹ سے محروم رہے تھے ۔

جس کی وجہ سے ڈراپ ہونا پڑا، یہ کہنا کہ انھیں پاکستان میں چانس نہ ملا تو ملک چھوڑ دیا درست نہیں، وہ جنوبی افریقی لڑکی سے شادی کر کے شہریت حاصل کرنے وہاں گئے،لاہور میں رہائش کے دنوں میں وہ اتنے غیرمعمولی بولر بھی نہ تھے کہ فوراً چانس مل جاتا، پاکستان کے چند دیگر پلیئرز اظہر محمود، ثقلین مشتاق اور وقار یونس و دیگر نے بھی پاکستانی نژاد غیرملکی خواتین سے شادی کر کے برطانیہ و آسٹریلیا کی شہریت حاصل کی ہے، جنوبی افریقہ میں چونکہ اسپنرز کی کمی ہے لہٰذا عمران کو چانس مل گیا ورنہ یہاں دیگر اسپنرز کی بہتات کے سبب شائد اب بھی موقع کے انتظار میں ہوتے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات اب تک نہیں سلجھ سکے،اختیارات کے لیے نجم سیٹھی کی بے چینی بڑھنے لگی مگر عدالت ان کے عزائم پورے نہیں ہونے دے رہی،میرا ان سے براہ راست رابطہ تو نہیں البتہ کوئی بات پہنچانی ہو تو اپنے ایک صحافی دوست یحییٰ حسینی سے کہہ دیتا ہوں، ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ ان کی بڑی سنتے ہیں، انھیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ مستقل طور پر بورڈ کی ذمے داری نہیں سنبھال سکتے، لہٰذا عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کرانے پر توانائیاں صرف کریں، اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود تاخیری حربے اختیار کر کے ملکی کرکٹ کو مزید مسائل کا شکار کررہے ہیں، اگر نجم سیٹھی انتخابات نہیں کرا سکتے تو ایڈہاک کمیٹی کی نشست خالی کر دیں، شائد کوئی نیا شخص آ کر اس حوالے سے اقدامات کرے اور پاکستانی کرکٹ سے بے یقینی کا دور ختم ہو سکے۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔