مسلمان

جاوید چوہدری  ہفتہ 26 اکتوبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

دن 14 اگست کا تھااور سن 610ء‘ رمضان المبارک کی اٹھارہویں تاریخ تھی‘ ہجرت کو ابھی بارہ سال باقی تھے‘ ہمارے رسولؐ غار حرا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت فرما رہے تھے‘ حضرت جبرائیل امین ؑ تشریف لائے اور فرمایا ’’ پڑھ‘‘۔ دوجہانوں کے مالک نے جواب دیا ’’میں پڑھنا نہیں جانتا‘‘ حضرت جبرائیل ؑ نے رحمت اللعالمین کو سینے سے لگایا‘ زور سے بھینچا‘ آپؐ کو تکلیف ہوئی‘ حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کو چھوڑا اور فرمایا ’’ پڑھ‘‘ مالک دو جہاں نے دوسری بار جواب دیا ’’ مجھے پڑھنا نہیں آتا‘‘ فرشتے نے دوسری بار سینے سے لگایا‘ دبایا اور فرمایا ’’پڑھ‘‘ مالک دو جہاں نے فرمایا ’’کیا پڑھوں‘‘ فرشتے نے تیسری بار سینے سے لگایا‘ بھینچا اور اس کے بعد ہمارے رسولؐ پر پہلی وحی اتری ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘ جس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے‘ پڑھ اور آپؐ کا رب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم کے واسطے‘ اسی نے سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ یہ دنیا کے آخری نبیؐ اور آخری دین کے لیے اللہ تعالیٰ کا پہلا پیغام تھا‘ آپ اگر اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو آپ اور مجھ جیسے گنہگار کے لیے پہلی دو وحی کافی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی میں انسان کو چار پیغام دیے‘ اللہ کے نام سے پڑھئے یعنی پڑھنا مسلمان کے لیے اللہ کا پہلا حکم ہے اور ہم میں سے جو مسلمان پڑھتا نہیں وہ اللہ کے پہلے حکم کی عدولی کرتا ہے چنانچہ ہم اگر مسلمان ہیں تو ہمیں روز مطالعہ کرنا چاہیے۔

دوسرا پیغام‘ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور پیدا بھی جمے ہوئے خون سے کیا یعنی ایسی چیز سے پیدا کیا جس سے شاید پیدائش ممکن نہ ہو‘ گویا انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کا عظیم معجزہ ہے‘ خالق اپنی مخلوق کا ذمے دار ہوتا ہے اور ہماری زندگی‘ ہمارے رزق‘ ہمارے عروج و زوال اور ہمارے اتار اور چڑھائو ہر چیز اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ہمیں زندگی کے تمام معاملات کے لیے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا چاہیے‘ تیسرا پیغام‘ آپ کا رب بڑا کریم ہے‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے تیسرا پیغام تھا‘ اللہ تعالیٰ کریم ہے‘ بڑا ہی کریم ہے یعنی ہمیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے کرم مانگنا چاہیے اور اللہ کرم کرتا ہے اور اسلام کی پہلی وحی کا چوتھا اور آخری پیغام پھر علم سے متعلق تھا ’’ جس نے علم سکھایا اور قلم کے واسطے‘ اسی نے سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ اس پیغام میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو انسان کو علم عنایت کرتی ہے‘ علم والے اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جب انھیں علم دیتا ہے تو ان پر فرض ہو جاتا ہے یہ اس علم کو قلم کے ذریعے آگے پھیلائیں یعنی کتابیں لکھیں چنانچہ ہم میں سے ہر وہ شخص جو علم اور تجربے کے باوجود کتاب نہیں لکھتا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرتا ہے۔

ہمارے رسولؐ پر پہلی وحی 14 اگست 610ء کو نازل ہوئی تھی‘ آپ  ؐ گھبرا گئے‘ گھر واپس تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا ’’ مجھے کمبل اوڑھا دو‘ مجھے کمبل اوڑھا دو‘ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘ حضرت خدیجہؓ نے کمبل اوڑھا دیا اور آپؐ  کو دلاسا دیا ’’ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بے آبرو نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ کمزوروں اور ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ مفلس اور ناداروں کو اپنی نیک کمائی سے حصہ دیتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں‘ مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں اور آپؐ لوگوں کی دستگیری کرتے ہیں‘‘ حضرت خدیجہ ؓ کے یہ الفاظ انسانیت کا چارٹر ہیں‘ یہ وحی کے بعد کسی انسان کا نبی اکرمؐ  کو پہلا ٹریبوٹ تھا‘ میری آپ خواتین و حضرات سے درخواست ہے‘ آپ اگر دنیا میں آبرومندانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ ان الفاظ کو فریم کروا کر اپنی دیوار پر لگا لیں یا میز پر رکھ لیں اور ان چھ احکامات کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیں اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی مخلوق میں بے آبرو نہیں ہونے دے گا‘ یہ ہم عام انسانوں کے لیے کامیابی اور عزت کا فارمولہ ہے‘ میں واپس وحی کے سلسلے کی طرف آتا ہوں۔

نبی اکرمؐ پر پہلی وحی کے نزول کے بعدکچھ عرصے تک دوسری وحی نازل نہیں ہوئی جس کی وجہ سے آپؐ مضطرب اور پریشان رہتے تھے یہاں تک کہ ایک دن آپؐ غار حرا کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ‘ راستے میں حضرت جبرائیل امین ؑ تشریف لے آئے‘ آپؐپر لرزہ طاری ہو گیا‘ آپؐ  گھر تشریف لے آئے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا ’’ مجھے چادر اوڑھا دو‘ مجھے چادر اوڑھا دو‘‘ آپؐ لیٹ گئے‘ چادر اوڑھ لی اور آپؐ پر دوسری وحی نازل ہو گئی‘ دوسری وحی کے الفاظ تھے ’’ اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے اٹھیئے اور خبردار کیجیے اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کیجیے‘ اپنا لباس پاک رکھئے اور گندگی سے دور رہیے‘ احسان کسی فائدے کی خاطر نہ کیجیے اور اپنے رب کے لیے صبر کیجیے‘‘ یہ دوسری وحی آپ اور میرے جیسے گنہگاروں کے لیے دوسرا چارٹر تھا‘ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کے لیے چار احکامات جاری کیے‘ ہم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کریں‘ ہم ہر وقت اٹھتے‘ بیٹھتے‘ چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کریں اور اس کی بڑائی‘ اس کے کرم پر شکر ادا کریں‘ دوسرا حکم لباس کی صفائی اور گندگی سے پرہیز تھا۔

اللہ تعالیٰ کو گندے لوگ اور گندگی پسند نہیں چنانچہ اس نے حکم جاری کیا آپ اگر مسلمان ہیں تو آپ کا لباس صاف ہونا چاہیے اور آپ کو گندگی نہیں پھیلانی چاہیے‘ اس حکم سے ہم پر صفائی اور گندگی سے پرہیز فرض ہوگیا‘ تیسرا حکم لوگوں پر بے لوث ہو کر احسان کریں‘ آپ کو جب بھی کسی پر احسان کرنے کا موقع ملے آپ بے لوث ہو کر احسان کریں اور چوتھا حکم صبر تھا‘ صبر روزے جیسی کیفیت ہوتی ہے‘ آپ کے سامنے کھانا اور مشروبات پڑے ہوتے ہیں مگر آپ صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانے اور پینے کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے‘ زندگی میں آپ کو اسی طرح دوسروں سے بدلہ لینے‘ اپنی انا کا جھنڈا بلند کرنے‘ لوگوں کو خریدنے اور دوسرں کو رگیدنے کا پورا پورا موقع ملتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وسائل اور طاقت بھی دے رکھی ہوتی ہے مگر آپ اس کے باوجود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خاموش رہتے ہیں‘ آپ اپنے ہاتھ‘ اپنی جیب اور اپنی طاقت کو قابو میں رکھتے ہیں تو آپ صابر کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس صبر کا میٹھا پھل عنایت کرتا ہے‘ یہ چاروں احکامات اور اس سے قبل علم‘ قلم اور اللہ تعالیٰ کریم ہے یہ نبی اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی دو وحیوں کے پیغامات ہیں‘ اسلام ان دو وحیوں سے شروع ہوتا ہے اور آخری وحی( حجتہ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی‘ترجمہ:آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا) پر ختم ہوتا ہے۔

حضرت جبرائیل امین ؑ نے ان دو وحیوں کے بعد نبی اکرمؐ  کو وضو کرنے کا طریقہ اور نماز سکھائی اور اس کے بعد نماز مسلمانوں پر فرض ہو گئی‘ مسلمان شب معراج تک صرف دو نمازیں پڑھتے تھے‘ فجر کے وقت دو رکعت نماز اور مغرب کے وقت دو رکعت نماز باقی تین نمازیں معراج کے دوران فرض ہوئیں چنانچہ اگر یہ جسارت نہ ہو (میں اگر غلطی پر ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے) تو اللہ تعالیٰ نے نماز سے قبل مسلمان کو علم‘ قلم‘ اللہ تعالیٰ کے کرم‘ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو تسلیم کرنا‘ لباس کی صفائی اور گندگی سے پرہیز‘ بے لوث احسان اور صبر کا حکم دیا تھا اور ان احکامات کے بعد دنیا کے پہلے مسلمان کو وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا تھا‘ آپ وحی کے اس آرڈر کو سامنے رکھ کر سوچئے اگر مسلمان پڑھ نہیں رہا‘ یہ روز کتاب نہیں پڑھتا‘ یہ آخری سانس تک اللہ تعالیٰ کے پھیلائے ہوئے علم نہیں سیکھتا‘ یہ اپنے علم اور تجربے کو قلم کے سپرد نہیں کرتا‘ یہ روز ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان نہیں کرتا‘ یہ لباس کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا۔

یہ گندگی سے پرہیز نہیں کرتا‘ یہ روز لوگوں پر بے لوث احسان نہیں کرتا اوریہ قدرت کے باوجود روز صبر نہیں کرتا تو کیا یہ صرف وضو اور نماز کی بنیاد پر اچھا اور مکمل مسلمان ہو سکتا ہے اور ہم اگر نماز اور وضو کے علاوہ باقی خوبیاں تلاش کریں تو کیا یہ ہمیں اپنے مخالفوں میں نہیں ملتیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں‘ دنیا کا اسی فیصد علم یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے غیر اسلامی ممالک میں ہے‘ دنیا کی نوے فیصد کتابیں یورپ اور امریکا میں شائع ہوتی ہیں‘ یہ لوگ علم اور قلم کے سچے عاشق ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے بھی مستفید ہو رہے ہیں‘ یہ اس کی بڑائی کا کھوج بھی لگا رہے ہیں‘ یہ لباس اور ماحول دونوں کی صفائی کو مذہب کا درجہ بھی دیتے ہیں‘ یہ پوری دنیا کے محسن بھی ہیں اور یہ انفرادی اور قومی دونوں سطح پر ہم سے زیادہ صابر بھی ہیں اور اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ہمارے پاس کیا بچتا ہے؟ وضو اور نماز اور کیا صرف یہ دونوں پورا اسلام ہو سکتے ہیں؟ جی نہیں! اور یہ فیصلہ بھی کیجیے جس دن ان لوگوں نے وضو کر لیا اور نماز پڑھ لی کیا یہ اس دن ہم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مقرب نہیں ہو جائیں گے؟ اور اگر یہ ہو گئے تو پھر ہماری 14سو سال کی تپسیا‘ ہماری چودہ سو سال کی مسلمانی کہاں جائے گی؟۔

آپ ایک لمحے کے لیے صرف سوچئے گا۔

(نوٹ: یہ میری ذاتی رائے ہے جس کے غلط ہونے کے امکانات بھی ہیں‘ جہاں آپ کو غلط لگے میری رہنمائی کریں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔