آئن اسٹائن اور برٹرینڈرسل

رئیس فاطمہ  ہفتہ 26 اکتوبر 2013

بڑے بڑے دانش ور اور اہل درد یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ، ہمارے ملک میں برٹرینڈ رسل اور آئن اسٹائن جیسے لوگ کیوں پیدا نہیں ہو رہے۔۔۔؟ تشویش تو بہرحال اپنی جگہ لیکن یہ کوئی مشکل سوال نہیں۔ اس کا جواب تو سب ہی جانتے ہیں۔ خصوصاً وہ جن کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے۔۔۔!!

جب تعلیمی اداروں میں کھلے عام نقل ہو گی، سیاسی و مذہبی جماعت کے ’’کارندے‘‘ زور زبردستی سے اپنے اپنے لوگوں کو نقل کروانے کے لیے سینئر سپرنٹنڈنٹ اور پرنسل کو اسلحہ دکھا کر دھمکیاں دیں گے تو آئن اسٹائن کیوں کر پیدا ہوں گے؟ پاکستان میں جس طرح تمام شعبے زوال پذیر ہیں۔ ان میں سرفہرست تعلیم کا شعبہ ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر سب کے سب اس بہتی گنگا میں کہنیوں تک ہاتھ دھو رہے ہیں۔ برٹرینڈ رسل اور البرٹ آئن اسٹائن تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تو اب نہ کوئی دوسرا فیضؔ ہے، نہ فرمان فتح پوری اور نہ ڈاکٹر عبدالسلام۔ کسی کو ہم نے قادیانیت کی بھینٹ چڑھا دیا اور جو باقی رہ گئے تھے۔ انھیں لسانی تعصب کی بنا پر ملک سے باہر جانے پر مجبور کر دیا۔ جہاں ان کی قابلیت سے عیسائی اور یہودی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ لوگ جنھیں ہمارے ’’متقی، پرہیز گار اور ایمان افروز‘‘ لوگ یہود و نصاریٰ کہہ کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے احساس کمتری کی تسکین کرتے ہیں۔ وہ انسانوں کی قابلیت، ذہانت اور محنت کو تمام باتوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو باہر جاتا ہے وہ اپنی قابلیت کا پھل پاتا ہے اور ان میں سے جو بھی وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار واپس آکر کچھ کرنا چاہتا ہے تو متعلقہ شعبے اس کو کاغذی کارروائیوں میں الجھا کر ناکوں چنے چبوا دیتے ہیں۔ مجبوراً یا تو وہ واپس چلا جاتا ہے یا پھر دل برداشتہ ہوکر کوئی ذاتی کاروبار رشوت دے کر کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔

ایسے بے شمار واقعات کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں پیش آ چکے ہیں۔ جب لوگ اپنے وطن کے لیے پُرجوش واپس آئے اور یہاں میرٹ کا قتل عام، رشوت کا گرم بازار، جعلی ڈگریوں کے حامل اراکین اسمبلی، زمینوں پہ قبضے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ اکثر اپنے ہی وطن میں لٹ گئے، جو کسی طرح بچ گئے وہ ’’وطن کی محبت‘‘ سے باز آئے۔ سو دفعہ زمین پہ ناک رگڑی اور جہاز میں بیٹھ کر واپس ان ہی دیسوں کو چلے گئے۔ جہاں انسان کو صرف انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مذہب آڑے نہیں آتا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اجنبی دیسوں کو واپس جانے والے اسلامی ممالک میں واپس نہیں جاتے کہ وہاں آج تک عرب اور عجم کا سلسلہ دراز ہے۔ سونے پہ سہاگہ ہمارا گرین پاسپورٹ جو ہمیشہ ہر جگہ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یہی خلیجی ممالک کے بدو ہماری چارہ  گاہوں میں تیتر۔۔۔بھٹ تیتر اور تلور کا شکار کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ وہی پاکستانیوں کے ساتھ جو بے رحمانہ سلوک کرتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کفیل کے بغیر نہ نوکری ملے گی نہ گھر نہ اقامہ۔ حد تو یہ کہ وہاں کی عرب لڑکی سے مسلمان ہونے کے باوجود آپ شادی نہیں کر سکتے۔ جب تک ہوم منسٹری اور دیگر ذرائع سے اجازت نہ مل جائے۔ جب کہ امریکا، کینیڈا اور دیگر یورپین ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔

اب ہم دوبارہ اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ہمارے ہاں قابل لوگ کیوں پیدا نہیں ہو رہے۔۔۔۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ تعلیمی ادارے اور کوچنگ سینٹرز ہیں جنھوں نے نئی نسل کو مطالعے سے بالکل دور کر دیا ہے اور صرف ان ’’نوٹس‘‘ کا عادی بنا دیا ہے جن کو رٹ کر وہ امتحان میں اے ون گریڈ لے سکتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ نام نہاد ’’نوٹس‘‘ خواہ وہ کسی بھی مضمون کے ہوں۔ کسی طرح بھی اوریجنل نہیں ہوتے۔ بلکہ صرف دو یا تین مختلف کتابوں کی نقل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے کہ کہیں اصل مولف یا مصنف چوری یا سرقے کا مقدمہ نہ دائر کر دے۔ اس لیے یہ دو نمبر کے استاد دو تین کتابوں کے صفحے ملا کر نوٹس بناتے ہیں۔ پھر ان کی فوٹو کاپی بنوا کر نہایت مہنگے داموں اس یقین کے ساتھ فروخت کرتے ہیں کہ ان نوٹس کا رٹا لگا کر A+ لیا جا سکتا ہے۔ طلبا و طالبات کی اکثریت نصاب کی کتابیں بھی نہیں خریدتی۔ کیونکہ پچانوے فیصد پروفیسرز اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ان نصابی کتب کے بجائے جو کہ سلیبس میں شامل ہیں وہ اپنے نوٹس، شرح اور گائیڈ بکس کی فروخت میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔

میں نے جن کالجوں میں بھی پڑھایا وہاں ’’بی‘‘ گریڈ سے کم کا طالب علم داخلہ لے ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جب ان 80 اور 85 فیصد نمبروں سے امتحان پاس کرنے والوں سے نصابی کتاب نکالنے کو کہتی تھی تو اکثریت کے پاس یا تو وہی برسوں پرانے فرسودہ نوٹس ہوتے تھے یا پھر شرح اور گائیڈ بُکس۔ اصل کتاب شاذ و نادر ہی بیگ میں سے برآمد ہوتی تھی۔ ایک بار میں نے اپنے ذہین اور محنتی طلبہ کو وہ دونوں کتابیں دکھا دیں جن میں سے ایک مشہور کالج کے قابل پروفیسر جو کہ میرے ساتھی بھی تھے نے وہ نوٹس بنائے تھے۔ بچوں نے میری بات مانتے ہوئے ان نوٹس کو ایک طرف ڈال کر باقاعدہ کلاسیں اٹینڈ کرنی شروع کر دیں اور فارغ اوقات میں کچھ نئی معلومات کے اضافی نوٹس بھی مجھ سے لینے لگے جو نئی کتابوں اور نئی تحقیق پر مبنی تھے۔ تب ایک دن ان ہی پروفیسر کی جانب سے ایک طالب علم کے ذریعے شکوہ و شکایت سے پر ایک خط موصول ہوا جس میں یہ گلہ تھا کہ میں ان کی روزی پہ لات کیوں مار رہی ہوں۔ کیونکہ میری کلاسوں کے زیادہ طالب علموں نے ان سے نوٹس خریدنا اور ان کے کوچنگ سینٹر جانا بند کر دیا تھا۔ بعد میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ اکثر کوچنگ سینٹرز کے مالکان، ان میں پڑھانے والے اور نجی طور پر ٹیوشن کرنے والے اساتذہ نے کچھ اپنے جاسوس ہر کلاس میں چھوڑ رکھے ہیں۔ جو انھیں پل پل کی خبر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں استاد کہنا اس لفظ کی کھلی توہین ہے۔ ان کی تنخواہیں ساری زندگی بینکوں میں جمع ہو کر منافع در منافع حاصل کرتی رہتی ہیں اور ان کے گھر بلوں اور دیگر اخراجات کوچنگ اور گھروں پہ ٹیوشن سے پورے ہوتے ہیں۔ جب خزانے کا رکھوالا ہی نقب زن بن جائے تو سائنس دان اور دانش ور کہاں سے پیدا ہوں گے۔

اس کوچنگ مافیا کے علاوہ ایک نقل مافیا بھی ہے۔ جو پورے پنجوں اور ناخنوں کے ساتھ حملہ آور ہے۔  جہاں ایک وزیر اعلیٰ دیدہ دلیری سے کہہ دے کہ ۔’’ڈگری تو ڈگری ہے، جعلی ہو یا اصلی‘‘۔ تو پھر کھلے عام نقل کے رجحان اور جعلی ڈگری کے حصول کی دوڑ کیوں نہ شروع ہو گی۔ آج کسی بھی شعبے پہ نظر ڈالیے۔ جعلی ڈگری، رشوت اور ذہین و قابل لوگوں کا قتل عام ہر طرف دکھائی دے گا۔۔۔۔لوگ اب نوجوان ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ شاید ایک ہزار میں کوئی ایک ہی ہو گا جس نے اپنی ذہانت اور محنت سے ڈگری حاصل ہو گی۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ میٹرک سے لے کر ماسٹرز کرنے تک، M.B.A۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کی اعلیٰ ترین ڈگری لینے تک ذہین طلبا و طالبات کو ہمیشہ پیچھے رکھا جاتا ہے۔ A+ یا فرسٹ کلاس صرف انھیں ہی ملتی ہے جو ذمے داران کے مطالبات پورے کر سکتے ہیں۔ میٹرک اور انٹر میں تینوں پوزیشنوں کو کس طرح بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اس کے ذمے داروں سے سب واقف ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر شعبے کے چیئرمین کی ذاتی پسند ناپسند ہی پوزیشن ہولڈر کے نام کا تعین کرتی ہے۔ کئی سال سے طالبات کی جانب سے یہ شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں کہ۔۔۔۔ جسے پیا چاہیں وہی سہاگن۔۔۔۔‘‘ ہمارے زمانہ طالب علمی میں گریجویشن تک تو یہ حال تھا کہ کمرہ امتحان میں ’’سر اٹھایا تھا کہ سنگ یاد آیا‘‘ والی کیفیت تھی۔ انوی جیلیٹر کی خوفناک نگاہیں فوراً پیچھا کرتی تھیں۔

ایسی صورت میں جب ہر طرف بانجھ پن کے بیج بوئے جا رہے ہوں۔ کسی نئے شگفتہ پھول کا کھلنا محال نظر آتا ہے۔ مطالعے کا ختم ہو جانا۔ بے سری اور بکواس موسیقی کا فروغ، کلاسیکی اور نیم کلاسیکی کا قتل عام، فنون لطیفہ کی بے قدری اور منشیات کا استعمال جس تیزی سے نوجوان نسل میں بڑھتا جا رہا ہے۔ اس میں کسی بڑے گلوکار، موسیقار، ادیب، شاعر، سائنس دان اور دانش ور کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔ کیکر بو کر انگور کے خوشوں کی توقع کرنا محض حماقت ہے۔ البتہ خودکش بمباروں کی کھیپ ضرور پیدا ہوتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔