خوابوں کی تجارت کا گورکھ دھندہ

اسلم خان  ہفتہ 26 اکتوبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

سیاست گری، امید دلانے اور خواب دکھانے کا کھیل ہے۔ آس امید اور خوابوں کی تجارت کا گورکھ دھندا گزشتہ 62 سال سے جاری ہے۔ امیدوں اور خوابوں کے تاجروں نے اپنا مال کامیابی سے بیچا لیکن امید، آس اور خواب کی کوئی تعبیر ممکن نہ ہو سکی۔ نئے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کے خوش کن نعروں کی گونج میں عوامی مقبولیت کی معراج کو پہنچے۔ مغربی پاکستان میں اپنے تمام حریفوں کو خاک چٹوا دی۔ چار سال کامل اقتدار کے مزے اڑائے، من مانیاں کیں، آئین میں ترامیم کیں۔ اس جمہوری دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بڑے سیاست دانوں سے غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ انھوں نے سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کر کے جنرل ضیاء الحق کو سپہ سالار بنایا کہ وفادار رہے گا حالانکہ وہ  انھیں ’’بوزنا جرنیل‘‘ کہا کرتے تھے۔ 1977ء کے عام انتخابات میں بھٹو صاحب کے بعض نام نہاد وفاداروں نے ایسے اقدامات کیے کہ دھاندلی کا شور مچ گیا، پھر پاکستان قومی ا تحاد نے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ انجام کار جناب بھٹو جیسے عظیم رہنما کو ان ہی کے پسندیدہ جرنیل نے عدالت کا سہارا لے کر تختہ دار پر چڑھا دیا۔ پسند اور ناپسند کا کھیل حکمرانوں سے غلطیاں کراتا رہتا ہے۔

آج بھی نئے سپہ سالار کے تقرر کا معاملہ درپیش ہے۔ کہتے ہیں کہ لندن کے میثاق جمہوریت میں اِن تمام عہدوں پر تعیناتی کا طریق کار طے کر دیا گیا تھا کہ سنیارٹی ان پیچیدہ معاملات کو آسان بنانے کے لیے شہہ کلید ہو گی۔ جناب نواز شریف چار سپہ سالاروں کے تقرر کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ آصف نواز، وحید کاکڑ، جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف کا تقرر کر چکے ہیں جس میں سے جنرل مشرف کے بارے میں ان کے تمام اندازے یکسر غلط ثابت ہوئے۔ بہرحال  تعیناتی تو ہونی ہی ہے، اس لیے سپہ سالار کا نام جلد  ہی منظر عام پر آ جائے گا۔ ویسے جناب نواز شریف کو تین سال بعد ایک بار پھر نیا سپہ سالار مقرر کرنے کا موقع بھی ملے گا، اس طرح وہ چھ سپہ سالار مقرر کرنے کا منفرد اعزاز حاصل کر لیں گے۔

ویسے جناب نواز شریف کا تیسرا دور اقتدار یکسر مختلف اور دھیما انداز لیے ہوئے ہے۔ وہ انتہائی سنجیدگی سے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔گزشتہ ادوار سے انھوں نے یہ زریں سبق سیکھ لیا ہے کہ اقتدار کے کھیل میں حریف سیاستدان ہی اصل دوست ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف احتسابی کارروائیاں کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو بتدریج انتقام کے وحشیانہ کھیل کا روپ دھار لیتی ہیں۔ انتخابات 2013ء کے نتائج کو کسی اور نے خوش دلی سے قبول کیا ہو یا نہیں،  جناب نواز شریف پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اوکاڑہ، ڈیرہ غازی خان اور سب سے بڑھ کر فیصل آباد کے اپنے مضبوط قلعے میں شکست کو بھی کشیدہ دلی سے پی گئے ہیں کہ یہ میدان جنگ و جدل نہیں، سیاست کا کھیل ہے جس میں انتخابی فتح و شکست تسلیم کرنا جمہوریت کا حسن ہے ورنہ مصاحبین اقتدار تو اس پر ایسا واویلا کرتے کہ زمین و آسمان کو اپنی داد و فریاد سے تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے۔

حرف آخر یہ کہ عیدالاضحٰی کی تعطیلات کے دوران فشار خون کے سبب لاچار پڑا رہا جس کی وجہ سے کالم کا ناغہ طویل ہو گیا۔ خوشی اور غم زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ ممتاز کالم نگار طارق چوہدری کے والد گرامی کا انتقال اور ہماری نو آباد بستی میڈیا ٹائون میں ان کی تدفین بھی انھیں دنوں میں ہوئی۔ اس دوران بلاول بھٹو زرداری نے عوامی جلسے سے خطاب کر کے باضابطہ میدان سیاست میں کودنے کا اعلان کیا۔

نوجوان بلاول کے جذبات کا جوار بھاٹا بے قرار اور بے کراں تھا۔ زمینی حقائق سے کوسوں دور وہ اپنے سیاسی حریفوں سے چومکھی لڑائی لڑنے کا اعلان کر رہے تھے، پنجاب میں وہ جناب نواز شریف کی مسلم لیگ اور مقبول عام عمران خان کی تحریک انصاف کو دعوت مبارزت دے رہے تھے تو اسی وقت سندھ میں کراچی اور حیدرآباد میں اپنی سابقہ اتحادی ایم کیو ایم کی ’’چڑھی پتنگ‘‘ کا بوکاٹا کرنے کا دعویٰ بھی کر رہے تھے جب کہ پیپلز پارٹی پسپائی کرتے کرتے صرف سندھ دھرتی تک محدود ہو چکی ہے۔ 2008ء کے مقابلے میں 2013ء کے عام انتخابات میں 70 لاکھ ووٹ کھو چکی ہے، جناب نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے اصل حریف عمران خان کی تحریک انصاف کے 70 لاکھ ووٹوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ جوش جذبات اپنی جگہ،  حقیقت یہ ہے کہ بلاول علی زرداری کو ورثے میں لٹی پٹی اور اجڑی ہوئی پیپلز پارٹی ملی ہے جس کے کارکنوں کی نوجوان نسل ان کے نانا کے بجائے ان کی عظیم والدہ اور پاکستان کی شیر دلیر بیٹی بے نظیر بھٹو کو جانتی اور پہنچاتی ہے، بھٹو مرحوم تو ان کے لیے موہوم ہیولا ہیں۔ بلاول کو بھٹو بن کر اس موہوم ہیولے کی ازسرنو نقش گری کرنا ہو گی۔ پیپلز پارٹی صرف بھٹو کے نام پر ہی زندہ رہ سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔