لکھا کیوں نہیں

طارق محمود میاں  ہفتہ 26 اکتوبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

اس نے پوچھا ’’تم نے ابھی تک زبیدہ خانم پر کیوں نہیں لکھا؟‘‘

میں کیا جواب دیتا۔ میں نے نور جہاں پر بھی نہیں لکھا تھا۔ لکھ ہی نہیں سکا، جس فن کی وسعت کو خیال کے احاطے میں لانا ہی ممکن نہیں تھا اس کے سامنے بہت جتن کرنے کے بعد میں نے ہاتھ جوڑ دیے اور ہار مان لی۔

ہاں! ایک کام میں نے کیا تھا۔ مدت گزری ملکۂ موسیقی، شاہی عمارتوں جیسے سرخ پتھروں سے بنے ہوئے ایک اسپتال میں زیر علاج تھیں۔ پرستاروں کے دل سہمے ہوئے تھے اور چہرے ستے ہوئے۔ لاہور سے ایک صاحب اقتدار سیاستدان تشریف لائے تو میرے ہاں مقیم ہوئے۔ اپنے کام پہ جانے لگے تو عرض کیا ’’ٹھیک ہے آپ کو بہت سے ذاتی اور سرکاری کام ہیں اور آپ کے پاس وقت بھی کم ہے لیکن ایک کام تو کرتے جائیے‘‘۔ بولے ’’کیا؟‘‘

میں نے کہا ’’ملکہ صاحب فراش ہے۔ لاہور جس کے دم سے جیتا اور جاگتا تھا آج فلک نے اسے وہاں سے بے شہر کر دیا ہے اور اب وہ کراچی کی مکیں ہیں۔ لاہور کو نہ ان کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی شاید خبر کی چاہت ہے۔ ماضی میں سفر کروں تو پاگل پن کی سرحد کو چھونے والے پرستاروں میں کھڑے آپ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ میں بھی کہیں آس پاس موجود ہوں۔ سُر کا ایسا نشہ ہے کہ سب ڈوب چکے ہیں۔ ملکہ آج تنہا ہے۔ آپ جائیں گے تو اسے لگے گا میرا گھر، میرا کنبہ، میرا شہر میرا حال پوچھنے کو آ گیا۔ فرض کفایہ ہے، ادا کر دیں‘‘۔

انھوں نے پوچھا ’’ملکہ ہیں کہاں؟‘‘

میں نے اسپتال کا نام بتا دیا۔۔۔۔یہ اسپتالوں کے نام جانے ہم لکھتے کیوں نہیں ہیں۔۔۔۔ اسپتال کا، ہوٹل کا، طعام گاہ کا، دکان کا، مشروب کا، جگہ اور پڑوسی ملک کا اور میرے بیان کے اس مرکزی کردار کا۔۔۔۔نکرہ اور معرفہ سب بے نام ہو گئے اور مصلحتیں نام ور۔ چلو یوں ہی سہی۔ میں نے مزید کہا ’’آپ اپنے کام سے جہاں جا رہے ہیں بس یوں سمجھیں کہ اسپتال کا راستہ وہیں سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔ نصف کلومیٹر پہلے پھولوں کی ایک دکان بھی ملے گی۔ وہاں ایک اچھا سا گلدستہ مل جائے گا۔ اسپتال میں پابندی بہت سخت ہے اور ملکہ کی سیکیورٹی بھی بہت۔ مجھے یقین ہے آپ کا عہدہ رکاوٹیں دور کردے گا۔

شام کو تھکے ماندے لوٹے لیکن ملکہ کا ذکر آیا تو بشاش دکھائی دیے۔ کسی کے ذکر پر اتنی تیزی سے ملائم ہوتے میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ساری داستان تفصیل سے سنائی۔ پھر پلکوں کے کنارے بھیگ گئے۔ بتایا کہ ملکہ ترنم نے مجھے کرسی اپنے پلنگ کے پاس لانے کو کہا اور پھر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کے دیر تک لاہور کی باتیں کرتی رہیں۔ ہر یاد کے ساتھ ایک تازہ چمک ملکہ کے چہرے پر طلوع ہوتے دیکھی۔

ملکہ نے جب آخرت کا سفر کیا تو جانا کہ وہ قسمت ہی ہے جس کے فیصلے تاج محل بنواتے ہیں اور گمنامی بھی نصیب کرتے ہیں۔ لیکن ہاں! یہ بھی تو ہے کہ ملنا ہو تو وطن بدر کو رنگون میں بھی چھوٹا موٹا مقبرہ مل ہی جاتا ہے۔۔۔۔اور جسے وہ بھی نہ ملے؟

اب ایک اعتراف کہ زبیدہ خانم کے گانوں کی عمدگی اور معیار کا تو میں بھی اتنا ہی معترف ہوں جتنے کہ میرے احباب۔ بلکہ ان سے بھی کہیں بڑا پرستار ہوں لیکن میری کم علمی کہ میں سمجھتا تھا وہ تیس چالیس برس پہلے وفات پا چکی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ انھوں نے صرف 244 گانے گائے ہیں۔ یہ تعداد زیادہ نہیں ہے اور اگر صحیح ہے تو پھر مقبولیت اور کوالٹی کی اوسط کے اعتبار سے تو شاید ہی کوئی ان کا ہم پلہ ہو۔ حیرت ہے کہ انھوں نے جتنے بھی نغمے گائے وہ تقریباً تمام کے تمام مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچے۔ عام معیار کے مطابق اگر دو ہزار گانوں میں سے بھی اتنے نغمے مقبول ہو جائیں تو اس فنکار کو صف اول میں رکھا جاتا ہے اور زبیدہ خانم نے تو ویسے بھی ایک انقلاب بپا کر دیا تھا۔ ان کے پنجابی نغمے تو انھیں بلاشبہ ایک عہد ساز گلوکارہ کا درجہ عطا کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات شاید بہت سوں کو معلوم نہ ہو کہ ان کے گائے ہوئے ایک اردو نغمے نے وہی کام کیا تھا جو 1932ء میں لکھنو سے شائع ہونے والی افسانوں کی کتاب ’’انگارے‘‘ نے کیا تھا۔ دس افسانوں پر مشتمل اس کتاب نے ایسا تنازعہ کھڑا کیا تھا کہ اس کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑ گئی تھی۔ اس کے بعد یہ معاملہ بہت دور اور دیر تک چلا۔ اسی طرح زبیدہ خانم کے گائے ہوئے گانے۔۔۔۔ ’’میں گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں۔ سیّاں جی کا کہنا میں مانوں کہ ٹالوں‘‘۔۔۔۔۔سے بھی تنازعات کی بھرمار ہو گئی تھی اور ایک بحث بہت دور اور دیر تک چل نکلی تھی۔ اس بات کو بس یہیں تک رہنے دیں۔ میں نہیں چاہتا کہ کچھ نئے اور تازہ دم لڑاکے مرغے آٹھ بجے والے اینکروں کے ہاتھ میں آ جائیں۔

جہاں تک ملالہ کا ذکر ہے تو اب ایسا بھی نہیں کہ میں نے اس کے بارے میں لکھا ہی نہ ہو۔ میں نے ’’گیارہ اکتوبر‘‘ کے عنوان سے نوبل پرائز کے بارے میں جو کالم لکھا تھا اس میں اسے ڈسکس کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ ’’امن انعام کی جیوری کے پیش نظر مقبولیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی‘‘۔ ہم خوامخواہ میں اتنی اچھل کود کر رہے تھے، آخری دوڑ میں ملالہ کا درجہ کہیں نیچے تھا۔ ویسے بھی حقیقت یہ ہے کہ اگر ظلم و بربریت کو بنیاد بنا کر انعام دیا جانے لگے تو دنیا بھر کے مظلوم اپنے اپنے زخم سجا کے انعام مانگنے کھڑے ہو جائیں گے۔

بات سیدھی سی ہے کہ ملالہ ایک باصلاحیت بچی ہے۔ وہ لڑکیوں کے حصول تعلیم کے لیے، جبر کے ماحول میں، ایک مضبوط آواز بن رہی تھی کہ ملک میں جاری جاہلانہ وحشت کی زد میں آ گئی۔ اس پر ظلم تو ہوا لیکن پھر مظلوم کو کچھ لوگوں نے ایک Tool کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان کی مرضی کے الفاظ، ان کی مرضی کے زاویے اور پھر ایک عجیب و غریب کتاب، یہ سب میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ابھی کچھ روز انتظار کر کے دیکھنا ہو گا۔ اس کے باوجود میں ملالہ کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ اسے انعامات ملتے ہیں اور پذیرائی ہوتی ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ سادہ لباس میں ملبوس ایک ماڈل پاکستانی بچی پر اوروں کی طرح مجھے بھی پیار آتا ہے۔ اس کے حوالے سے میرے ملک کا نام اچھے معنوں میں لیا جائے تو اس میں خرابی کیا ہے؟

میں ایسی باتیں لکھتا ہوں تو ’’مولوی‘‘ اعتراض کرتا ہے۔ کہتا ہے تم ملالہ کی پذیرائی پر لکھتے ہو اور گانے بجانے والیوں کی تحسین کرتے ہو۔ وہ مجھے آسمانی پہلو دکھانے اور ڈرانے لگ جاتا ہے، اور میں کہتا ہوں کہ جب تو مرے گا تو میں اس وقت بھی ضرور لکھوں گا ۔ رڈالی بن جاؤں گا کہ تو تو ایک ایسا چبھتا ہوا کانٹا ہے جو مجھے جگائے رکھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔