ہر چہرہ…ڈبل ہے…

شیریں حیدر  ہفتہ 26 اکتوبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ ہوں …‘‘ میں نے رجسٹریشن فارم اٹھا کر سرسری  سا پڑھا جو کہ سنان کے والد نے ابھی بھرا تھا… میں نے بچے کی طرف دیکھا، ’’ کیا نام ہے بیٹا آپ کا ؟ ‘‘ میں نے انگریزی میں پوچھا۔

’’ سنان احمد میڈم! ‘‘ بچے نے پورے اعتماد سے کہا۔

’’ آپ کو رنگ کون سا پسند ہے؟ ‘‘ اگلا سوال تھا، ’’ نیلا؟ ‘‘ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی پنسل اس کے سامنے کی۔

’’ مجھے نیلا رنگ پسند ہے مگر آپ کے ہاتھ میں تو لال پنسل ہے… ‘‘ اس کا جواب بھی میرے سوال کی طرح انگریزی میں تھا۔ میں اس کی چالاکی پر تو حیران تھی ہی مگر اس سے زیادہ اس کے والد کی چالاکی پر حیران تھی۔

’’ بچہ تو ابھی فقط ڈھائی برس کا ہے، اس قدر جلدی آپ اسے اسکول میں کیوں داخل کروانا چاہتے ہیں؟ ‘‘ میں نے ان سے سوال کیا، ’’ بہتر ہے کہ آپ اسے اگلے برس اگست  میں اسکول لے کر آئیں کیونکہ ہمارے ہاں day care نہیں ہے! ‘‘

’’ مگر آپ دیکھیں میڈم کہ بچہ آپ کی ہر بات کا جواب انگریزی میں اور پورے اعتماد سے دے رہا ہے… ‘‘ اس نے واقعی ایک مثبت پہلو کی طرف توجہ دلائی جو کہ ہمارے ادارے میں داخلے کے لیے اہم تھا۔

’’ اس کی دو وجوہات ہیں سر… ‘‘ میں نے ادھوری بات چھوڑ کر بچے کو شفقت سے پکڑ کر اپنے پاس بلایا، اسے ایک پنسل تھمائی اور ایک سادہ کاغذ دیا، ’’ اس پر اپنا نام لکھیں بیٹا! ‘‘ اس نے فوراً اپنا نام لکھا، ’’ ایک تو اس کی والدہ ایک ٹیچر ہیں… ‘‘ میں نے بچے کو اپنے سامنے کھڑا کیا، ’’ دوسرے یہ بچہ ڈھائی برس کا ہر گز نہیں ہے… ‘‘

’’ آپ یہ بات اتنے دعوے سے کیسے کہہ سکتی ہیں میڈم؟ ‘‘ سنان  کے باپ نے چونک کر پوچھا۔

’’ میں بچوں کے ساتھ ایک عرصے سے dealکر رہی ہوں ،  اور جانتی ہوں کہ کس عمر کا بچہ کیسا دکھتا ہے، کیا صلاحیتیں رکھتا ہے اور کس قابلیت کا اہل ہوتا ہے… ‘‘ میں نے وضاحت کی، ’’ مستثنات ممکن ہیں مگر میرا اندازہ یہ ہے کہ یہ بچہ لگ بھک چار برس کا ہے… ‘‘

’’ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے، اگلے ماہ کی بائیس تاریخ کو سنان چار برس کا ہو جائے گا! ‘‘

’’ تو؟؟؟ ‘‘ میں نے حیرت سے دیکھا، ’’ عمر کا اتنا فرق کیسے ممکن ہے، کیا اسکول میں یہ تاریخ پیدائش لکھوا کر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سرکاری ریکارڈ میں بھی ہیر پھیر کر سکیں گے، جب کہ ہمارے ہاں رجسٹریشن کا نظام اتنا شفاف اور واضح ہے…  جی شفاف!! ‘‘ میں نے دروازے کے باہر کھڑی ٹیچر شفاف کو اندر آنے کی اجازت دی… ’’ شفاف اس بچے کی عمر کیا ہو گی؟ ‘‘

’’ میڈم… قد سے تو چار برس کا لگ رہا ہے… ‘‘ شفاف نے جھجک کر اندازہ لگایا کیونکہ میں نے اس کی پہچان کی صلاحیت کو کسی بچے کے والد کیسامنے ٹیسٹ کرنا چاہا تھا۔

’’ ٹھیک ہے… آپ جائیں! ‘‘ میں نے اس کے ہاتھ میں موجود نوٹ پر دستخط کیے اور اسے جانے کی اجازت دے دی… ’’ یہ ہماری کنڈر گارٹن کی ٹیچر تھیں، شفاف… اس کی عمر میری عمر سے آدھی ہو گی مگر اس نے بھی آپ کے بچے کی عمر کا وہی اندازہ لگایا ہے جوکہ میں نے لگایا تھا، اب آپ بتائیں کہ کہاں تک آپ اس غلط بیانی کو نبھا سکیں گے؟ ‘‘  مصلحتاً میں نے ’’ غلط بیانی‘‘ کی جگہ لفظ جھوٹ بولنے سے احتراز کیا۔

’’ اصل میں آپ اپنے اندازوں میں جتنی درست ہیں، ملکی نظام کے بارے میں آپ کی معلومات اسی قدر محدود ہیں۔ سنان کی عمر ہم نے نادرا کے دفتر میں بھی یہی لکھوائی ہے جو کہ میں نے اس کے فارم پر لکھی ہے… ‘‘

’’ کیا مطلب؟ آپ نے دو سال تک اس بچے کی پیدائش کا اندراج ہی نہیں کروایا تھا؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’ اس کی پیدائش کا اندراج تو ہوا تھا مگر ہم نے بعد ازاں اسے تبدیل کروا لیا تھا… ‘‘ انھوں نے میری ’’ ناقص ‘‘ معلومات میں اضافہ کیا۔

’’ اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ جب یہ کسی ملازمت میں جائے گا تو اسے اس کی ریٹائرمنٹ میں دو سال کا اضافی وقت مل جائے گا، جب یہ او لیول کرے گا یا کوئی ڈگری حاصل کرے گا تو ریکارڈ پر یہ بات آئے گی کہ ایک کم عمر بچہ… ‘‘

’’ آپ تو بچے کی عملی زندگی کا آغاز ہی ایک جھوٹ کی بنیاد پر کر رہے ہیں… آپ کیا توقع کر رہے ہیں کہ یہ بچہ اس دنیا اور اس سے اگلی دنیا میں آپ کے لیے کسی بھلائی کا باعث بنے گا؟ ‘‘  میں نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہونے لگی، والدین کے ساتھ تلخ لہجے میں بات کرنا ہمارے پیشہ وارانہ انداز سے مطابقت نہیں رکھتا۔’’ اصل میں اس کی ماں گورنمنٹ کی استاد ہے اور اس کا خیال ہے کہ بچے کی عمر کم لکھوانے کے بہت سے فوائد ہیں… ‘‘

’’ آپ کو کیا معلوم کہ آپ کا بچہ کس ملازمت میں جانے والا ہے… ‘‘ میں نے اپنا غصہ دباتے ہوئے کہا، ’’ میں معذرت چاہتی ہوں کہ اگر آپ اپنے بچے کی تاریخ پیدائش تبدیل نہیں کروائیں گے تو میرا دل اس طرف سے صاف نہیں ہو گا کہ ہم جو کچھ بچے کو سکھانے کی اسکول میں کوشش کریں گے اس کا اطلاق گھر پر بھی ہو گا کہ نہیں… ہم بچوں کو سچ بولنا سکھاتے ہیں،  انھیں جھوٹ اور بے ایمانی سے دور رہنے کا درس دیتے ہیں۔ کتابی علم تو بچے کو اس کے والدین بھی گھر پر دے سکتے ہیں، تعلیمی اداروں کا مقصد ہی یہ ہے کہ بچے کی شخصیت کے ہر ہر پہلو سے اس علم کے اطلاق کااندازہ ہو!‘‘

’’ میں اپنی مسز سے بات کر کے بتاؤں گا! ‘‘ انھوں نے ایسا شوہر ہونے کا ثبوت دیا جس کی تربیت ماں کی بجائے اس کی بیوی کر رہی تھی۔

یہ تو ایک مثال ہے ایسے والدین کی، ہمارا واسطہ تو ہر روز ایسے والدین سے پڑتا ہے جن کے دو دو چہرے ہیں، دوہرے معیار ہیں… جب بات ان کے بارے میں ہوتی ہے تو اس کا انداز اور ہوتا ہے، مگر کسی دوسرے کے بارے میں بات کرتے وقت اور۔ اس کی ایک دلچسپ مثال، چند دن قبل مجھے ایک بچے کی والدہ نے شکایت کی کہ میرے بچے کو کسی ٹیچر نے ڈانٹا بھی ہے اور اس کا کان بھی مروڑا ہے… میں نے دعوے اور پورے یقین سے کہا کہ ہمارے اسکول میں کسی بھی ٹیچر کو کسی بچے کو ہاتھ ( سزا دینے کے لیے) لگانے کی اجازت نہیںہے… تب وہ خاتون کہنے لگیں کہ شاید اسپورٹس ٹیچر… میں نے وضاحت کی کہ اسپورٹس کے پریڈ میں بچوں کی کلاس ٹیچر اور میں خود گراؤنڈ میں اسی بات کو چیک کرنے کے لیے ہوتے ہیں کہ اسپورٹس ٹیچر کسی بچے کو ہاتھ نہ لگائے… بالکل بھی نہیں، کسی بچے کی پوزیشن تک تبدیل کرنے کے لیے نہیں… وہ مطمئن نہ ہو پا رہی تھیں، ’’ بعض اوقات بچے  ایک تصوراتی سی بات بنا کر اسے بڑھا چڑھا کر اپنے والدین کو بتاتے ہیں…‘‘

’’ چلیں آپ کہتی ہیں تو میں مان لیتی ہوں مگر بچہ کس حد تک بات کو فسانہ بنا سکتا ہے؟ ‘‘ انھوں نے بڑبڑا کر پوچھا… صرف چند دن کے بعد میں نے اسی خاتون کو دوبارہ اپنے اسکول میں بلوایا۔

’’ حمزہ کی آنکھ کے پاس چوٹ کا بڑا نمایاں نشان ہے… میں نے اس سے استفسار کیا تو وہ کہہ رہا تھا کہ…‘‘ میں رکی، ان کی آنکھوں میں جھانکا جہاں نا سمجھنے کی کیفیت تھی، ’’ حمزہ نے بتایا کہ اس نے آپ کی پرفیوم کی بوتل توڑ دی…تو آپ نے اسے سزا دینے کے لیے اسے پلاسٹک کے ہینگر سے مارا، جس کے نشانات اس کی کمر پر بھی ہیں اور ایک نشان اس کے چہرے پر بھی ہے، اسی لیے میں نے آپ کو بلایا ہے!‘‘ یہ ڈرل اس لیے کرنا پڑتی ہے کہ جب بچہ کوئی چوٹ کا نشان گھر سے لے کر آتا ہے  اور اسے unnoticed جانے دیا جائے تو بسا اوقات والدین ہم پر چڑھائی کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ اسکول والوں کی غفلت سے ہوا ہے۔

’’ اوہ میرے خدایا…‘‘ ان کی آنکھوں کی مصنوعی حیرت میک اپ کی طرح تھی، ’’ اس نے ایسا کہا؟ ‘‘ انھوں نے بڑے انداز سے کہا، ’’ اور آپ نے یقین بھی کر لیا؟ ‘‘  وہ مصنوعی ہنسی ہنسیں ، ’’ آپ کو تو علم ہی ہے میڈم کہ بچے کیسے story maker ہوتے ہیں، بات کو کتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، ان کی ایک تصوراتی دنیا ہوتی ہے اور ہر بات کے جواب میں ان کے پاس ایک دلچسپ جواب ہوتا ہے جس کا تعلق ان کی اپنی ہی سوچ سے ہوتا ہے! ‘‘  وہ وہی الفاظ کہہ رہی ہیں جن کے مشابہ الفاظ میں نے کہے تھے تو انھیں یقین نہ آیا تھا… میرے دل سے آواز آ رہی تھی، ’’  ڈبل ہے… ہر چہرہ ڈبل ہے!!!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔