- ملائیشیا میں فوجی ہیلی کاپٹرز آپس میں ٹکرا گئے؛ 10 اہلکار ہلاک
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں آج بھی بڑی کمی
- قومی ٹیم میں بیٹرز کی پوزیشن معمہ بن گئی
- نیشنل ایکشن پلان 2014 پر عملدرآمد کیلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
- پختونخوا کابینہ میں بجٹ منظوری کیخلاف درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس
- وزیراعظم کا ٹیکس کیسز میں دانستہ التوا کا نوٹس؛ چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو اسلام آباد معطل
- بلوچستان میں 24 تا 27 اپریل مزید بارشوں کی پیشگوئی، الرٹ جاری
- ازبکستان، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین شراکت داری کا اہم معاہدہ
- پی آئی اے تنظیم نو میں سنگ میل حاصل، ایس ای سی پی میں انتظامات کی اسکیم منظور
- کراچی پورٹ کے بلک ٹرمینل اور 10برتھوں کی لیز سے آمدن کا آغاز
- اختلافی تحاریر میں اصلاح اور تجاویز بھی دیجیے
- عوام کو قومی اسمبلی میں پٹیشن دائر کرنیکی اجازت، پیپلز پارٹی بل لانے کیلیے تیار
- ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو واپس کیوں لایا گیا؟ جواب آپکے سامنے ہے! سلمان بٹ کا طنز
- آئی ایم ایف کے وزیراعظم آفس افسروں کو 4 اضافی تنخواہوں، 24 ارب کی ضمنی گرانٹ پر اعتراضات
- وقت بدل رہا ہے۔۔۔ آپ بھی بدل جائیے!
- خواتین کی حیثیت بھی مرکزی ہے!
- 9 مئی کیسز؛ شیخ رشید کی بریت کی درخواستیں سماعت کیلیے منظور
- ’آزادی‘ یا ’ذمہ داری‘۔۔۔ یہ تعلق دو طرفہ ہے!
- ’’آپ کو ہمارے ہاں ضرور آنا ہے۔۔۔!‘‘
- رواں سال کپاس کی مقامی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ
ڈرون حملے اور طالبان سے مذاکرات کا ایشو
نیو یارک میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے بارے میں خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں چین‘ برازیل اور وینزویلا کے نمایندوں نے امریکی ڈرون حملوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کے بعد پہلی بار دیگر ممالک کا سخت ردعمل اہم پیشرفت ہے۔ اگر اسی طرح عالمی سطح پر ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی اور مزید ممالک بھی اس میں شریک ہوتے چلے گئے تو امریکا اس حوالے سے جارحانہ پوزیشن سے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور اس کا موقف کمزور پڑتا چلا جائے گا جس کا پہلا اظہار ہفتہ کو ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے بارے میں خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں اس وقت سامنے آیا جب چین‘ برازیل اور وینزویلا کے نمایندوں نے کہا کہ ڈرون حملے شہری حقوق‘ ریاستی خود مختاری کے احترام اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں تاہم امریکی وفد نے موقف اختیار کیا کہ ڈرون حملے منصفانہ اور درست ہیں‘ القاعدہ کے خلاف ڈرون حملے قانونی ہیں اور ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ امریکی وفد نے کہا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے ڈرون حملوں کے حوالے سے نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔
امریکا کے پاس ڈرون حملوں کا ایک ہی جواز ہے کہ وہ اسے دہشت گردی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر رہا ہے مگر اس کے پاس اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ ان حملوں میں دہشت گردوں سے زیادہ بے گناہ شہری مرد‘ خواتین اور بچے بھی ہلاک ہو رہے ہیں اور یہ حملے کسی بھی ریاست کی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں‘ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر بھی ان حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ امریکا نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے، اپنے ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ دینے اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے شروع کر رکھی ہے۔ دہشت گردی کا ہوّا بھی امریکا کا اپنا پیدا کردہ ہے جب کہ دوسرا حلقہ اس سے قطعی اتفاق نہیں کرتا اس کے مطابق چند انتہا پسند گروہ دنیا پر اپنے نظریات مسلط کرنے کے لیے امریکا سمیت دیگر ممالک کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں‘ ان کے خلاف کارروائی اشد ضروری ہے۔
دریں اثناء انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی بن ایمرسن کی طرف سے اقوام متحدہ کی سماجی‘ انسانی اور ثقافتی کمیٹی میں پیش کردہ رپورٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے کہا ہے کہ ڈرون حملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور پاکستان کی حکومت نے کبھی اپنی سرزمین پر ایسے حملوں کی منظوری نہیں دی۔ پاکستانی مندوب نے رپورٹ کے اس حصے سے اتفاق کیا جس میں کہا گیا کہ ڈرون کا استعمال پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے مگر امریکا سپر طاقت ہونے کے زعم میں پاکستانی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے یہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب موجودہ حکومت نے ڈرون حملے رکوانے کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کر دی ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکی دورے سے واپسی پر لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ڈرون حملے پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔انھوں نے واشنگٹن میں صدر امریکا سے ملاقات کے دوران بھی اس معاملے پر بات کی تھی۔ پاکستانی وزیر اعظم کی ان کوششوں کا پہلا مثبت اور حوصلہ افزا جواب چین‘ برازیل اور وینزویلا کی جانب سے امریکی ڈرون حملوں پر احتجاج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ نہایت امید افزا پیشرفت ہے اور عالمی سطح پر پاکستانی موقف کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب او آئی سی‘ عرب لیگ اور دیگر مسلم ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستانی موقف کو تقویت دینے کے لیے اس کی حمایت کریں تا کہ امریکا پر دبائو بڑھے اور وہ ڈرون حملوں پر اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے۔
جب سے ڈرون حملوں کا آغاز ہوا ہے پاکستان میں دہشت گردی بڑھی ہے‘ لہٰذا دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے لازمی امر ہے کہ ان حملوں کو بند کرایا جائے تا کہ پاکستان امن و امان کا گہوارہ بن سکے۔ علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے دھمکی دی ہے کہ ڈرون حملے نہ رکے تو نیٹو سپلائی بند کر دیں گے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی طرف سے یہ شدید ردعمل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو پر صوبے اور مرکز میں خاصا تنائو پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے اور امریکا کے بارے میں پاکستانی عوام میں پائے جانے والے اضطراب کو ختم کرنے کے لیے بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ بند ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو جہاں اندرونی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے وہاں بیرون ملک بھی پاکستان کے بارے میںاچھا امیج نہیں ابھرا۔ اس لیے پوری دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج ابھارنے کے لیے ناگزیر امر ہے کہ دہشت گردی کا ہر صورت خاتمہ کیا جائے۔ ان ہی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے چند روز پیشتر صدر مملکت نے تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کیا تھا جس کا مقصد منظم جرائم اور ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے بھرپور اقدامات کرنا تھا۔
ہفتہ کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لیے حکومت کی حمایت کریں۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات میں ہدایت کی ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کی روشنی میں طالبان سے ہونے والے رابطوں اور مذاکرات کے بارے میں اعتماد میں لیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا۔ حکومت کے حالیہ اقدامات اس امر کے عکاس ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی تنہا فیصلہ کرنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہتی ہے تا کہ حکومت کے فیصلوں کو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو۔ اب تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومت کا بھرپور ساتھ دیں تا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک خطہ بنایا جا سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔