بلاول بھٹو کا ٹیک آف

اصغر عبداللہ  اتوار 27 اکتوبر 2013
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

بلاول بھٹو کو اگرچہ  2008ء میں بے نظیر بھٹو کی موت کے فوراً بعد ہی پیپلز پارٹی کا ’چیئرمین‘ مقرر کر دیا گیا تھا، لیکن پیپلز پارٹی کے اندر اور باہر سب کو معلوم تھا کہ حقیقتاً یہ تقرر محض علامتی ہے۔ پھر ان دنوں وہ بہت کم سن تھے اور ابھی پڑھ رہے تھے۔ اب یہ 2013 ء ہے۔ کم عمر وہ بے شک اب بھی ہیں، لیکن اتنی سمجھ ان کو آ چکی ہے کہ اصلاً وہی ’پارٹی چیئرمین‘ ہیں اور بے نظیر بھٹو کے بعد وہی ہیں، جن کی طرف پیپلز پارٹی کا ورکر اور ووٹر دیکھ رہا ہے۔ سانحۂ کارساز کی برسی پر دوران تقریر، ان کا پر اعتماد لب و لہجہ، ان کی باڈی لینگوئج اور ایک ایک لفظ چغلی کھا رہا تھا کہthe new chairman in the making، ایک نیا بھٹو آ رہا ہے۔ یہ بحث بیکار ہے کہ تقریر کس نے لکھی تھی۔ حکمرانوں کی تقریریں ہمیشہ پیشہ ور تقریر نویس ہی لکھتے ہیں۔سو یہ بلاول بھٹو کی تقریر تھی، پیپلز پارٹی کے تیسرے چیئر پرسن کی پہلی باضابطہ سیاسی تقریر۔

بلاول بھٹو نے یوں ہی سیاست میں قدم نہیں رکھ دیا ہے، ان کے پیچھے ایک بھرپور تاریخ ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ کئی سیاست دانوں نے لگایا ہے، لیکن عملی طور پر یہ تنہا ذوالفقار علی بھٹو کا دور ہے۔یہ بالکل دوسری بحث ہے کہ وہ ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے اپنے نعرہ کو عملی جامہ کیوں نہ پہنا سکے۔ پھر، بھٹو نے جس طرح پھانسی کا پھند ا چوما اور گلے میں ڈالا، یہ بھی کوئی بھول جانے والا واقعہ نہیں ہے۔ یہ بلاول بھٹو کے نانا ہیں۔ بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کا علم اٹھا لیا۔ دو بار وزیر اعظم بنیں، اور اگر ناگہاں طور پر موت کا شکار نہ ہو جاتیں تو یقیناً  2008 ء میں تیسری بار بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے ان ہی کو وزیر اعظم بننا تھا۔ بے نظیر بھٹو، بلا کی حوصلہ مند خاتون تھیں۔ باپ کی پھانسی اور دو جوان بھائیوں کی المناک موت معمولی غم نہیں تھے۔ محترمہ نے، مگر کمال صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ ضیاالحق دور کی گرفتاریاں اور پھانسیاں ہوں، یا نوازشریف دور کے مقدمات اور جلا وطنی، کوئی چیز ان کا عزم توڑنے میں کامیاب نہ سکی۔ جہاں تک جرأت اور ہمت کا تعلق ہے، بے نظیر بھٹو اپنے باپ کا پرتو تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی زندگی کو انتہا پسندوں سے سنگین خطرہ لاحق ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں کہ کس طرح وطن واپسی پر ان کے استقبالی ٹرک کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود بے خوف اپنی انتخابی مہم چلاتی رہیں؛ تاآنکہ27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جان ہار گئیں۔ یہ الوالعزم خاتون، بلاول بھٹو کی والدہ ہیں۔ یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ یہ خاص آصف علی زرداری کا ’سایۂ صدارت‘ تھا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت، دوسری بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ یہ مرد مفاہمت، بلاول کے والد ہیں۔ سیاست، بلاول بھٹو کی گھٹی میں پڑی ہے۔

بادی النظر میں یہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی کی قیادت ’وراثت‘ میں ملی ہے۔ پیپلز پارٹی کو البتہ موروثی سیاست کی حامل دوسری پارٹیوں میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی قیادت کی بڑی قربانیاں ہیں۔ بلاول بھٹو کے پیش رو، پیپلز پارٹی کے دونوں چیئر پرسنز غیر طبعی موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حریف کوئی پارٹی یہ مثال پیش نہیں کر سکتی۔ بلاول بھٹو نے ایک وزیر اعظم (بے نظیر بھٹو ) کی آغوش میں ہوش سنبھالا ہے، ایک اپوزیشن لیڈر ( بے نظیر بھٹو ) نے ان کی پرورش کی ہے، اور ایک صدر (آصف علی زرداری) نے ان کی سیاسی نشوونما میں حصہ لیا ہے۔ بلاول بھٹو کے یہ ’مشاہدات اور تجربات‘ انتہائی غیرمعمولی ہیں۔ اگر بلاول بھٹو میں سیکھنے کی استعداد ہے، تو حقیقتاً یہی تجربات آگے چل کر ان کا اثاثہ ثابت ہوں گے۔ پھر ان کے پاس ابھی مزید پانچ سال ہیں۔ عملی سیاست کا تجربہ، عملی سیاست کرنے سے آتا ہے اور عملی سیاست وہ کر رہے ہیں۔ حکومت کا تجربہ حکومت کرنے سے آتا ہے۔ بے نظیر بھٹو 1988ء میں پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو ان کے پاس کون سا وزارت عظمیٰ کا تجربہ تھا۔ حکومت کرنے کا تجربہ ہونا اچھی بات ہے، لیکن اگر یہ اتنا ہی ناگزیر ہوتا، تو آئین پاکستان میں ضرور مذکور ہوتا۔ آئین پاکستان، اس کے برعکس کہتا ہے کہ ہر رکن قومی اسمبلی، وزیر اعظم منتخب ہو سکتا ہے، اور رکن قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے عمر کی کم از کم حد ہے، 25سال۔ بلاول بھٹو، ماشااللہ 25 سال کے ہو چکے ہیں۔

اب آتے ہیں، بلاول بھٹو کی تقریر کے مندرجات کی طرف، جس میں انھوں نے مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو ایک ہی صف دشمناں میں کھڑا کر دیا ہے؛ شیر کا شکار کروں گا، سونامی کو بہا لے جاؤں گا، پتنگ کو کاٹ دوں گا اور جہادیوں کے خلاف جہاد کروں گا۔ غالباً، طالبان سے مذاکرات میں ضرورت سے زیادہ بے تابی ظاہر کرنے پر، عمران خان کو ’’بزدل خان‘‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ تحریک انصاف کی سیکریٹری اطلاعات، شیریں مزاری نے اسے ان کی ’’بدتمیزی‘‘ سے تعبیر کیا ہے، لیکن شاید وہ بھول گئی ہیں کہ خود ان کے قائد عمران خان، شریف برادران کو کن کن ’القابات‘ سے یاد کرتے رہے ہیں۔ شہباز شریف، فضل الرحمان اور الطاف حسین جیسے کہنہ مشق قائدین، اپنے حریف قائدین کے خلاف جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں، اسے بار دگر سن لیا جائے، تو بلاول بھٹو کی تقریر بالکل ہی بے ضرر محسوس ہوتی ہے۔

حقیقتاً ، یہ اسی طرح کی ایک تقریر تھی، جس طرح کی تقریریں ہمارے یہاں سیاست دان کرتے ہیں، پرجوش اور لچھے دار۔ ایسی تقریر، جس پر ان کے حامی بھنگڑے ڈالتے ہیں اور مخالف کوسنے دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اس طرح کی لچھے دار تقریر نہیں کرے گا، تو اور کون کرے گا۔ بلاول بھٹو کی تقریر میں اہم بات ایک ہی تھی، یہ کہ پیپلز پارٹی کو، جیسا کہ ان کالموں میں متعدد بار کہا گیا ہے، حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں فی الحال کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ، جہاں اپنے مخالفوں کو للکار رہے تھے، ان کے خلاف جوش کے دریا بہا رہے تھے، وہاں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ پھر آصف علی زرداری کے ’کمان‘ اور اپنے تئیں ’تیر‘ بننے کا جب انھوں نے اعلان کیا ہے،  تو اس کے ساتھ ہی اگلے الیکشن کے لیے2018ء کا سن بھی استعمال کیا ہے۔ پیغام واضح ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت، سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کرے گی، تو جواباً ’جذبہ خیرسگالی‘ کے طور پر 2018ء تک نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ شاعر نے کہا تھا    ؎

ہاں، بھلا کر، تیرا بھلا ہو گا

اور درویش کی صدا کیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔