بیمار کا حال اچھا کیوں ہے؟

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 29 نومبر 2019

نواز شریف صاحب کی بیماری اس وقت ہمارے ملک کا سب سے اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے اور ہماری اخلاقیات اور قانون پر عمل داری کے انداز کا امتحان بھی ہے۔ پہلے تو ان کی بیماری کو سنجیدہ نہیں سمجھا گیا اور خیال ہوا کہ اس بہانے وہ باہر جانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی بیماری کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ اسی طرح ان کی شدید علیل اہلیہ کی ایسی بیماری پر بھی مذاق بنایا جاتا رہا جو انتہائی مہلک بیماری تھی اور اس کا لاحق ہوجانا ہی سو فیصد ہلاکت کا باعث ہوسکتا ہے۔

البتہ یہ درست تھا کہ نواز شریف صاحب کے گھرانے کے چند افراد پہلے ہی باہر ہیں اور انھیں اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے مگر وہ واپس اپنے دیس نہیں لوٹ رہے اور اس لیے سرکاری حلقے ان کو باہر جانے دینے سے گریزاں تھے۔ لیکن ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے یہ کہہ کر حکومت کو ہراساں کر دیا کہ نواز شریف صاحب اس قدر بیمار ہیں کہ اگر ان کو علاج کی مطلوبہ سہولتیں میسر نہ آئیں تو خدانخواستہ ہم ان کو ’’کھو‘‘ نہ دیں۔

اس بیان کے بعد حکومت نے بظاہر ڈاکٹر عدنان کے دعوے کو غلط قرار دینے کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کیا جو ملک کے اہم ڈاکٹروں پر مشتمل تھا اور یہ ڈاکٹر سرکاری بھی تھے اور پیشہ ورانہ طور پر انتہائی معتبر بھی۔ اسی کے ساتھ خود عمران خان کے اسپتال شوکت خانم اسپتال کے معتبر ڈاکٹرکو بھی مدعو کرکے ان سے بھی معائنہ کرایا گیا۔ کراچی سے ڈاکٹر طاہر شمسی کو بھی طلب کیا گیا تاکہ وہ نواز شریف صاحب کے بار بار پلیٹ لیٹس کے گرنے کے اسباب کا پتا چلائیں ان تمام ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ نواز شریف شدید علیل ہیں ان کے بعض ٹیسٹ پاکستان میں ممکن نہیں نہ ہی ان کا علاج ممکن ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت جو خود ایک ذمے دار ڈاکٹر ہیں ، ان کی رپورٹیں دیکھ کر ان کو شدید بیمار قرار دیا گیا۔

جب وزیر اعظم نے ہر طرح اپنا اطمینان کر لیا کہ ان کی حالت بہتر نہیں اور ان کا باہر چلا جانا ان کے اندر رہنے سے بہتر ہے تو نام نہاد ’’ انسانی ہمدردی ‘‘ کی بنیاد پر ان کو باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر یہ فیصلہ ایک نیب کمیٹی کی سفارش سے مشروط کر دیا گیا جس نے بڑے فاتحانہ انداز میں مگر انتہائی سست رفتاری کے ساتھ ایک ایمنیٹی بانڈ دے کر باہر جانے کی شرط رکھ دی۔

اب تمام سرکاری وزرا اور ذمے داران نواز شریف صاحب کی علالت کے معاملے کو الجھاتے رہے ، البتہ ان سب کی دعا تھی کہ وہ صحت مند ہوں اور واپس آکر ’’ مقدمات ‘‘ کا سامنا کریں۔(ن) لیگ عدالت میں گئی اور عدالت نے بانڈ کی شرط ساقط کرکے انھیں باہر جانے کی اجازت دے دی۔ اور مخالفوں کی خواہش کے باوجود زندگی کے ساتھ باہر روانہ ہوگئے۔

تمام صحافتی، سیاسی اور عوامی حلقوں میں حکومت کے اس فیاضانہ رویے کی تعریف کی گئی اور اہل ملک نے سکھ کا سانس لیا کہ ایک شخص کی صحت نے سارے ملک کو اسی ایک مسئلے پر لگا دیا تھا۔ اب نواز شریف لندن میں ہیں ان کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور وہ اپنے دشمنوں کی خواہش کے مطابق بستر دراز نہیں ہیں بلکہ اپنے قدموں پر چل کرگاڑی تک آتے اور ٹیسٹ کروا کے طبی معائنہ کروا کے واپس آجاتے ہیں۔

اب یا تو یہ حال دیکھ کر یا کسی اور وجہ سے وزیر اعظم کو نہ جانے کیا ہوا کہ اب نواز شریف کی بیماری کے ’’انتہائی‘‘ ہونے پر شک میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ جب میں نے ان کو سیڑھی چڑھتے دیکھا تو ڈاکٹری رپورٹس سامنے رکھیں وہ رپورٹس کہتی ہیں کہ وہ دل کے مریض ہیں۔ شوگر کا مرض بھی ان کو لاحق ہے، گردے متاثر ہو رہے ہیں اور ہمیں ایک نئی چیز پلیٹ لیٹس کی اطلاع ملی کہ پلیٹ لیٹس بھی کم ہیں اور انھیں تقریباً 15 امراض لاحق ہیں۔

نواز شریف صاحب اگر بہتر ہو رہے ہیں یا اپنے قدموں سے چل رہے ہیں تو یہ مخالفین کی پریشانی کا سبب کیوں ہے؟کیا وہ یہ چاہتے تھے کہ نواز شریف بستر سے ہی لگ جائیں، تو مریض قرار پائیں گے؟سیاسی مخالفین نے نہ جانے کیسے سیڑھی چڑھتے دیکھ لیا وہ تو لفٹر کے ذریعے جہاز تک پہنچائے گئے اور احتیاط برتی گئی کہ وہ لندن تک بہ عافیت پہنچ جائیں۔

اب سیاسی مخالفین نے جس شدت سے نواز شریف کی بیماری کی رپورٹوں کو غیر معتبر سمجھا ہے اس کا تقاضا ہے کہ میڈیکل بورڈ کے تمام ممبران کو اپنے فرائض منصبی ایمان داری سے ادا کرنے پر ملازمت سے فارغ کریں۔ پنجاب کی وزیر صحت کو ان کے عہدے سے فارغ کیا جائے اور انتظار کیا جائے کہ خدانخواستہ نواز شریف ان کی خواہش کیمطابق صرف بستر پر نظر آئیں تاکہ وہ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کا اظہار کرتے رہیں۔ چاہے خدانخواستہ انھیں کچھ ہو ہی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔