انصاف کے نام پر ناانصافی کی بدترین کہانی

تزئین حسن  اتوار 1 دسمبر 2019
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمے کے قانونی پہلوؤں کو
 پہلی بار دنیا کے سامنے لانے والی کتاب کی بنیاد پر سنسنی خیز رپورٹ

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمے کے قانونی پہلوؤں کو پہلی بار دنیا کے سامنے لانے والی کتاب کی بنیاد پر سنسنی خیز رپورٹ

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی گمشدگی اور پھر امریکی عدالت میں مقدمے کے بعد چھیاسی سال قید کی سزا بلا شبہ عوامی سطح پر پاکستان کے حساس ترین مسئلوں میں سے ایک ہے۔

دہشت گردی کی جنگ میں القاعدہ سے منسلک کی جانے والی یہ واحد خاتون ہیں اور ان کی کہانی اتنی متنازعہ ہے کہ اس پر پاکستانی قوم بری طرح تقسیم ہے۔ کچھ لوگ انھیں ’دہشت گرد‘ کہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انھیں پاکستان بلکہ مسلم امت کی بیٹی قرار دیتے ہیں۔

قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی واپسی کی بات کرنے والوں میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں اور برطانوی صحافی ایوان رڈلے کے مطابق افغان طالبان نے بھی ماضی میں قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی رہائی کی کوشش کی۔ ان کی2003 ء میں گمشدگی،2008ء میں دوبارہ زخمی حالت میں افغانستان کے صوبے غزنی میں منظر عام پر آنا، امریکی عدالت میں مقدمہ کے بعد چھیاسی سال کی قید کے دوران بہت سے ایسے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

جن کے جواب ان کے خاندان سمیت آج تک کوئی بھی نہ دے سکا۔ 2003ء کے بعد ان کی گمشدگی کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے اور ان کی تصویر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اتنی زیادہ شائع ہوئی ہیں کہ شاید دو دفعہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والی بے نظیر بھٹو کی میڈیا کوریج بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکے لیکن یہ تمام تحریریں اور میڈیا کوریج بھی بہت سے ناگزیر اہمیت کے حامل سوالات کا جواب نہیں دے سکی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ تر میڈیا کوریج مستند حوالوں پر مبنی نہیں ہے جس کی وجہ سے کنفیوژن کو مزید بڑھانے کا سبب بنتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس ساری پریس کوریج میں جس چیز کی کمی بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوتی تھی وہ ان سارے حالات و واقعات کے بارے میں عافیہ صدیقی کا اپنا موقف تھا جو کبھی میڈیا میں سامنے نہیں آ سکا تھا لیکن 2019ء میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نوجوان بیرسٹر داؤد غزنوی پہلی مرتبہ نیویارک میں عافیہ کے کیس سے متعلق قانونی دستاویزات اور میڈیا کوریج کی مدد سے اس کہانی کے بہت سے پہلوؤں کو اپنی کتاب ’AAFIA UNHEARD:UNCOVERING THE PERSONAL AND LEGAL MYSTERIES SURROUNDING FBI’S WANTED MOST WANTED WOMAN‘ میں دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ بلا شبہ عافیہ صدیقی کے کیس، ان کی شخصیت اور ان کی زندگی کے پُراسرار واقعات پرمبنی پہلی تفصیلی کتاب ہے۔

اکہرے بدن کے نوجوان داؤد کے لہجے میں اعتماد لیکن برتاؤ میں عاجزی اور سوچ بہت سلجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کے لئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ عافیہ کی وطن واپسی خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقصد کے لئے عافیہ کا استعمال کر رہی ہیں۔

اس کتاب کی رونمائی رواں سال24 اکتوبر کو ہیوسٹن یونیورسٹی میں ہوئی جہاں ڈاکٹر عافیہ نے امریکا میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ داؤد کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ واشنگٹن میں امریکہ کے معروف ترین تھنک ٹینکس میں سے ایک ’ولسن سنٹر‘ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ساؤتھ ایشیا کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین تک نہ صرف کتاب پہنچانے میں بلکہ کتاب کے حق میں ان سے مثبت کمنٹس لینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

مائیکل کا کہنا ہے کہ ’’عافیہ ان ہرڈ‘‘ عافیہ صدیقی کی انتہائی پیچیدہ اور پراسرار کہانی کو سنانے کی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔ عافیہ کے کیس کو دنیا کے سامنے لانے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والی برطانوی صحافی ایوان رڈلے کا کہنا ہے کہ کہ پندرہ سال تک عافیہ کے کیس پر کام کرنے کے بعد ان کے لئے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ انھیں اس موضوع پر کتاب پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریر کی خوبصورتی یہ ہے کہ داؤد معلومات کو سامنے رکھ کر عافیہ کے جرم یا بے گناہی کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔

داؤد نے قانونی دستاویزات ہی نہیں بلکہ 2003ء سے لے کر 2010ء کی پریس کوریج کے ذریعے معلومات کو اس طرح یکجا کیا ہے کہ عافیہ کی زندگی سے متعلق تمام اہم سوالات کے جوابات قاری کو خود مل جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ عافیہ کی شہریت پاکستانی ہے یا امریکی؟ داؤد ان کے مقدمے کی اَوریجنل ایف آئی آر قاری کے سامنے لاتے ہیں جس کے مطابق عافیہ پاکستانی شہری ہیں۔

گو یہ بات راز نہیں لیکن پاکستان میں بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ امریکی عدالت نے عافیہ کو دہشت گرد قرار نہیں دیا پھر بھی دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں لوگ عافیہ کو آج بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر رائے عامہ ابھی تک بری طرح تقسیم ہے۔ داؤد نے خود کوئی تبصرہ دیئے بغیر عدالتی کاروائی کے ریکارڈز من و عن نقل کر دیے جس سے یہ حقیقت قاری کے سامنے آتی ہے کہ امریکی عدالت میں نہ صرف عافیہ پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا مقدمہ نہیں چلا بلکہ عافیہ کے مخالف پروسیکیوٹر وکلاء نے شروع میں ہی عدالت پر واضح کر دیا کہ وہ اس حوالے سے کوئی بحث نہیں چاہتے۔

عدالت میں عافیہ کے مخالف وکیلوں نے اس سوال پر بھی بحث نہیں کی کہ 2003ء سے 2008ء تک عافیہ کہاں تھیں۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق امریکی حکومت کا موقف اس بارے میں یہ تھا کہ عافیہ امریکا کی کسی خفیہ جیل میں نہیں تھیں اور امریکی حکومت اس سے لا علم ہے کہ عافیہ اس دوران کہاں تھیں۔ یاد رہے کہ مقدمے سے قبل 2006ء میں صدر بش اس بات کا اعتراف کر چکے تھے کہ سی آئی اے امریکا سے باہر مختلف ممالک میں خفیہ جیلیں آپریٹ کر رہی ہے جہاں قیدیوں سے اعتراف جرم کے لئے تشدد کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو امریکی قوانین کے مطابق بھی غلط ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا موقف یہ تھا کہ انہیں2003ء سے2008ء تک خفیہ جیل میں رکھا گیا اور انھیں قید کرنے والوں نے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ فیصلے میں جج کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ عافیہ خفیہ جیل میں تھیں۔

دوسری طرف عافیہ کے وکیلوں کا یہ کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے ایف بی آر کی کلاسیفائیڈ انفارمیشن بھی عافیہ کے وکلاء سے شئیر کرنے سے انکار کر دیا جس سے اس بات کے ثبوت مل سکتے تھے کہ عافیہ اس عرصے میں کہاں تھیں۔ 2010ء میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عافیہ کے فیصلے کے بعد اس کے وکلاء کا کہنا تھا کہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں ریکارڈز تک رسائی نہ دینا خود امریکی قانون میں موجود شفافیت کے اصول کے خلاف ہے۔

یاد رہے کہ 2006ء میں گوانتانامو سے رہا ہونے والے اور اپنے اذیت ناک تجربے پر کتاب لکھنے والے برطانوی شہری معظم بیگ پہلی مرتبہ یہ حقیقت دنیا کے سامنے لائے کہ افغانستان کی بدنام زمانہ ’بگرام جیل‘ جسے گوانتا نامو کی جڑواں جیل بھی کہا جاتا ہے میں ایک خاتون قیدی بھی موجود تھی جس کی چیخوں کی آواز باقی قیدیوں کے لئے بہت اذیت کا سبب ہوتی تھی۔ ان کی کتاب منظر عام پر آنے کے بعد ایوان رڈلے نے بگرام کی خاتون قیدی کی تلاش شروع کی۔

ایوان نے گوانتانامو سے آزاد کردہ مختلف قیدیوں سے بگرام کے قیدی کے بارے میں انٹرویوز کیے تو ایک سے زائد نے عافیہ کی تصویر دیکھ کر تصدیق کی کہ یہی بگرام کی قیدی نمبر 650 ہے۔ اس کے بعد ایوان نے جولائی 2008ء میں پاکستان میں عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس کی جس سے یہ کیس منظر عام پر آیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں عافیہ کی قید پر احتجاج شروع ہوا۔ اس پریس کانفرنس کے ٹھیک دو ہفتے بعد عافیہ افغانستان کے صوبے غزنی میں اچانک دوبارہ نمودار ہوئیں اور شوٹنگ کا وہ مبینہ واقعہ پیش آیا جس میں عافیہ خود زخمی ہوئیں اور انہیں کچھ دن بگرام ہی کے ہسپتال میں علاج کے بعد امریکا منتقل کیا گیا۔

یاد رہے کہ اس کیس کا سرکاری نام ’امریکی حکومت بمقابلہ عافیہ صدیقی‘ ہے۔ یہ کیس امریکی حکومت نے عافیہ کے خلاف دائر کیا تھا اور اس میں سات مختلف دفعات میں عافیہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش کی، امریکی حکومت کے اہل کاروں پر ہتھیار اٹھائے، امریکیوں پر حملہ کیا۔ یہ ساتوں الزامات ایک ہی واقعہ کے بارے میں ہیں لیکن ان سب میں عافیہ کو الگ الگ قید کی سزائیں ہوئی ہیں جن کا مجموعی عرصہ چھیاسی برس ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عافیہ نے اپنے عدالتی بیان میں افغان پولیس اسٹیشن میں امریکی اہل کاروں پر فائرنگ کی تردید کی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غزنی کے پولیس اسٹیشن میں فارنسک رپورٹ کے مطابق دیواروں پر ایم فور رائفل کے فائر کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود جج نے دیوار میں سوراخوں کی موجودگی اور امریکی فوج اور ایف بی آئی کے اہل کاروں کی گواہی پر فیصلہ دیا جن میں سے ایک کی گولی سے عافیہ زخمی ہوئیں۔ شوٹنگ کے بعد گزرنے والے واقعات کے بارے میں عدالت میں عافیہ کا کہنا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں ایک اہل کار کی آواز سنائی دی، ’’ہماری ملازمت جا سکتی تھی۔‘‘

عدالتی کاروائی کی تفصیل کے مطابق عافیہ کے وکیل نے کیس شروع ہونے پر یہ درخواست دی کہ عافیہ کی ذہنی حالت صحیح نہیں اور وہ مقدمے کی کاروائی میں حصہ لینے کی اہل نہیں ہے۔ جبکہ امریکی حکومت کا موقف یہ تھا کہ عافیہ مقدمہ سے بچنے کے لئے ڈھونگ کر رہی ہیں۔ جس پر جج نے عافیہ کے ذہنی حالت کے بارے میں میڈیکل رپورٹس حاصل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب میں مذکور ماہر نفسیات کی رپوٹس کے مطابق عافیہ کی ذہنی حالت کے بارے میں ماہرین نفسیات کی رائے منقسم تھی جبکہ ان کے ایک ماہر نفسیات کا اپنی تفصیلی رپورٹ میں یہ کہنا تھا کہ عافیہ کا رویہ ان لوگوں کے بالکل برعکس ہے جو ڈھونگ یا ڈرامہ کرتے ہیں۔

اس کے باوجود عدالت نے مقدمے کو جاری رکھنے کا حکم دیا۔ یہ بات بھی کتاب میں مذکور کورٹ کے ریکارڈ میں ہے کہ عافیہ نے خود متعدد مرتبہ اس بات کی تردید کی کہ وہ ذہنی طور پر ابنارمل ہیں لیکن خود عافیہ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ عافیہ نارمل نہیں تھیں۔ کورٹ کی کاروائی کے دوران ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کبھی کبھی نارمل ہوتی تھیں لیکن کبھی کبھی گفتگو کرتے ہوئے اپنا توازن کھو بیٹھتی تھیں، غیر متعلق باتیں شروع کر دیتی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق ماہر نفسیات نے عافیہ سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا انھیں خود کشی یا مرنے کی خواہش محسوس ہوتی ہے؟ عافیہ کا جواب تھا کہ ان کے مذہب میں خود کشی حرام ہے۔

جج برمن کی فائنل تقریر کے مطابق عدالتی کاروائی میں مداخلت کے با عث کئی مرتبہ عافیہ کو عدالت سے ملحق کمرے میں ایک ٹی وی پر اپنا فیصلہ دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عافیہ واقعی ذہنی طور پر نارمل نہیں تھیں (اور اگر وہ واقعی بگرام جیل میں تشدد کا شکار رہی تھیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ خود عافیہ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہیں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ہو سکتا ہے۔

زندگی میں صدمے یا تکلیف دہ تجربات سے گزرنے والوں میں یہ نفسیاتی بیماری عام ہے)۔ داؤد کے مطابق عافیہ کی ذہنی حالت کچھ ایسی تھی کہ وہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتی تھیں۔ انہیں ایک ایسا مینٹل ڈس آرڈر تھا کہ انہیں ایک دفعہ اپنے کمرے میں کتا نظر آیا۔ کتاب میں مذکور عدالتی کاروائی کے مطابق عافیہ صدیقی نے کئی مرتبہ اپنے وکیلوں پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کیا اور یہ واضح کیا کہ یہ میرے وکیل نہیں ہیں اور وکلاء تبدیل کرنے کی در خواست دی لیکن جج نے یہ کہہ کر ان کی در خواست مسترد کر دی کہ ان کے پاس متبادل وکیل موجود نہیں۔ عافیہ کا کہنا تھا کہ متبادل وکیل کے انتظام کے لئے اسے کچھ ٹائم دیا جائے لیکن جج نے وقت دینے سے انکار کر دیا۔

عدالت کی کاروائی میں فیصلے کے بعد عافیہ کی ایک طویل تقریر موجود ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جج برمن سمیت سب کو معاف کر دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم دنیا میں یہ غلط مشہور ہے کہ مجھے امریکا میں ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی خفیہ جیل میں مجھ پر تشدد کیا گیا لیکن امریکا کی جیل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے سورۃ حجرات کی ایک آیت کا حوالہ دے کر مسلم دنیا سے اپیل کی کہ ان کے نام پر کوئی تشدد نہ کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم دنیا کو اس پر حیرت ہو گی لیکن انہیں امریکا سے محبت ہے اور وہ کسی سے نفرت نہیں کرتیں۔ داؤد کا کہنا ہے کہ عافیہ کا رویہ دہشت گردوں سے بالکل مختلف تھا۔ اس تقریر میں عافیہ نے اپنا ایک خواب بھی سنایا جس کے مطابق آنحضرت ﷺ جیل میں ان کے کمرے میں تشریف لائے جہاں بہت سے امریکی فوجی جنگی قیدی بنے بیٹھے ہیں۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ انہیں الفاظ یاد نہیں لیکن رحمت اللعالمین ﷺ ان قیدیوں کو تسلی دیتے ہیں۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس خواب کو دیکھ کر جیل میں بہت سکون ملا۔

مقدمے کے دوران کچھ عجیب واقعات ہوئے جن کا ذکر جج برمن نے فیصلہ سناتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں موجود ایک شخص نے جیوری کے دو ممبران کی طرف انگلی سے نا زیبا اشارہ کیا جس پر انہیں جیوری کے دو ممبران کے مشورے سے انہیں پینل سے نکال دینا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکا کے اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کا فیصلے سے قبل جج برمن سے ملاقات بھی ایک انتہائی قابل اعتراض امر تھا۔ داؤد کے مطابق عافیہ کے وکلاء نے اس پر اعتراض کیا اور خود عافیہ نے بھی کہ اس سے جج کی غیر جانب داری مشکوک ہوتی ہے۔ جج کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات محض چند سیکنڈ پر مبنی تھی۔

کتاب کے مطابق عافیہ کی امریکا رہائش کے دوران2002ء میں ایف بی آئی نے ان سے اور ان کے سابق شوہر سے تفتیش کے لئے رابطہ کیا تھا اور ایف بی آئی کے ساتھ باقاعدہ اٹارنی کے ذریعے سوال جواب کی نشست بھی ہوئی تھی لیکن امریکی حکومت کے وکلاء کے مطابق عافیہ اس تفتیش سے بچنے کے لئے پاکستان چلی گئی تھیں۔

اس حوالے سے عدالت میں عافیہ کا موقف یہ تھا کہ ان کے والد کی طبیعت خراب تھی اور وہ چھ مہینے کی حاملہ تھیں۔ اگر وہ اس وقت پاکستان نہ جاتیں تو ایئر لائن انہیں سفر سے روک دیتی اور وہ اپنے والد سے نہ مل سکتی تھیں جن کا کچھ ہی عرصے بعد انتقال ہو گیا۔ عافیہ نے واضح الفاظ میں کورٹ میں اس بات کی تردید کی کہ ان کے پاکستان جانے کے فیصلے سے ایف بی آئی کی تفتیش کا کوئی تعلق تھا۔ ان کے بیان کے مطابق ایف بی آئی نے ان کے شوہر سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا آپ کبھی اسامہ بن لادن سے ملے ہیں؟ جس کا جواب ان کے سابق شوہر نے نفی میں دیا تھا۔ عافیہ سے ایف بی آئی نے اسلامی تنظیموں کو فنڈ دینے سے متعلق سوال کیا تھا جس کا جواب عافیہ کے بیان کے مطابق انہوں نے یہ دیا کہ یہ میرا فرض ہے اور میں ایسا کرتی رہوں گی۔

تعجب اس بات پر ہے کہ داؤد کی کتاب میں مذکور عدالتی کاروائی کے مطابق خود امریکی حکومت کے وکلاء نے ان تمام الزامات پر بات کرنے سے انکار کر دیا لیکن پھر بھی فیصلے کے وقت جج نے اس بات کو دہرایا کہ عافیہ عمار البلوچی کی منکوحہ تھیں اور انہیں کے پیچھے افغانستان گئی تھیں (جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس پر عدالت میں بحث ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیے گئے) عالمی اور امریکی (اور اسلامی) قانون کے مطابق ایک فرد پر جب تک الزام ثابت نہ ہو اسے معصوم تصور کیا جاتا ہے اور اسے مجرم ثابت کرنے کی ذمہ داری الزام لگانے والے پر ہوتی ہے لیکن دہشت گردی کی جنگ میں اس دوران حالات کچھ ایسے تھے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ملزم پر عائد ہوتی تھی لیکن اسے اور اس کے وکلاء کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جاتے تھے۔

عافیہ کے کیس میں بھی یہی ہوا، عافیہ کے وکلاء کو اتنے سنگین الزامات کے باوجود اس معلومات تک رسائی نہیں دی گئی جس سے ان الزامات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ ہوتا بلکہ خود عدالتی کاروائی کے دوران عافیہ نے جب بھی خفیہ قید میں اپنے اوپر گزرنے والے ٹارچر کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی گئی، مخالف وکیل نے اعتراض اٹھایا اور جج نے اعتراض برقرار رکھا۔ داؤد نے خود تبصرہ دینے کے بجائے عدالتی کاروائی کو من وعن نقل کر دیا ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عمارالبلوچی سے عافیہ کی شادی، ان کا القاعدہ کے لئے پوسٹ باکس کھلوانے کے الزامات کو تواتر کے ساتھ دہرایا گیا ہے لیکن اس پر نہ تو عدالت میں بحث ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت ان الزامات کے حق میں مہیا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی وہ سورس بتائی جاتی ہے جن کے ذریعے یہ الزامات سامنے آئے۔ ایسے میں ان الزامات کی کیا حیثیت ہے؟

اس کا فیصلہ ہم قاری اور قانون جاننے والوں پر چھوڑتے ہیں۔ یہاں تک کے اس پر عدالت میں بحث نہ ہونے کے باوجود جج نے فیصلے کے بعد تقریر میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ الزامات پاکستانی اور عالمی میڈیا میں بھی گردش کرتے رہے لیکن صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صحافیوں نے اس کی سورس نہیں بتائی۔ کچھ صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں ایف بی آئی کے ریکارڈز تک رسائی حاصل تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحافیوں کو ایف بی آئی کے ریکارڈز تک رسائی دی گئی تو وکلاء کو کیوں نہیں دی جا سکتی تھی اور عدالت میں وہ ثبوت کیوں نہیں لائے گئے جن کے باعث عافیہ کو القاعدہ کا ممبر کہا جاتا رہا۔

ایک اور اہم بات جس کا عافیہ نے اپنے بیان میں ذکر کیا ہے، وہ یہ کہ 2008 میں ان کے سامنے آنے پر ان کے پاس سے امریکا کی اہم عمارتوں کے نقشے اور بم بنانے کے کیمیکل لے کرغزنی کے گورنر ہاؤس کے باہر گھومنے کا ذکر ہے۔ عافیہ کا عدالت میں یہ کہنا تھا کہ اسے خفیہ جیل میں قید کروانے والوں نے وہاں چھوڑا تھا اور اس یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ تعاون کرے اور ویسا ہی کرے جیسا اس سے کہا جا رہا ہے تو اس کے بچے اسے واپس مل جائیں گے۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک میگزین کے کچھ حصے نقل کرنے کو کہا گیا تھا اور اس نے مجبوری میں ویسا ہی کیا جیسا کہا گیا تھا۔

عافیہ پر الزامات کے مطابق ایک کنفیوژن یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عافیہ کے سابق شوہر نے ان کے خلاف گواہی دی اور ان کے انتہا پسند ہونے اور بچوں کے انتہاپسندانہ طریقے سے پرورش کے حوالے سے ان میں جھگڑا ہوا۔ داؤد کا کہنا ہے کہ پورے کیس کی کاروائی میں انہیں ان کے شوہر کا کوئی بیان کہیں نہیں ملا۔

کتاب میں 272 حوالے موجود ہیں جن میں نیویارک کی عدالت کی کارروائیوں کی دستاویزات، عافیہ کی ذہنی حالت سے متعلق میڈیکل ماہرین کی رپورٹس، غزنی کے پولیس اسٹیشن میں جہاں عافیہ پر امریکی اہل کاروں پر فائر کھول دینے کا الزام ہے کی دیواروں پر آتش گیر مادے کی موجودگی سے متعلق فورینسک رپورٹ، 2003ء سے2019 تک پاکستان اور انٹرنیشنل میڈیا کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی کوریج، امریکی حکومت کے ڈی کلاسیفائیڈ کیبلز شامل ہیں۔ انٹرویو میں داؤد کا کہنا ہے کہ انہوں نے کتاب کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے لئے پہلے سے شائع شدہ الیکٹرانک اور تحریری کوریج کے علاوہ کوئی زبانی سورس استعمال نہیں کی کیونکہ وہ بیانیہ کو پیچیدہ کرنے کا باعث ہوتی۔

یہ بات قابل ذکر بھی ہے اور قابل تعریف بھی کہ کتاب میں استعمال کردہ تمام سورسز انتہائی مستند ہیں۔ اس حوالے سے تحریر علمی اور تحقیقی حوالے سے عالمی معیار کی حامل ہے۔ کہیں کہیں ان کے دئیے ہوئے لنکس کام نہیں کر رہے لیکن وہ میڈیا رپورٹس گوگل کرنے پر مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ عافیہ اور ایمان ہرسی علی نامی صومالوی امریکی خاتون پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے حوالے خاصی تعداد میں حوالہ جات میں موجود ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اگر داؤد اس کتاب کے بجائے اس کتاب کی ما خذین سورسز سے خود استفادہ کرتے۔ تحقیقی حوالوں میں بارہا مختلف حوالہ جاتی اسٹینڈرڈز استعمال کئے گئے ہیں جو مغربی قاری کو ایک منفی تاثر دے سکتے ہیں۔

کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلا باب 2002ء تک عافیہ کی زندگی پر مشتمل ہے، دوسرا اور تیسرا باب عافیہ کی گمشدگی سے متعلق ہے جس میں انتہائی مستند ذرائع سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ عافیہ 2003ء سے 2008ء تک کہاں تھیں اوران کی گمشدگی سے متعلق کون سا بیانیہ صحیح ہے اور امریکی عدالت نے ان کی گمشدگی سے متعلق سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے کیا کوششیں کیں اورخود عافیہ کا کیا موقف ہے؟

چوتھے باب میں ’’امریکی حکومت بالمقابل عافیہ صدیقی‘‘ کی عدالتی کاروائی اور عافیہ کی گواہی، پانچویں باب میں فورینسک ایکسپرٹ کی آراء پر مبنی رپورٹس کی مدد سے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیا عافیہ نے ایم فوررائفل سے امریکی اہل کاروں کو شوٹ کرنے کی کوشش کی تھی یا نہیں؟

چھٹے باب میں امریکی حکومت کے متعین کردہ نفسیاتی ماہرین کی رپورٹس کی مدد سے اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا عافیہ ذہنی طور پر اس قابل تھیں کہ وہ عدالت کی کاروائی میں حصہ لے سکتیں ہیں اور اپنے وکیلوں کے ساتھ تعاون کر سکتیں؟ ساتویں باب میں عافیہ کی اپنے وکیلوں پر عدم اعتماد کا اظہار اور جج کے ان کو یہ اجازت نہ دینے سے متعلق ایک طویل بحث ہے کہ وہ اپنے اٹارنی تبدیل کرنا چاہتی ہیں، آٹھویں اور نویں باب میں فیصلہ کی عدالتی کاروائی اور نویں میں اپیل نہ کرنے سے متعلق عافیہ کے فیصلے کے بارے میں حقائق بھی شامل ہیں۔ اس میں فیصلے کے بعد عافیہ کی اپنی طویل تقریر موجود ہے۔ دسویں باب میں داؤد نے کتاب میں موجود حقائق کے حوالے سے اپنی رائے بہت محتاط انداز میں تحریر کی ہے۔

حاصل کلام:

ایک نہایت قبل ذکر بات یہ ہے کہ داؤد نے اہم اور مستند سورسز کے ذریعے عافیہ کی گمشدگی اور کیس تک کے اہم واقعات سے متعلق حقائق اپنے قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں لیکن اپنی رائے یا تبصرہ دینے سے حتی الامکان پرہیز کیا ہے۔ عافیہ کیس جیسے ہائی پروفائل کیس میں ایک پاکستانی نوجوان کے لئے غیر جذباتی ہو کر صحافت کے تقاضے پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہو گا۔ کتاب میں تکنیکی زبان میں ماہرین کی رپورٹس اور عدالتی کاروائی کی طویل تفصیلات کبھی کبھی قاری کو بور کر دیتی ہیں جن کے اہم حصوں کو اپنے الفاظ میں تحریر کر کے مختصر کیا جا سکتا تھا لیکن داؤد کا کہنا ہے کہ یہ غیرجانبداری کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ضروری تھا تاکہ لوگ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ کون سا بیانیہ درست ہے۔ داؤد عافیہ کی کہانی سے متعلق کون کون سے سوالات کے جوابات دینے میں کامیاب ہوئے ہیں یہ جاننے کے لئے کتاب پڑھنا ضروری ہے۔

ایک محقق کے لئے عافیہ کی زندگی کے حقائق کریدنے کے بہت سے پہلو ہو سکتے تھے اور داؤد نے وکیل ہونے کی حیثیت سے اپنے حصے کا کام کیا ہے۔ یہ عافیہ کی زندگی کی پراسرار واقعات پر پہلی مفصل کتاب ہے لیکن عافیہ کی کہانی سے متعلق بہت سے پہلو ابھی تشنہ ہیں اور انویسٹی گیٹیو صحافیوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حقیقت کو منظر عام پر لانے کے لئے مختلف پہلوؤں سے مستند تحقیق کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔

ڈاکٹرعافیہ کو کیسے واپس لایاجاسکتا ہے؟

داؤد نے ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کے لئے خصوصی ٹیلی فونک انٹرویو میں اپنا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ عافیہ کے پہلے وکیل چارلس سوئفٹ سے ان کی رائے لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب عافیہ کو پاکستان واپس لانے کا واحد قانونی طریقہ ان کی ذہنی حالت اور بیماری کو وجہ بنا کر انسانی بنیادوں پر یو ایس اٹارنی جرنل کو پٹیشن دائر کرنا ہے یا پاکستانی حکومت کا براہ راست امریکی حکومت سے درخواست کرنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عافیہ کا مسئلہ پاکستان اور مسلم دنیا کے لئے بہت حساس مسئلہ ہے۔ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں عافیہ کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہیں اور اس کے نام پر سیاست بھی کرتی رہی ہیں۔

یہ مسئلہ اتنا حساس ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی پارٹی کے منشور میں عافیہ کی رہائی کا دعویٰ شامل ہے۔ اس کے نام پر داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں پاکستان اور پاکستان سے باہر معصوم شہریوں کو ورغلا کر دہشت گردی کے لئے بھرتی کر رہی ہیں۔ عافیہ کی امریکا میں قید پوری مسلم دنیا میں انتہا پسندی بڑھا رہی ہے جو امریکا کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ داؤد بہت پر امید ہیں کہ اگر یہ نکات پاکستانی فوج اور عمران خان کی حکومت سنجیدگی سے امریکی حکومت سے مذاکرات میں اٹھائے تو امریکا کو عافیہ کی پاکستان منتقلی پر اعتراض نہیں ہوگا۔ امریکی قانون میں انسانی بنیادوں پر قیدیوں کی رہائی کی نظیر موجود ہے۔

عافیہ کیس کے دو متبادل بیانیے

عافیہ کیس کے بارے میں ایک دوسرے کے مقابل دو مختلف بیانیہ موجود ہیں جس پر پاکستانی اور عالمی رائے عامہ شدید دلچسپی رکھنے کے باوجود منقسم ہے۔ ایک بیانیہ وہ ہے جو مختلف مواقع پر امریکی حکومت، عالمی میڈیا میں عافیہ کے خلاف منظر عام پر آیا جس کے مطابق عافیہ امریکا میں اپنے دور طالب علمی کے دوران انتہا پسندی کا شکار ہوگئی تھیں اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے کسی درجہ میں منسلک ہوگئیں۔ ان کے خلاف ایف بی آئی نے نائن الیون کے بعد تحقیقات شروع کیں تو وہ حاملہ حالت میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔

بچے کی پیدائش کے بعد نامعلوم وجوہات کے باعث انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی لی اور یہ امریکا واپس گئیں اور انہوں نے القاعدہ کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کے ایک ساتھی امجد خان کے لئے ایک پوسٹ باکس کھولا جو القاعدہ کی معاونت کے لئے تھا۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کی فنڈنگ کے لئے ہیروں کی اسمگلنگ کی۔ اس بیانیہ میں ان کی نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کے بھتیجے عمار البلوچی سے شادی کی بات بھی تواتر سے کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ یا اس کے پیچھے افغانستان چلی گئیں۔

جہاں سے2008ء میں انہیں افغانستان کے صوبے غزنی میں گورنر ہاؤس کے باہر مشکوک حالت میں ایک بارہ سالہ بچے کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو بعد ازاں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان کا اپنا بیٹا ثابت ہوا اور ان کے قبضے سے کچھ خطرناک کیمیکل اور بم برآمد ہوئے۔ افغان پولیس اسٹیشن میں انہوں نے امریکی اہل کاروں پر ایم فور مشین گن سے فائر کیا اور اس کے رد عمل میں جو فائرنگ امریکی اہل کار نے ان پر کی اس کے نتیجے میں یہ زخمی ہوگئیں۔ انہیں کچھ عرصہ افغانستان میں علاج کے بعد امریکا منتقل کردیا گیا جہاں ان پر مقدمہ چلا، انہیں سزا ہوئی۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ایک متبادل بیانیہ بھی موجود ہے جو عافیہ کے خاندان اور ان کے حامیوں کا ہے جس کے مطابق تین بچوں کی ماں اور معروف ترین امریکی اداروں کی ڈگری یافتہ، مسلمانوں اور غریبوں کا درد دل میں رکھنے والی عافیہ بیگناہ ہے، ان کا دہشت گردی کے کسی نیٹ ورک سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہ نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی وار آن ٹیرر نامی عالمی جنگ کا شکار ہونے والے دوسرے بے شمار بے گناہ قیدیوں کی طرح ہیں جن میں سے بہت سوں کو کوئی جرم ثابت نہ ہونے پر گونتا نامو بے سے رہا کر دیا گیا۔ 2003ء میں اسے پاکستانی انٹیلی جنس کے اداروں نے امریکی تحویل میں دیا۔

اس نے افغانستان کی بدنام زمانہ امریکی جیل بگرام میں پانچ اذیت ناک سال گزارے، جس کے بعد اسے ایک پلاٹ کے تحت افغانستان ہی کے صوبے غزنی میں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور زخمی اور تقریباً نیم مردہ حالت میں امریکا منتقل کر دیا گیا اور امریکی عدالت نے86 سال قید کی سزا سنائی۔ آج کل ٹیکساس کی ایک جیل ایف ایم سی کارسویل میں یہ اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اس جیل میں ذہنی طور پر معذور یا ابنارمل خواتین قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔