فتح کے لیے

ایم جے گوہر  اتوار 27 اکتوبر 2013
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ملک میں قیام امن اوردہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے طالبان کو مذاکرات کی حکومتی پیشکش کے بعد توقع یہ کی جارہی تھی کہ طالبان اس کا مثبت جواب دیں گے اور عوام کو خودکش حملوں، بم دھماکوں اور قتل و غارت کے گھناؤنے کھیل سے نجات مل جائے گی لیکن ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا طرفین کی جانب سے مذاکراتی عمل کے باقاعدہ آغاز کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی بلکہ ہر دو جانب سے اپنے اپنے موقف پر قائم رہنے کے باعث ہنوز کشیدگی برقرار ہے۔ پاکستان بھر کے علمائے کرام کی قیادت نے بھی طالبان سے اللہ اور رسول کے نام پر جنگ بندی کی اپیل کی اس کے باوجود طالبان نے اپنی مذموم اور سفاکانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ عین عیدالاضحی کے دن خیبر پختونخوا کے وزیر قانون اور تحریک انصاف کے رہنما اسرار اللہ گنڈا پور کو خودکش حملے میں شہید کردیا گیا۔

اس مبینہ حملے کی ذمے داری انصار المجاہدین نامی تنظیم نے قبول کی ہے جس کا الحاق بھی تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی حکومت کے وزیر کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جلد شروع کرے۔ عمران خان حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرچکے ہیں کہ طالبان کو اپنا دفتر کھولنے کی باقاعدہ اجازت دی جائے جب کہ تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ عمران سیکولر نظام کا حصہ ہیں اور ہم اس نظام کے باغی ہیں اور اگر عمران مذاکرات کے شوقین ہیں تو وہ اس کفریہ نظام سے باہر آکر مذاکرات کی بات کریں۔ گویا طالبان عمران خان کی مذاکرات کے حوالے مفاہمتی سوچ کے مخالف ہیں۔

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اے پی سی کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں حکومت نے پہل کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات کے ذریعے طالبان کے ساتھ معاملات طے پا جاتے ہیں تو یہ خوشی اور اطمینان کی بات ہوگی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف جو شدت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں ایک سے زائد مرتبہ اپنے اس موقف کو دہرا چکے ہیں کہ طاقت کے استعمال کی بجائے طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جانا چاہیے۔ ملک کا ہر امن پسند اور محب وطن شہری دہشت گردی کا مخالف اور امن کا خواہاں ہے۔ پاک وطن کی عسکری و سیاسی قیادت بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے اور اس ضمن میں اپنی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ اگرچہ تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا یہ کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات کے لیے جرگہ بھیجے تو بات چیت کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔

یہاں یہ امر افسوس ناک ہے کہ ایک جانب تو تحریک طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے اور دوسری جانب ایسی شرائط اور مطالبات بھی پیش کر رہی ہے جو ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہیں اور اس کا یہ مطلب لیا جانا غلط نہ ہوگا کہ تحریک طالبان عملی طور پر ازخود حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ حکومت جنگ بندی میں پہل کرے، ہم مذاکرات کے خواہاں ہیں لیکن پاکستان کے آئین کے تحت مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ آئین سیکولر عوام کا ایجنڈا ہے انھوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، وزیر اعظم کبھی کہتے ہیں کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں پھر سامنے آئیں تو کبھی کہتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں۔ ترجمان ٹی ٹی پی کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام طالبان گروپ اپنے امیر حکیم اللہ محسود کی قیادت میں متحد و منظم ہیں اور اب ہمارا ’’ہدف‘‘ اسلام آباد کو ’’حقیقی اسلام آباد‘‘ بنانا ہے جہاں ہر فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جائے گا۔ ترجمان نے یہ بھی عندیا دیا کہ مہمند ایجنسی، سوات، باجوڑ، کرم ایجنسی اور جنوبی وزیرستان کا کنٹرول فوج کے پاس ہے لیکن وہ خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو بہت جلد ان علاقوں میں بھی تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوں گے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے تازہ بیان سے مذاکرات کے حوالے سے جو امیدیں و توقعات وابستہ تھیں وہ ختم ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ طالبان کے مطالبات اور شرائط کے تحت تو حکومت مذاکرات نہیں کرسکتی اور طالبان اس سے کم کسی بات پر راضی و آمادہ نظر نہیں آتے بلکہ طالبان نے تو مذاکرات کو “No Lift” کراتے ہوئے اپنے آیندہ کے ’’پروگرام‘‘ اور ’’اہداف‘‘ کا بھی واضح اشارہ دے دیا ہے جس سے ان کے خطرناک عزائم کا اظہار ہوتا ہے اب مذاکرات تو کجا بلکہ دہشت گردی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے اور ملک کے ’’اہم ترین‘‘ اور ’’حساس‘‘ مقامات طالبان کا ہدف ہوں گے۔

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ملک کے سنجیدہ و باشعور طبقے کی جانب سے برملا تحفظات و خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ موجودہ زمینی حقائق اور طالبان کی سخت گیری و غیر لچکدار رویے کے باعث حکومت کو مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا راقم نے بھی اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اول تو مذاکرات شروع ہی نہیں ہوئے اور اگر آغاز ہو بھی گیا تو مذاکرات کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ درحقیقت کچھ بیرونی قوتیں طالبان کی پشت پناہی کر رہی ہیں جو پاکستان کو جغرافیائی، عسکری، معاشی اور سیاسی حوالے سے کمزور و غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد عناصر ملک کی عسکری و سیاسی شخصیات کو بطور خاص ہدف بنا رہے ہیں گزشتہ چند سالوں میں اعلیٰ فوجی افسران و جوان اور اہم سیاسی شخصیات دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں جن میں عوام کی محبوب رہنما اور پی پی پی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل ہیں انھیں وطن واپسی پر قتل کرنے کے حوالے سے طرح طرح دھمکیاں دی گئیں ان کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے ان کے حریفوں نے میڈیا میں بی بی کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا کہ ان کی مقبولیت کا گراف گرچکا ہے اور 87 جیسا استقبال نہیں ہوگا۔ لیکن بی بی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جمہوریت، عوام اور پاکستان کی خاطر 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو پورا پاکستان ان کے استقبال کے لیے امڈ آیا اور 87 کا ریکارڈ ٹوٹ گیا اور ان کی مقبولیت کے خلاف چلائی گئی مہم کے غبارے سے ہوا نکل گئی لیکن دہشت گردوں نے کارساز کے قریب ان کے تاریخی جلوس کو نشانہ بنایا خوش قسمتی سے بی بی محفوظ رہیں لیکن 27  دسمبرکو دہشت گردوں نے بی بی کو شہید کرکے پاکستان کو سوگوار کردیا۔

18 اکتوبر کے شہداء کی چھٹی برسی پر پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والی جماعتیں آج جشن منا رہی ہیں گزشتہ انتخابات میں کارکنوں کی زندگی بچانے کے لیے 100 نشستیں قربان کیں۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت کی خاطر قربانی دینے والے شہداء کی ماؤں کا بیٹا اور بہنوں کا بھائی بن کر دکھاؤں گا۔ بلاول بھٹو نے مذہب کے ٹھیکیداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی پی دہشت گردوں سے ڈرنے اور بھاگنے والی نہیں۔ حالات کا تقاضہ اور زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ’’فتح‘‘ حاصل کرنے کے لیے فوج، سیاستدان، عوام سب مل کر مشترکہ جدوجہد کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔