بات سمجھانے کی صلاحیت کوبہتر بنائیں

قاسم علی شاہ  پير 28 اکتوبر 2013
 سمجھانے کی صلاحیت کا 56 فیصد انحصار جسم کی حرکات و سکنات اور 37 فیصد آواز کے اتار چڑھاؤ پر ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

سمجھانے کی صلاحیت کا 56 فیصد انحصار جسم کی حرکات و سکنات اور 37 فیصد آواز کے اتار چڑھاؤ پر ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

’’ گزشتہ دس سال میں آپ کتنے اساتذہ سے پڑھ چکے ہیں؟‘‘ یہ وہ سوال تھا جو یونیورسٹی کے طالب علموں سے تب ہی پوچھنا پڑتا ہے جب اس موضوع کو سمجھانا مقصود ہوتا ہے۔

دس منٹ کی بحث کے بعد سب اس بات پر متفق ہوئے کہ گزشتہ دس سال میں تقریباً 100 کے قریب استاد انہیں ملے ہیں، ان میں سے کچھ سکول، کالج اور کچھ یونیورسٹی میں ان کو پڑھا چکے تھے۔ اگلا سوال تھا کہ ’’ان سو میں سے کتنے ایسے ٹیچرز ہیں جن کی آپ کو مکمل سمجھ آئی یا جن کو آپ بہترین ٹیچر مانتے ہیں۔‘‘ پھر دس سے پندرہ منٹ کی بحث اور غور و فکر کے بعد تمام طالب علم اس بات پر متفق ہوگئے کہ دو یا تین ٹیچرز ایسے تھے جن کو ہم بہترین استاد مان سکتے ہیں۔ تیسرا سوال تھا کہ ’’آخر ان دو یا تین ٹیچرز کی کون سی بنیادی خوبی یا صفت تھی جس کی وجہ سے آپ ان کو بہترین ٹیچر مانتے ہیں؟‘‘ جواب فوراً مل گیا کہ دراصل ان ٹیچرز کو اپنی بات سمجھانا آتی تھی۔ اور یہ جواب یعنی اپنی بات سمجھانا (کمیونیکیشن سکل) ہمارا آج کا موضوع ہے۔ آپ سکول و کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہمارے بے شمار ایسے ٹیچرز اور پروفیسر جن کے پاس اعلیٰ ڈگری ہے اور وہ باہر سے بھی تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں لیکن ان کو اپنی بات سمجھانا نہیں آتی جبکہ ہمیں بعض اوقات عام سے ٹیوشن سنٹر اور اکیڈمی میں کم تعلیم یافتہ ٹیچر کی زیادہ سمجھ آرہی ہوتی ہے کیوں…؟

دراصل بات سمجھانا اور ابلاغ ایک صلاحیت ہے اور یہ صلاحیت ہر کسی میں موجود نہیں ہوتی۔ اس صلاحیت کا علم اور تعلیم یا ڈگری کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ بڑے بڑے پی ایچ ڈی اس صلاحیت کے بغیر کلاسوں میں کرتب کرتے نظر آتے ہیں اور کتنے ہی کم تعلیم یافتہ دیہاتی گائوں میں بوہڑ کے درخت کے نیچے شام کے وقت گفتگو کی محفل سجائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بات سمجھانے کی صلاحیت صرف جملوں اور لفظوں پر منحصر ہوتی ہے؟ جواب ہے بالکل نہیں بلکہ لفظوں اورجملوں کو کردار صرف 7 فیصد ہے۔ 56 فیصد انحصار جسم کی حرکات و سکنات پر ہے اور 37 فیصد آواز کے اتار چڑھائو پر۔ اب یہ حقائق سامنے رکھیے تو آپ کو خود بخود پتا چل جاتا ہے کہ کئی ٹیچرز اور لوگوں کی بات کیوں سمجھ نہیں آتی۔

ساتھ ہی ساتھ یہ المیہ بھی سامنے آجاتا ہے کہ جب ہمارے ملک میں ٹیچر کو بھرتی کیا جارہا ہوتا ہے تو ان کی تعلیم اور علم کی جانچ تو ہوجاتی ہے لیکن ان کو جس کام کے لیے تعینات کیا جارہا ہے یعنی ’’پڑھانا‘‘ اور بات سمجھانا۔ اس صلاحیت کو چیک نہیں کیا جاتا۔ یاد رکھیے قدرت نے جب ایک ٹیلنٹ کسی کو نہ دیا ہو تو اس کے لیے کام بوجھ بن جاتا ہے اور اگر وہ ٹیلنٹ کسی میں موجود ہو تو اسے اپنا کام بھی کام نہیں لگتا بلکہ وہ کام کوکھیل کی طرح انجوائے کرتا ہے۔ آج ہم آپ کو ایسے 5 نسخے بتائیں گے جن سے آپ کی ابلاغ کی صلاحیت بڑھے گی۔ یاد رکھیے ابلاغ صرف ٹیچرز کی ہی ضروری نہیں بلکہ عام شخص کو بھی اپنی بات سمجھانا آنی چاہیے۔ اگر آپ میں بات سمجھانے کی خوبی موجود نہیں پھر بھی تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے ابلاغ کے معیار بہتر کرسکتے ہیں۔

-1 دنیا میں کسی بھی فن کو سیکھنے کا سب سے آسان طریقہ ’’ماڈلنگ‘‘ یا کاپی کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کسی کو اپنا رول ماڈل مان لیتے ہیں اور پھر اسی کے طریقے کو استعمال میں لاتے ہوئے ہنر مند بن جاتے ہیں۔ آپ ایک لسٹ بنائیں اور ان تمام لوگوں کے نام لکھ لیں جن کی بات چیت کرنے کے انداز کو آپ پسند کرتے ہیں، لازمی نہیں کہ وہ ٹیچر ہی ہوں۔ اس لسٹ میں آپ کے دوست، فیملی ممبرز اور مذہبی سکالرز بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ لسٹ بنانے کے بعد ہرنام کے سامنے وہ خاص انداز لکھیے جس سے وہ اپنی بات کو آسانی سے سمجھا لیتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی آواز میں کشش ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے چہرے کے تاثرات سے لوگ سمجھ جاتے ہوں۔ آپ وہ تمام تکنیکوں کو استعمال کریں۔

-2 اگر آپ موویز، ڈرامہ اور ٹی وی دیکھتے ہیں تو آپ کیلئے ابلاغ سیکھنا بہت آسان ہوجائے گا۔کیوں کہ یہ سب لوگ جو ہمیں فلم، ڈرامہ یا ٹی وی پر نظرآتے ہیں، ابلاغ کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ایک کردار بغیر کچھ بولے ہی سب کچھ کہہ رہا ہوتا ہے۔ نفرت، محبت اور جذبات کا اظہار چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے کیا جارہا ہوتا ہے۔ آپ اگر بغور ان کا مشاہدہ کریں گے تو حیران ہوجائیں گے کہ اگر ان کی آواز نہ بھی سنی جائے تو بھی مکمل کہانی اور بات سمجھی جاسکتی ہے۔

-3 جب لوگ بات چیت کررہے ہوں تو ان کے چہرے کے تاثرات اور جسم کی حرکات کو غور سے دیکھیں آپ کو بہت سی باتیں سمجھ آنا شروع ہوجائیں گی، جو وہ بول نہیں رہے لیکن ان کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج بتا رہی ہے۔ جب آپ ابلاغ کی صلاحیت کو سمجھ کر لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو فطری طور پر آپ ابلاغ کو بہتر کرنے کا بھی سوچنے لگتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکہ میں ان لوگوں پر دس سال ریسرچ ہوئی جو لوگوں کو ملتے ہی ان کادل کا حال بتا دیتے ہیں یا پھر ان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ یہ تمام لوگ دعویٰ رکھتے تھے کہ ان کے پاس کوئی موکل ہے یا روحانی صلاحیت ہے جبکہ ریسرچ نے ثابت کردیا کہ یہ ان کا وہم ہے جو یقین کی شکل اختیار کرچکا ہے کہ ان کے پاس کوئی روحانی طاقت ہے دراصل ان کے چہرے کے تاثرات پڑھنے اور باڈی لینگویج کو مفہوم دینے کی صلاحیت ملی ہوئی ہے اور وہ اس کو کام میں لاکر لوگوں کے مستقبل کا حال بیان کردیتے ہیں۔

-4 کہا جاتا ہے کہ ابلاغ کا سب سے پہلا اظہار آنکھوں سے ہوتا ہے، اسی لئے اگر کوئی شخص کسی معاملے یا فرد میں دلچسپی لیتا ہے تو غیر ارادی طور پر وہ بار بار اس طرف دیکھنے لگ جاتا ہے۔ آنکھیں اگر کہیں متوجہ نہ ہوں تو یہ لاتعلقی کا اظہار ہوتا ہے۔ آنکھیں جھکی ہوئی ہوں تو یہ شرمندگی یا ادب کو ظاہر کرتی ہے۔ چور کی آنکھ سو آنکھوں میں شناخت کی جاسکتی ہے۔ محبت اور نفرت کا اظہار بھی آنکھوں سے ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کی آنکھوں کو ضرور پڑھا کریں۔ آپ یہ جان کر شائد حیران ہوں گے کہ دنیا میں جتنی بھی شاعری محبت اور رومانس کے حوالے سے لکھی گئی ہے اس میں 70 فیصد شاعری میں محبوب کی آنکھوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ روحانیت میں آنکھوں کو روح کی کھڑکی بھی کہا گیا ہے۔ یعنی آپ کے اندر موجود روح آنکھوں کے راستے باہر جھانکتی  ہے۔

-5 یاد رکھیے ہم ان صلاحیت کو بڑھا (Improve) نہیں کرسکتے جس کو مونیٹر (Moniter) اورمیّئر (Measure) نہ کریں۔ آپ اپنی بات چیت کو ریکارڈ کرکے سنیں یا پھر ویڈیو بناکر اپنی گفتگو کو سنیں، آپ کو اس میں کئی خامیاں نظر آئیں گی۔ ان خامیوں پر ایک ایک کرکے کام کریں۔ کچھ عرصے بعد وہ خامیاں دور ہوجائیں گی اور آپ کی بات کرنے اور بات سمجھانے کی صلاحیت بہتر ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھار شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے بات چیت کریں۔ بظاہر یہ ایک احمقانہ حرکت معلوم ہوتی ہے لیکن اس سے آپ کو اپنے چہرے کے تاثرات کا پتہ چلے گا۔ اور آپ ان کو درست کرسکیں گے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دوست احباب کی ڈیوٹی لگادیں کہ وہ آپ کے ابلاغ  چہرے کے تاثرات، الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ کو چیک کریں۔

یہ کبھی مت بھولیے کہ محنت اور پریکٹس کا کوئی نعم  البدل ہے۔ میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوں اب تک ہزاروں لیکچرز اور سیمینارز ڈلیور کرچکا ہوں لیکن ان کو ڈلیور کرنے سے پہلے ہزاروں لیکچرز سن بھی چکا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی کسی بھی معاملے میں سنجیدگی ہی آپ کو باکمال بناتی ہے۔ اگر آپ اپنی ابلاغ کی صلاحیت بہتربنانے میں سنجیدہ نہیں ہیں تو آپ کیلئے مذکورہ بالا آسان ٹپس کو فالو کرنا بھی مشکل ہوگا لیکن اگر آپ سنجیدہ ہیں تو آپ آج ہی دنیا کے بہترین ابلاغ کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہونے والے لوگوں کی ویڈیو ڈائون لوڈ کرکے ان سے مستفید ہورہے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔