پاکستان کا نظام تعلیم اور 99 فیصد نمبر حاصل کرتے طلبا

محمد وقاص مانگٹ  پير 2 دسمبر 2019
طلبا کو امتحان سے پہلے ہی علم ہوتا ہے کہ کون سے سوالات، درخواست یا مضمون امتحان میں پوچھا جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

طلبا کو امتحان سے پہلے ہی علم ہوتا ہے کہ کون سے سوالات، درخواست یا مضمون امتحان میں پوچھا جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں نظامِ تعلیم کی تباہی کو کس کے ذمے ڈالا جائے اور کون اس کو اپنے سر لینے کےلیے تیار ہوگا، یہ بات تو ایک طرف۔ ہم ایک ایسی حقیقت کا تذکرہ کررہے ہیں جو کسی کی نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہے۔

پاکستان کے نظام تعلیم میں تھیوری پڑھ کر 99 فیصد نمبر لینے والے طالبعلم کو پریکٹیکل کے نام پر اسکریو گیج کی پہچان کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور بہت بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد طالبعلم جب میدان میں اترتا ہے تو عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں وہ ایک مزدور سے بھی گیا گزرا ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حصول کے باوجود اسے ایک ان پڑھ تجربہ کار کے ہاں کئی سال تک چند روپوں کےلیے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اس دوران وہ پڑھا لکھا ڈگری ہولڈر اپنے تمام تر کتابی اصول جلا کر ان پرانے ٹوٹکوں پر اک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے، جس کا مستقبل تاریک ہے۔ اور یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے منہ پر اور ہمارے نظام تعلیم پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔

حیرانی ہوتی ہے اس نظام تعلیم پر، جس میں اعلیٰ ترین ڈگری ہولڈر ایک نان ڈگری ہولڈر کے دروازے کے سامنے نوکری کے حصول کے لیے برسوں ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں۔ اور پھر اگر ان کو کچھ ملتا ہے تو وہ ہے چند روپوں کے عوض کئی سالہ ٹریننگ اور وہ چند روپے روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے مزدور کی اجرت سے کئی گنا کم ہوتے ہیں۔ گزارش ہے یا تو ملکی نظام میں صرف ڈگری کی بنیاد پر کامیابی کی سند دے دی جائے یا پھر تعلیمی اداروں میں رٹے باز پیدا کرنے کے بجائے عملی کارکردگی دکھانے پر توجہ دی جائے۔

پاکستانی نظام تعلیم میں دوسرا بڑا مسئلہ نصاب ہے۔ پاکستان میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے وہ کئی سال پرانا ہے۔ اس میں ایک آدھ تبدیلی کرکے اس کو تازگی دینے کی کوشش کی گئی، مگر بے سود۔ اساتذہ منتخب ابواب میں سے بچوں کو رٹا لگوا دیتے ہیں اور بچے اس کو یاد کرکے 99 فیصد نمبر حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر 15 چیپٹرز میں سے صرف 7 چیپٹرز پڑھ کر 99 فیصد نمبر لیے جاسکتے ہیں تو باقی اسباق سلیبس میں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اسے پیسہ کمانے اور نظام تعلیم کو اور مہنگا کرنے کی سازش نہ سمجھا جائے۔ اور پھر ہر اسکول اور کالج میں پڑھانے کے طریقے اور سلیبس الگ الگ ہیں۔ طالبعلم کے ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں مائیگریشن کے نتیجے میں اس کو نیا سلیبس پڑھنے میں سال لگ جاتا ہے، اور نتیجتاً وہ فیل۔

یہ 99 فیصد کی کہانی بھی بہت عجیب ہے۔ اس کا مکمل کردار ایک استاد اپنی ڈائری میں لکھتا ہے اور اسے اسی ڈائری کے اوپر 99 فیصد تک لے جاتا ہے۔ بچے کو امتحان سے پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ کہانی، لیٹر، درخواست یا مضمون امتحان میں پوچھا جائے گا اور بچہ اس کو رٹا لگا کر شاندار بنادیتا ہے۔ اس میں اساتذہ کی غلطی اس لیے نہیں ہے کہ ان سے تو رزلٹ مانگا جاتا ہے اور قابلیت کی کبھی ڈیمانڈ ہی نہیں کی گئی۔ اور پھر قابلیت کو ٹیسٹ کرنے کےلیے کوئی قابل عمل نظام موجود ہی نہیں ہے۔ اساتذہ کی کم تنخواہیں اور اساتذہ کی سستی مل کر اس سارے نظام کو مزید کھوکھلا بناتے جارہے ہیں۔ ’’تعلیم پاکستان کےلیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘ یہ بات کہیں دفن کردی گئی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔