چوروں میں بٹائی جھگڑے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 30 نومبر 2019
barq@email.com

[email protected]

ہمارے پھر برے دن آئے ہوئے ہیں حسب معمول کچھ لوگ شکایت کررہے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے واقعات ہوئے اور ہم کانوں میں تیل اور آنکھوں میں دوا ڈالے بیٹھے ہیں۔

ساری دنیا اس سے باخبر ہے ایک آپ ہی اکیلے اس سے بے خبر ہیں، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ،باغ تو سارا جانے ہے، حالانکہ ہمارے علم میں تو کوئی خاص واقعہ ہوا ہی نہیں نہ پیاز کی قیمت میں کوئی انقلاب آیاہے نہ ٹماٹر کا نرخ کم ہوا ہے نہ آلو گوبھی نے عوام کے حلقوم سے ہاتھ ہٹایاہے نہ کہیں سے یہ خبر آئی ہے کہ کسی لیڈر نے غلطی سے سچ بولا ہے یا کسی  دفتر میں کرپشن نہ ہونے کا واقعہ ہوا ہے نہ کسی ڈاکٹر نے اپنی چھری کند کی ہے، نہ اسلام کی ترقی میں کوئی رکاوٹ آئی ہے اور نہ حکومت نے عوام کو کوئی سچی خوشخبری سنائی ہے۔تو پھر کیاہوا ہے  اس کسان کا لطیفہ ہواہے جسے کسی آدمی نے چلا کرکہاتھا کہ ادھر ملک میں اتنا بڑا انقلاب آیاہے آزادی کا جشن منایا جارہاہے اور تم جشن میں شامل ہونے کے بجائے ہل چلارہے ہو۔

کسان نے پوچھا کیسا جشن کیسی آزادی؟ دوسرے نے کہا کہ انگریز یہ ملک چھوڑ کرجا رہے ہیں۔کسان نے کہا یہ تو واقعی بڑی خوشی ہے چلو جشن میں  چلتے ہیں لیکن بیل روکنے کے بعد اس نے یونہی پوچھا۔انگریز اپنے ساتھ پٹواری اور تھانیدار کو بھی لے جا رہے ہیں نا؟ دوسرے نے کہا نہیں پٹواری اور تھانیدار تو یہیں رہیں گے صرف انگریز جارہے ہیں۔اس پرکسان بولا تو کاہے کی آزادی کیسا جشن؟  اور ٹخ ٹخ کرکے ہل چلانے میں مصروف ہوگیا۔اب اگر کہیں پرکوئی ہنگامہ ہواہے تو ہوگا ہمیں کیا اس طرح تو ہوتاہے۔

اس طرح کے… میں اس طرح کی ’’ہڈیوں‘‘ پر،چلے چھوڑئیے، ہمارے لیے تو یہ ایسا ہے کہ ایک خان اور ملا کسی دعوت میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ملاجی نے خان کو کوئی واقعہ یاد دلاتے ہوئے پوچھا وہ کیا قصہ تھا؟ خان چالو ہوگیا جب واقعہ تفصیل سے سنا چکا تو ملا جی دسترخوان کا سارا’’مال‘‘ہڑپ کرچکے تھے، خان کے لیے صرف شوربا بچا تھا۔خان نے بھی ٹھان لی کہ اس سے بدلہ لے کر رہونگا۔

دوسری دعوت میں جب آمنے سامنے بیٹھے۔تو خان نے پوچھا مولوی صاحب وہ یوسف زلیخا کا قصہ کیا تھا، اس نے سنا تھا کہ یوسف زلیخا ایک لمبی داستان ہے لیکن ملا جی کچھ نہیں بس ایک لڑکا گم ہوگیا تھا پھر مل گیا۔اب ہمارے لیے ایسی کہانیوں میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ گاؤ آمد یا خر رفت۔کس کا رنگ اور جھنڈا گرا اور کونسے رنگ کا آیا کہ ’’ڈنڈا‘‘ تو ہر جھنڈے میں ایک جیسا ہوتاہے اور سارے رنگوں کے سارے جھنڈوں کے ڈنڈوں سے ہمارے کاندھے اور گردن آشنا ہیں۔تو ہمارے لیے یہ کیا فرق پڑتاہے۔

تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ

نو سہ نوے خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑہ کے

یعنی تم نے آج حمزہ کو پہلے وعدے کے اوپر ایک اور وعدہ دیا تو تم نے’’پرانی بات‘‘ میں کیا نئی بات پیدا کی۔پشتو میں ایک جانور کے بارے میں کہاگیاہے کہ اس کی قسمت میں تو کوڑے کے ڈھیر پر لوٹنا ہے چاہے جل تھل اور دریا دریاہوجائے مگر اس کی قسمت میں تو ’’چاٹنا‘‘ہی لکھا ہے تو ایسی باتوں اور ایسے میلوں سے ہمیں کیا جس کا اول وآخر نتیجہ ہماری چادر چرانے کا نکلے۔ہمارے لیے اگر کوئی نئی بات ہوسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ صبح سارے اخباروں کے ہاکر چیخ چیخ کر یہ خبر دے رہے ہوں کہ رات اچانک سارے لیڈر پراسرار طور پر مارے یا لاپتہ ہوگئے یا کسی نے سمندر میں بن لادن کردیے۔یا سارے کے سارے آپس میں لڑکر’’شہید‘‘ہوگئے۔

خدا رحمت کند ایں ظالماںچور طینیت را

یا آج فلاں فلاں بلکہ سارے جھنڈوں کو ڈنڈوں کی رگڑ سے خود بخود آسٹریلیا کے جنگلوں کی طرح آگ لگ گئی اور جھنڈا ڈنڈے سمیت خاک ہوگیا۔بلکہ سب سے بڑی خوشخبری یہ ہوگی کہ آج سارے لیڈروں کوصبح جاگتے ہی’’لاک جا‘‘یعنی جبڑوں کا فالج یا زبانوں کا لقوہ ہوگیا۔جس پر سارے دکانداروں کا ہارٹ فیل ہوگیا اور اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے سارے منتخب نمایندوں کو جناب عزرائیل نے ’’منتخب‘‘ کرلیا۔ لیکن ہمارے اتنے نصیب کہاں کہ ایسی ’’ مژدہ ہائے جاں مرا‘‘ سننے کو ملے۔ ہماری تو قسمت میں اس جنگ کی خبریں لکھی ہیں کہ آج فلاں مقام پر ڈاکوؤں کا مال غنیمت پرجھگڑا ہوگیا۔

فلاں جگہ کتوں نے ایک ہڈی کے لیے ایک دوسرے کو لہولہان کردیا۔فلاں فلاں مقام پر ’’لیلائے کرسی‘‘کے مجنوں دست وگریباں ہوئے۔ یہ بات تو ہم کوئی دس ہزار دس سو دس مرتبہ دہرا چکے ہیں کہ موجودہ دور میں انسانوں کا جو غول ہے اس میں صرف دو طبقے دو پارٹیاں اور دو ہی فریق ہیں۔ ایک وہ جس کی تعداد پندرہ فیصد ہے اور کچھ بھی کیے بغیر باتوں کے بتنگڑ اور نعروں کے پتنگ اڑاتے ہیں اور سب کچھ ہڑپتے ہیں دوسرا وہ جو پچاسی فیصد ہے اگاتا ہے کماتاہے بناتاہے کھلاتاہے دیتاہے لیکن پھر بھی بھوکا پیاسا ننگا اور بے چھت رہتاہے، پندرہ فیصد جو انسان ہیں اور پچاسی فیصد جو کالانعام ہیں پچاسی مرغیاں ہیں جو انڈے دیتی ہیں اور پندرہ فیصد جمع کرکے کھاتے ہیں اور ٹوکرے کے ٹوکرے بیچتے ہیں۔

پندرہ فیصد جو انسانوں سے بہت اونچے اور خدا سے کم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور پچاسی فیصد وہ جو انسانوں سے بہت ہی کم اور جانوروں سے بس تھوڑے کم ہیں۔پندرہ فیصد وہ جس سے کوئی’’پرسان‘‘نہیں اور پچاسی فیصد جن کا کوئی پرسان نہیں ہے اور یہ سارے جھگڑے صرف انھی پچاسی فیصد کالانعاموں کی’’گائے‘‘کے لیے ہیں جھگڑا’’دوہنے‘‘پرہے تم دوہ رہے ہو اور مجھے نہیں دوہنے دے رہے ہو۔بس کرو تم نے بہت دوہ لیا اب مجھے بھی دوہنے دو۔ہزاروں سالوں میں ظاہری شکل صورت ناموں نعروں وغٖیرہ میں بھلے ہی فرق آیاہو لیکن کام میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے پہلے صحراوں سے لٹیرے آکر لوٹتے تھے پھر لٹیرے نے محافظ کا روپ دھارن کرلیا۔

سردار آئے بادشاہ آئے فاتح آئے ہیرو آئے سلسلہ وہی رہا۔تھوڑے سے ڈاکوؤں کا طاقت کے بل پر لوٹنا اور مفت کی پڑیا۔یہ جھگڑے یہ جنگیں یہ شور یہ شرابے یہ جلسے جلوس یہ دھرنے ورنے یہ انتخابات وغیرہ کے سارے ڈرامے صرف اور صرف ’’مال غنیمت‘‘کے ہیں تم بھی چوپو ، میں بھی چوپتاہوں یا تم مت چوپو مجھے چوپنے دو۔رہے مال غنیمت یا پچاسی فیصد کالانعام یا ووٹ یا انڈے یا کارکن وغیرہ تو۔تو ہزاروں سالوں میں ان کو عقل کے عدم استعمال اور جسم کے زیادہ استعمال نے کالانعام نہیں بلکہ انعام بنایاہوا ہے جسے پندرہ فیصد اشرافیہ جس نے جسم کے بجائے عقل اور زبان کو استعمال کے ذریعے تیز دھار بنایاہوا وہ ہیپناٹسٹ ہے جو چٹکی بجاکر معمول کو سلاتے بھی ہیں اور کسی بھی کام پر مجبور کرسکتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائیاں ہمارے فائدے کے لیے لڑی جارہی ہیں کیونکہ ان عاملوں نے یہی کہا ہے جب کہ لڑائیاں ان دوہنے لوٹنے چوپنے کاٹنے اور بھنبھوڑنے کے لیے ’’ان ہی‘‘کے ذریعے لڑی جارہی ہیں ایسے حالات میں ہمیں کیا کہ لوٹنے والا کون آتاہے کون جاتاہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔