عالمی سیاسی بساط پر ایٹمی ہتھیاروں کا ظہور

عرفان احمد بیگ  اتوار 1 دسمبر 2019
روس چین اور اسرائیل نے اپنی جوہری حیثیت کو 
دنیا سے تسلیم کرا یا مگر پاکستان ایسا نہیں کر پایا

روس چین اور اسرائیل نے اپنی جوہری حیثیت کو دنیا سے تسلیم کرا یا مگر پاکستان ایسا نہیں کر پایا

(قسط نمبر 11)

بیسویں صدی انسانی تاریخ کی ہولناک صدی تھی اس صدی میںجہاں انسان نے ترقی کرتے ہوئے کائنات کو تسخیر کرنے کے کئی کامیاب کارنامے سرانجام دیتے ہوئے چاند پر قدم رکھا اور مریخ تک رسائی حاصل کی خلا میں سیٹلائٹ بھیج کر زمین اور دیگر سیاروں کے چپے چپے پر نظر رکھی ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے طاعون، چیچک، جیسی وبائی بیماریوں کا دنیا سے خاتمہ کردیا اور بہت سی لا علاج بیماریوں کا علاج عام کردیا۔

منہ زور طوفانوں، سیلابوں اور دریاؤں کو روک کر سینکڑوں مربع کلومیٹر پر محیط ہزاروں وسیع بند تعمیر کر دیئے، ماضی کے مقابلے میں فی ایکڑ زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کردیا،کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اس وسیع و عریض دنیا کو گلو بل ویلج بنا دیا وہیں دوسری طرف اسی سائنس و ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر خود اپنی تباہی کا اس قدر سامان میسر کر لیاکہ اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہی میںاپنے ہاتھوں پوری دنیا کو تباہ و بر باد ہوتے دیکھ رہا ہے اور جہاں تک تعلق ایٹمی یا جوہری ہتھیا روں کا ہے تو، امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، جو اعلانیہ ایٹمی قوتیں ہیں ان کے علاوہ غیراعلانیہ ایٹمی قوتیں جن میں اسرائیل اور شمالی کو ریا شامل ہیں، اِن میںسے کسی بھی ملک میں کبھی بھی کمانڈ پر بیٹھے ہوئے شخص کی کمپوٹر کے بٹن پر انگلی کی ایک جنبش کروڑوں برسوں سے تشکیل پانے والی اس دنیا کو لمحوں میں تباہ کر سکتی ہے۔

1895 سے لے کر 1937 تک ا نسان نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ ایٹم کیا ہے اس میں کس قدر تو انائی ہو سکتی ہے اور بطور ہتھیار یہ کس قدر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم  میں تقربیاً دوکروڑ افراد ہلاک اور اس سے کچھ زیادہ زخمی اور معذور ہوئے تھے اُس کے منفی اثرات 1930-32 میں عظیم عالمی کساد بازاری کی صورت میں پوری دنیا میں واضح ہوگئے۔

1918 میں ختم ہو نے والی جنگ کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت برطانیہ اگر چہ فاتح تھی مگر اب وہ سپر پاور نہیں رہی تھی کہ پہلی جنگ عظیم نے اُسے نو آبادیاتی نظام کے اعتبار سے دنیاکے کل رقبے میں سے تقریباً چوتھائی رقبے اور آبادی کا مالک بنا دیا تھا مگر جنگ عظیم نے برطانیہ سمیت ایشیا،افرایقہ، یورپ اور آسٹریلیاکو اب دنیا کے سرمایہ داروں اور ذہین و فطین افراد سائنس دانوں ماہرین معاشیات سب کے لیے بے اعتبار بنادیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں اگرچہ امریکہ بھی جرمنی اور ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہوا تھا مگر وہ سب سے آخر میں شامل ہوا، اور اس جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ امر یکہ ہی کو ہوا تھا۔

اس جنگ میں ایک سلطنتِ عثمانیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی دوسری روس کی زا ر سلطنت کا خاتمہ اشتراکی انقلاب کے ساتھ ہوا تھا۔ 1492 میں دریافت ہونے والے ملک امریکہ نے 4 جو لائی 1776 کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی ۔ ابراہم لنکن کے صدر منتخب ہو نے کے بعد ملک سے غلام داری کے خاتمے کے اعلان پر ۔ خانہ جنگی  شروع ہو گئی۔جو 12اپریل 1860 سے9 اپریل 1865 تک جاری، اور اس جنگ میں ’’1000000 سے1600000‘‘ امریکی ہلاک ہوئے تھے، ان انقلابی نوعیت کے مراحل سے گزر کر امریکہ اب دنیا کا سب سے طاقتور، دولت مند اور خوشحال ملک بن گیا  1930-32 کی کساد بازاری کے زمانے میں سوویت یونین اور پھر کچھ عرصے بعد جرمنی ایسے ملک تھے جو اقتصادی طور پر بحران کی بجائے بہتری کی جانب گامزن تھے۔

امریکہ بھی تھوڑے عرصے بعد کک  بسکٹ کی اقتصادی بہتری کی اصطلاح کے ساتھ گریٹ فنانشل ڈپریشن سے نکل آیا تھا، پرانے سیاسی نوآبادیا تی نظام کی بساط لپیٹی جا رہی تھی اور اس کی جگہ نیااقتصادی نو آبادیاتی نظام تشکیل پا رہا تھا، پہلی جنگ عظیم کا شکست خوردہ جرمنی سنبھل چکا تھا، سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات ومعاشیات کے ماہرین نے اعلان کر دیا تھا کہ امریکہ مواقع کی سر زمین ہے۔

اگرچہ اکثر سائنس دان اور ماہرین اپنے علم اور ریسرچ کے اچھے داموں کے لیے امریکہ جا چکے تھے مگر یہاں کچھ جرمن قوم پرست اور روس میں اشتراکی نظریات کے حامل ایسے سائنس دان ٹیکنیشن اور ماہرین تھے، جو بہت رومانی تصورات کے ساتھ وطنیت، قومیت اور اشتراکی نظریات کی بنیادوں پر جرمنی اور سوویت یونین میں موجود تھے، اس عالمی ماحول اور تناظر میں 1939ء میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ سے تین سال پہلے ہی امریکہ نے دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز بنا لیا اور اسی طرح سائنس اور ٹیکنا لو جی کے شعبوں میں ترقی اور فوقیت کی بنیاد پر امریکہ اب دنیا کے تمام ملکوں سے کافی آگے نکل گیا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ نے جس طرح دفاعی جنگ لڑی اُس کی مثال د نیا میں نہیں ملتی، جنگ اس وقت یعنی 1942 کے بعد قدرے پلٹنے لگی اور مختلف محاذوں پر جرمنی پسپا ہونے لگا اس کی ایک بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی جنگ میں شمولیت تھی اور یوں اس صورتحال کو دیکھ کر ماہرین نے پیش گوئی کر دی تھی کہ اب جرمنی اور جاپان کو اس جنگ میں شکست ہو جا ئے گی لیکن ایک نہایت تشویشناک بات یہ تھی کہ جوہری توانائی کا راز جرمنی کو  بھی معلوم تھا اور امریکہ کی بھی اب کوشش یہ تھی کہ ایٹم بم بنا کر اس کا تجربہ کیا جائے۔ امریکہ میں جہاں سائنسی ریسرچ کا ماحول اور وسائل پہلے بھی دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے۔

وہاں اگرچہ 1937سے ایٹمی ہتھیاروں کے بنانے کے لیے ریسرچ جاری تھی، اس تحقیق کو 1939 سے1941 تک تیز کر دیا گیا، امریکہ میں کوڈ نیم The Manhattan Project کے نام سے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے کام ہو رہا تھا۔ 28 دسمبر 1942ء کو امریکی صدر فرینک ڈی روز ویلٹ نے2 ارب ڈالر کی خطیر رقم جو آج تقریباً 25 ارب ڈالر بنتی ہے، دے کر حکم دیا کہ اس پروجیکٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد ماہرین کو جمع کر کے جلد از جلد ایٹم بم بنایا جائے، یوں مین ہٹن پروجیکٹ میں 130000 افراد کو بھرتی کیا گیا۔

اُس وقت اگرچہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا مگر امریکہ، برطانیہ اور اِن کے اتحادیوں کو اگر فکر تھی تو یہ کہ جرمنی نے اگر پہلے ایٹم بم بنا لیا تو نہ صرف فاشسٹ جرمنی جنگ جیت جائے گا بلکہ وہ دنیا کا جو حشرکر ے گا وہ تاریخ کے لیے ناقابلِ بیان ہو گا، جرمنی سے برطانیہ اور پھر امریکہ منتقل ہو نے والا جرمن نژاد یہودی البرٹ آئن اسٹائن امریکہ میں تھا جو پہلے ہی E=mc,2 دریافت کر چکا تھا اس سے امید تھی کہ وہ ایٹم بم جیسے ہتھیار بنانے میں دیگر سائنس دانوں کی مدد کر سکتا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ اس ہتھیار سے دنیا میں بڑی تباہی و بربادی ہو گی مگر جب اُسے امریکہ نے اپنے جاسوسوں سے حا صل کئے جانے والے ثبوتوں اور معلومات کے ساتھ بتایا  کہ جرمنی کے نسل پرست بلکہ فاسشٹ نظریات کے حامل جرمن سائنس دان متواتر کوششوں سے ایٹمی ہتھیاروں کے بنانے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور اگر جرمنی نے ایٹم بم بنا لیا تو دنیا کی صورتحال کیا ہو گی۔ یوں آئن اسٹائن امریکی سائنس دانوں کی مدد پر آماد ہوا لیکن عجیب سی بات ہے کہ اپریل 1945 تک جرمنی کو مکمل شکست ہو چکی تھی البتہ جاپان شکست ماننے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھا۔

دوسری جانب امریکی سائنس دان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگئے، امریکہ نے یہ بم جاپان میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے تاکہ جاپان کو روکا جا سکے ۔ جاپان کا یہ حشر امریکہ نے دنیا خصوصاً سوویت یونین کی عبرت کے لیے بھی کیا تھا ذرا تصور کریں کہ اُس وقت صرف امریکہ واحد ایٹمی قوت تھی اور وہ جسے چاہتی لمحوں میں جلا کر بھسم کر سکتی تھی،  مگر اس د وران دن رات سوویت یونین ، برطانیہ اور فرانس ایٹم بم بنانے میں مصروف رہے تاکہ وہ دنیا میں امریکہ کے سامنے بے بس نہ رہیں۔

امریکہ یہ جانتا تھا اور اگر وہ ان ملکوں کی ایٹمی تنصیبات پر ایٹم بم گرا دیتا یا عالمی سطح پر آمرانہ انداز اختیار کرکے اُس وقت کا ورلڈ آڈر جاری کر دیتا کہ صرف امریکہ کو ایٹم بم رکھنے کا حق ہے تو دنیا کیا کر لیتی کہ ایٹم بم بہت ہی تباہ کن ہتھیار ہے اور اگر اُس وقت پوری دنیا بھی متحد ہو کر امریکہ کے مقابل آتی تو بھی امریکہ اِس پوزیشن میں تھا کہ سب کے مزاج درست کردیتا اور شائد ایسا کرنا اگر حکومت کے بس میں ہوتا تو امریکی حکومت ایسا کر گزرتی، مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکہ کے عوام کا انسانی بنیادوں پر ایسا دباؤ تھا کہ یوں نہیں ہوا۔

اُس وقت جب 15  اگست 1945کے فوراً بعد ہی سوویت یونین اور اس کے کیمونسٹ بلاک اور امریکہ، مغربی یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک جو آزادانہ معاشیات پر اور سر مایہ دارانہ نظام پر یقین رکھتے تھے اِن کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی تو یہ اندیشے ضرور تھے کہ امریکہ کبھی بھی کسی موقع پر ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے، اور وہ اُس وقت اس انداز کی سپر پاور تھا کہ بشمول روس اور چین دنیا کے کئی ملکوں کو چند منٹوں میں خاکستر کر سکتا تھا۔ 29 اگست1949 کو سوویت یونین نے بھی کامیاب ایٹمی دھماکہ کر کے دنیاکی دوسری ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا۔

اس پر امریکی حکومت کا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا مگر ساتھ ہی دو طرح کے تجزیے سامنے آنے لگے وہ یہ کہ اب چو نکہ روس بھی ایٹمی قوت ہے اس لیے اگر مستقبل میں ان کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو پھر ایسی جنگ عظیم یا عالمی جنگ ایک تو چند گھنٹوں یا دنوں میں اس طرح ختم ہو جا ئے گی کہ پوری دنیا ہی جنگ کے ساتھ ختم ہو چکی ہو گی دوسرے تجزیے یوں تھے کہ اب دنیا میں طاقت کا توازن برقرار ہو گیا ہے اس لیے اب جنگ خصوصاً عالمی یا جنگ عظیم کے خطرات ختم ہو گئے ہیں اور یہ دوسرا نقطہ نظر آج تک درست ثابت ہو رہا ہے کہ اب ایٹمی ہتھیارکی ایجاد اور استعمال کو 74 سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن تیسری عالمی یا جنگ عظیم نہیں ہوئی۔

جب سابق سوویت یونین نے 1949 میں کامیاب ایٹمی دھماکہ کر دیا تو امریکی سی آئی اے حر کت میں آئی کیو نکہ اس کی معلومات کے مطابق ایک تو سوویت یونین کے سائنس دان اُس وقت تک ایٹم بم بنانے کی تکنیک تک نہیں پہنچے تھے تو دوسری جانب جو دھماکہ سوویت یونین نے کیا تھا وہ امریکی طرز کا تھا اور بعد میں یہ راز معلوم ہو گیا کہ امریکہ سے یہ ایٹمی راز چرایا گیا تھا اور سوویت یو نین کو فراہم کردیا گیا تھا اور اس راز کو روس کو فراہم کر نے والوں کو امریکہ نے گرفتار بھی کر لیا یہ ایک امریکی جوڑا تھا جو اشتراکی نظریات رکھتا تھا بیوی ایتھل اداکارہ تھی اور سیکرٹری کی نوکری کرتی تھی جب کہ شوہر جولیس روز مبرگ اٹامک ٹیکنالوجی میں انجینئر تھا اور اُنہوں نے امریکہ کے ایٹمی راز روس کو دیئے۔

1951 میں اِن کے بارے میں معلومات اور ثبوت مل گئے اور پھر 19 جولائی1953 کو اِن دونوں میاں بیوی کو الیکڑک چیر پر سزائے موت دے دی گئی۔اس دوران اُنہیں امریکہ کا غدار کہا گیا اور اِن کے بچے بھی تھے جن کو امریکی معاشرے میں شرمندگی اور ندامت کا سامناتھا جب کہ یہ جوڑا اشتراکی نظرایات سے سچائی کے ساتھ منسلک تھا اور اُن کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے دنیا کو ایک سرمایہ دار ملک کی غلامی سے بچا لیا اور دنیا کو متوازن طاقت کی بنیاد پر امن بخشا۔

اُس زمانے میں اشتراکی نظریات کے حامل اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض پنڈی سازش کیس میں جیل میں تھے اُن پر ملک میں انقلاب لانے کی سازش کا مقدمہ تھا اور یہ باتیں بھی ہو رہی تھیں کہ شائد اُن کو ساتھیوں سمیت سزائے موت ہو جائے، یوں ایتھل اور جولیس روزمنبرگ کے خطوط اُن کی موت کے بعد فیض احمد فیض کو اُس وقت کی منٹگمری اور آج کی ساہیوال جیل میں ملے تو انہوں نے 15 مئی 1954کو اِن خطوط سے متاثر ہوکر ایک شاہکار نظم اِن کے نام سے لکھی جو درج ذیل عنوان کے ساتھ یوں ہے۔

(  ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے  )

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں  ہم

دار  کی   خشک   ٹہنی   پہ   وارے   گئے

تیرے ہاتھوں کی  شمعوں کی  حسرت میں  ہم

نیم   تاریک  راہوں   میں   مارے   گئے

سولیوں   پہ   ہمارے   لبوں  سے   پرے

تیرے    ہونٹوں    کی   لالی   لپکتی   رہی

تیری    زلفوں   کی   مستی     برستی    رہی

تیرے   ہاتھوں   کی  چاندی     دہکتی   رہی

جب  کھلی  تیری   راہوں    میں  شام  ِ ستم

ہم  چلے  آئے  لائے  ،  جہاں   تک  قدم

لب  پہ  حرفِ  غزل  ،  دل  میں  قند یلِ  غم

اپنا   غم   تھا   گو اہی    ترے   حسن   کی

دیکھ    قائم   رہے    اِس   گواہی   پہ   ہم

ہم  جو   تاریک   راہوں   میں   مارے   گئے

نارسائی        اگر    اپنی       تقدیر      تھی

تیر ی    الفت    تو    اپنی    ہی    تد بیر   تھی

کس    کو    شکوہ    گر    شوق    کے   سلسلے

ہجر  کی  قتل   گاہوں   سے   سب   جا    ملے

قتل گاہوں   سے    چن     کے   ہمارے   علم

اور    نکلیں    گے    عُشّاق    کے      قافلے

جن  کی   راہِ   طلب   سے    ہمارے      قدم

مختصر    کر    چلے     درد     کے      فاصلے

کر   چلے    جن   کی    خاطر   جہاں گیر   ہم

جاں    گنوا    کر   تری    دلبری   کا     بھرم

ہم   جو   تاریک    راہوں   میں  مارے     گئے

دنیا آج شائد اس واقعہ کو فراموش کر چکی ہے لیکن تصور کر یں کہ اگر آج تک صرف امریکہ ایٹمی قوت ہوتی تو کیا ہوتا؟ سابق سوویت یونین کے بعد 3 اکتوبر 1953 کو برطانیہ 13 فروری1960 کو فرانس اور 16 اکتوبر 1964 کو چین بھی ایٹمی قوت بن گیا البتہ یہ ضرور ہے کہ اس دوران جب ابھی چین نے ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا اکتوبر 1962 کے 13 دن پوری دنیا پر بہت بھاری گزر ے۔  ہوا یوں کہ امریکہ کے نزدیک کیوبا میں فیڈرل کاسترو اور چہ گویرا کیوبا کے عوام کی بھرپور قوت اور حمایت سے یہاں اشتراکی انقلاب لے آئے اس اشتراکی انقلاب کی پشت پر سابق سوویت یونین تھا۔

جس نے اس پوری مسلح تحریک کو اسلحہ بارود فراہم کیا تھا، یوں سوویت یونین نے یہاں ایٹمی میزائل نصب کر دئیے اور اِن کی زد میں امریکہ تھا یہ امریکہ کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا کہ سوویت یونین یہاں سے امریکہ کو بری طرح تباہ کر سکتا تھا، یہ امریکہ کے بنیادی وجود اور پالیسی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنج تھا، جس کو اُس وقت کے  نوجوان امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے بڑی جرات سے قبول کیا اور سوویت یونین کو الٹی میٹم دے دیا کہ اگر یہ میز ائل فوراً یہاں سے نہ ہٹائے گئے تو امریکہ ایٹمی جنگ کا آغاز کر دے گا۔

یوں 13 دن پوری دنیا خو ف میں مبتلا رہی کیونکہ اُن کے سامنے 17 سال پہلے بہت کم قوت کے ایٹم بم لٹل بوائے اور فیٹ مین کے خوفناک نتائج تھے ۔ روس کے خروشف اپنی جگہ تھے اور امریکہ کے مقبول صدر کینیڈی اپنی جگہ تھے۔ کیوبا امریکہ سے صرف 90 میل کے فاصلے پر واقع ایک جزیرہ ہے امریکہ نے کیوبا کے گرد اپنی بحری فوج کو بڑی تعداد میں جمع کر دیااور آخرکار روس اور امریکہ میں مذاکرات کے بعد یہ طے پایا کہ امریکہ کیوبا میں قائم کاسٹر و کی حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا اور بظاہر اس شرط پر سابق سوویت یونین نے کیوبا سے اپنے میزائل ہٹا لیے اور اسی نکتے پر دنیا کا مشہور اشتراکی گوریلا لیڈ ر چہ گویرا ناراض ہو کر کیوبا چھوڑ گیا اور پھر کچھ عرصے بعد بولیویہ میں لڑتا ہوا زخمی ہوا جسے بعد میں قید کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔

ایٹمی قوت کی یہ مثال جس میں سابق سوویت یونین اورآج کے روس نے 1949 میں امریکہ کے سامنے خود کو منوایا اس کے بعد غیر اعلانیہ قوت اسرائیل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسرائیل چین سے پہلے ایٹمی قوت بن گیا تھا 30 ستمبر1986 میں اسرائیل کے ایک ایٹمی ٹیکنیشن نے اسرائیل کے ایٹمی رازوں سے متعلق معلومات ذرائع ابلاغ کو فراہم کیں، اس ٹیکنیشن کا نام مور ڈی چائی وانیو می Mordechai Vanumi تھا جس کو بعد میں اسرائیل میں طویل مدت کی قید ہوئی، اس کی معلومات کی بنیاد پر سنڈے میگزین نے بتایا کہ اسرائیل کے پاس 200 سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، اور اسی اسرائیل نے عراق پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے قبل ہی حملہ کر کے اُس کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا تھا۔

اسرائیل کی یہ پوزیشن ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ہر بار جاریت بھی کرتا ہے مگر اس کے خلاف کوئی بھرپور جواب نہیں دیتا ،پھر ایک مثال ساوتھ افریقہ کی بھی رہی جہاں جب تک سفید فام اقلیت نسلی امتیاز کی بدترین پالیسیوں کے ساتھ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود حکمرانی کر تی رہی تو اُن کے خلاف اقوام متحدہ کے تحت بھی طاقت کی بنیاد پرکوئی کاروائی  نہیں کی گئی۔

جنوبی افریقہ نے بھی اُس زمانے میں اسرائیل کی مدد سے ایٹمی ہتھیار بنائے تھے اور اس کا اعتراف اُس نے اس وقت کیا جب نیلسن منڈیلا کے ساتھ مفاہمتی عمل کے بعد جنوبی افریقہ میں صورتحال نارمل ہو گئی تو ساوتھ افریقہ نے کہا کہ اُن کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے جو اُنہوں نے ضائع کر دیئے اور اُن کے اس بیان پر دنیا نے خا موشی سے یقین کر لیا حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ اُس نے اپنے ایٹمی ہتھیار اسرائیل کو دیئے تھے پھر ایٹمی ہتھیار اور سیاسی قوت اور اثر ورسوخ کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب تک چین نے ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا۔

اُس وقت تک نہ صرف امریکہ ،بر طانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کا رویہ چین سے بہتر نہیں تھا؟ بلکہ سابق سوویت یونین بھی چین پر اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتا تھا مگر جب1964 میں چین نے بھی ایٹمی دھماکہ کر لیا تو امریکہ برطانیہ اور روس سمیت بہت سے ملکوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اب اس ملک کو نہ صرف تسلیم کر نا ہو گا بلکہ اقوام متحد ہ میں تائیوان کی بجائے چین کی حیثیت کے مطابق رکنیت کے ساتھ وٹیو پاور دینا ہو گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چین کے ایٹمی قوت بننے کے صرف سات سال بعد ہی چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے ساتھ رکنیت مل گئی۔

یوں جب بھارت نے 1974  میں اپنا  بنیادی نوعیت کا ایٹمی دھماکہ کر لیا تھا تو اگر چہ اُس وقت بھارت اس قابل نہیں تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا مگر یہ پا کستان کے لیے چیلنج تھا اور پا کستان نے بہت عمدہ طریقے سے بھارت سے پہلے ایٹمی قوت حاصل کر لی تھی، لیکن جب 9 مئی کو بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کئے تو یہ اس بات کا اعلان تھے کہ اب بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا ہے اور پھر پاکستان نے باوجود شدید بیرونی دباؤ کے 28 مئی 1998 کو 5 ایٹمی دھماکے کئے اور اس کے بعد 30 مئی کو ایک اور ایٹمی دھماکہ کر دیا، بھارت کو یہ یقین تھا کہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے پاکستان ایٹمی دھماکے نہیں کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور اب دنیا اس کو کتنا ہی نظر اندز کر نے کوشش کرے کہ پاکستان اور بھارت کے اعلانیہ ایٹمی قوت بن جانے سے اِن دونوں ملکوں کے تنا زعات اور مسائل پر ایٹمی قوت کے لحاظ سے اثر نہیں پڑے گا تو یہ حقیقت کے بالکل منافی بات ہے۔

البتہ یہ سوال ضرور ہے کہ دونوں ملکوں کے اعلانیہ ایٹمی قوت بنے اب 19 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک اِن کے درمیان موجود تنازعات اور مسائل کیوں حل نہیں ہوئے؟ اور خصوصاً کشمیر جیسا مسئلہ جس پر اقوام متحد ہ کی ایسی منظورشدہ قراردادیںہیں جس پر دونوں فریق یعنی پاکستان اور بھارت اتفاق کر چکے ہیں تو اس کے لیے ہمیں 28 مئی1998 کے بعد سے تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہو گی، دھماکوں کے بعد یوں لگا جیسے معاملات پر سنجیدگی سے دو نوں ملکوں کی حکومتیں توجہ دے رہی ہیں اور ایٹمی دھماکوں کے چند مہینوں بعد ہی بھارتی وزیر اعظم واچپائی نے پاکستان کا دورہ کیا اور اعلان لاہور بھی ہوا مگر ایک بار پھر بس شملہ معاہدے کے اُن نکات کو دھرایا گیا جس پر کبھی بھی بھارت نے عمل نہیں کیا، اس کے بعد کہا جا تا تھا ہے کہ 6 مارچ 1999 کو راولپنڈی میں وزیر اعظم نواز شریف کو بم دھماکے میں اڑانے کی ایک کوشش ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کی اطلاع پر فورسز نے ناکام بنا دی اور چھ دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا، اسی روز نیوکلیئر ٹیسٹ کرنے والے122 سائنس دانوں، انجنئیروں اور کارکنوں کو ایٹمی دھماکوں میں اہم کردار ادا کر نے پر خصوصی ایوارڈ دئیے گئے۔

اسی دوران نواز حکومت نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلا ف سخت قانونی اقدامات کئے، 13 مارچ لاہور ہائی کورٹ نے کرپشن کے ایک مقدمے میں بینظیر بھٹو اور اِن کے شوہر آصف علی زرداری کو پانچ سال قید اور 86 لاکھ ڈالر کی سزا سنائی، پاکستان نے غوری میزائل ii کا کامیاب تجربہ کیا جس کا ہدف 2000 کلومیٹر ہے، 19 اپریل کو نواز شریف 27 سال بعد چار روزہ دورے پر روس گئے۔

4 مئی 1999 کو نیلسن منڈیلا حکومت کی دعوت پر پاکستان آئے، اُنہوں نے جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے اور کشمیر کے مسئلے کو بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی، 18 مئی1999 کو حکو مت کے مطابق دوران تفتیش آصف علی زرداری نے خودکشی کی ناکام کوشش کی جب کہ زرداری کے اہل خانہ اور پیپلز پارٹی نے اِسے قتل کی کوشش قرار دیا،آصف علی زرداری کی زبان کا ٹنے کی خبر عام ہوئی اور اُن کو زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل  کردیا گیا، 27 مئی کو 100 یوم تکبیر اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا گیا۔

یہ بات واضح ہے کہ ایک سال قبل پاکستان باوجود دنیا کے شدید دباؤ کے بھارت کے مقابلے میں فوراً ہی اعلانیہ ایٹمی قوت بن گیا مگر اس بنیاد پر نہ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے فوری مذ اکرات شروع ہو ئے اور نہ ہی حکومت، بھارت اور بیرونی دنیا کے پاکستان مخالف بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام مخالف پروپیگنڈے کو روک سکی اور نہ ہی اس کا موثر جواب دے سکی، اسی طرح اُس وقت جو مالیاتی بحران اٹھا، اُس پر بھی حکو مت قابو پا نے میں ناکام رہی اور ساتھ ہی اپوزیشن کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے اپوزیشن کو دبا دیا۔

ایٹمی پروگرام کے لیے ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے اسکے نام یا عنوان کے لحاظ سے اُسے نرم یا دفاعی انداز میں پرامن ظاہر کرے اُس کے لیے کو ئی مذہبی قومی جارحانہ قسم کا تاثر ظاہر نہ ہو مثلاً امریکہ نے جو ایٹم بم جاپان پر گرائے اُن کے نام بہت سادہ اور قدرے نرم انداز کے رکھے یعنی ننھا بچہ اور موٹا آدمی، بھارت نے 1974 میں اپنا پہلا ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو اُس کا نام مسکراتا بدھا رکھا حالانکہ یہ نام ہندو تاریخ کے اعتبار سے حقائق کے بالکل منفی تھا مگر بھارت اپنے ایٹمی پروگرام کو دنیا کے سامنے پُرامن رکھنا چاہتا تھا۔

واضح رہے کہ مہاتما بدھ اپنے عہد میں ہندوستان میں نہایت پُر امن عقائد کی تعلیمات دیتا رہا مگر ہندو دھرم اِن تعلیمات کے خلا ف رہا اور یہاں مہاتما بدھ سدھارتا نے جو تپسیہ کی وہ فاقوں سے رہا تا کہ اُسے حق کی معرفت ہو تو اُس کا بت جو ہندوستان میں مقبول ہوا وہ فاقہ زدہ نحیف اور کمزور انسان کا ہے جس کا پیٹ بھوک اور فاقے کی وجہ سے بالکل اندر دھنسا ہوا ہے جسے فاسٹنگ بدھا کہا جاتا ہے پھر دوسری حقیقت یہ ہے کہ تقریباً دوہزار سال قبل یہاں ہمارے ہاں اشوک اعظم کی حکومت تھی تو جنگ کلنگا میں اشوک اعظم نے ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور جب اُس نے اتنی لاشیں دیکھیں تو اُس نے بدھ مت اختیار کیا اور پھر اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی ہندومت دوبارہ ہند وستان پر غالب آگیا۔

اب جہاں تک سمائلنگ بدھا کی بات ہے تو بدھ مت ہندوستان سے نکل کر چین جا پان ،کوریا جیسے ملکوں میں مقبول ہوا اور آج وہاں آبادی کی اکثریت بدھ مت ہے اور اُن کے ہاں مہا تما بدھ کا مجسمہ مسکراتا اور بھاری جسم کا ہے جو امن کے ساتھ خوشحالی کا واضح تصور دیتا ہے اور دنیا میں زیادہ تر اسی سمائلنگ بدھا کے مجسمے کو جانا جاتا ہے پھر اِس وقت بھارت میں بدھ مت آبادی کا تناسب صرف 0.70% ہے لیکن بھارت نے اپنے عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے ایٹمی پرو گرام کی ابتدا کو سمائلنگ بدھا سے اس لیے منسلک کیا کہ چین میں آبادی کی اکثریت عقائد کے اعتبار سے بدھ مت ہے اور تبت جہاں بھارت مغربی ملکوں سے مل کر چین کے خلاف ایک سیاسی محاذ کھولے ہوئے ہے اور دلائی لامہ کو بھارت میںسیاسی پناہ دی ہوئی ہے۔

یوں بھارت شروع ہی سے انسانیت کی تباہی کے لیے بنائے جانے والے ہتھیار اور اس کے خوفناک ممکنہ استعمال پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ سب میک اپ کرتا رہا ہمارے ہاں جب ہم نے بھارت کے جواب میں کامیاب ایٹمی دھماکے کر لئے تو نواز شریف کی حکومت نے عوام کو دعوت دی وہ اس اہم دن کا کوئی ایسا نام تجویز کریں تاکہ اس یادگار دن کو ہمیشہ اس نام کے ساتھ یاد رکھا جائے اور منایا جائے، یوں کروڑوں لوگوں نے نام دئیے اور اکثر یت کی بنیاد پر دن کا نام ’’یومِ تکبیر‘‘ طے پایا یعنی اللہ اکبر کا دن، ہم آغاز سے ہی  ایٹم بم بنانے کے مخالف تھے ہم نے تو پوری دنیا کو کہا تھا کہ بھارت کو ایٹم بم بنانے سے باز رکھیں۔

ہم نے 1974سے1998 تک متواتر یہ مطالبہ کیا تھا کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پا ک علاقہ قرار دیا جائے، پھر سوال یہ ہے کہ ہم سب مسلمان دن کی پانچ نمازوں اور اذانوں میں کئی بار اللہ اکبر یعنی تکبیر کی آواز بلند کرتے ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جنگوں میں نعرہ تکبیر اس لیے لگایا جاتا ہے کہ اسلام کی بنیاد توحید ہے اور جنگ صرف ظلم کے خلاف اور اللہ کی عظمت کے لیے لڑی جاتی ہے وہی سب سے بڑا ہے اور قرآن میں جس نے اپنے نام اور تقریباً ہر احکامات کی ابتدا اپنے عظیم صفاتی ناموں رحمان اور رحیم سے کی ہے۔

یوں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دن کا نام یوم بقائے پاکستان ، یوم تحفظِ پا کستان رکھا جاتا اور اگر مذہب کے ساتھ اس دن کو جوڑنا ضروری تھا تو یوم رحمان یا یوم رحیم نام رکھ دیا جاتا کیونکہ پاکستان لفظ پاک سے نکلا ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر دو قومی نظریے پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے معنی ہی سلامتی کے ہیں پھر ہم نے دھماکوں سے پہلے کئی دہائیوں سے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پا ک علاقہ قرار دیا جائے۔

مگر بعض معصوم لوگوں نے یوم تکبیر کے ساتھ اسلامی اتحاد کے جوش و جذبے کے تحت پاکستان کے اٹیم بم کو اسلامی بم کا نام دے کر خوب شور مچایا،اس دوران ہماری حکومت نے بیرونی پروپیگنڈا مشن کی جانب توجہ نہیں دی اور پھر پاکستان پر بیرونی دنیا کا دباؤ بڑھنے لگا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں ہے اور ساتھ ہی بعد میں اسلامی دہشت گردی کا شور شرابا شروع ہوا اور ہم نے اپنی ایٹمی قوت کی بنیاد پر اسٹرٹیجی کے لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کے لیے جو دباؤ اقوام متحدہ، دنیا کی بڑی قوتوں اور بھارت پر ڈالنا تھا، اب سارا زور اس پر صرف کرنا پڑا کہ ہم دنیا کو اس کا یقین دلاتے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے اور ہم اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو کسی کے خلا ف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے صرف جنگ 1965 ہی ایک ایسا مو قع تھا جب ہمارا پر وپیگنڈا بہت بہتر انداز کا رہا۔

ورنہ ہم نے اکثر و بیشتر بہت حما قت کی ہے مثلاً مجھے یاد ہے کہ ہم 1973 تک نصاب کی کتابوں میں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کا سن پیدائش 1873 پڑھتے رہے،1973 میںجب ہم بحران کا شکار تھے تو بھارت نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علامہ اقبال کا سو سالہ یوم پیدائش قومی سطح پر منایا اور اُن کو ہندوستان کا شاعر بنا کر پیش کرنے کی ناکام کو شش کی، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس کا مدلل جواب دیتے کہ علامہ آغاز میں واقعی وطنیت کی بنیاد پر اور فطرت کے حسن سے متاثر ہو کر شاعری کرتے رہے اور ترانہ ہندی میں یہ کہا کہ (سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔۔ ہم بلبلیں اس کی یہ گلستاں ہمارا ) مگر پھر وہ کون سے عوامل تھے کہ یہی علامہ اقبال یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ( چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا ۔۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ) لیکن ہم نے یہ نہیں کیا۔

اُس وقت بھی حکومت نے دانشوروں اور ماہر ین سے مشاورت نہیں اور بیورو کریٹس نے جو کہا وہ مان لیا گیا اور پھر حکومت نے یہ اعلان کیا کہ علامہ اقبال سیالکو ٹ میں پیدا ہوئے تھے اوراقبال کا سنِ پیدائش تحقیق کے مطابق رجسٹر پیدائش سیالکو ٹ میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ میں1973 کی بجائے1977 ہے یوں پھر نصاب کی تمام کتابوں میں اقبال کو چار سال بعد پیدا کیا گیا اور آج ہم علامہ اقبال کا یہی سن پیدائش یعنی1977 پڑھتے ہیں اور بھارت میں وہی 1973 کا سن پیدائش پڑھا جاتا ہے اسی طرح جب 23 مارچ 1940 کو یوم پاکستان کو یاد رکھنے کے لیے کہ کس طرح برصغیر کے مسلمان ایک ہوئے اور پاکستا ن کا مطالبہ کیا، یہاں لاہور میں ایک مینار تعمیر کیا گیا تو بیوروکریٹس نے اس دن کی یاد کے حوالے سے اس کا نام یادگارِ پاکستان رکھ دیا تھا، اور کچھ عرصہ بعد جب دانشوروں اور ماہر ین نے حکومت کی متواتر توجہ دلائی کہ لفظ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کے لے استعمال ہوتا ہے تو اس مینار کا نام مینار پاکستان کیا گیا بد قسمتی سے ہمارے ایٹمی پروگرام کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوتا رہا جس کی وجہ سے ہم وہ دباؤ جو اس بنیاد پر ڈالنا چاہیے تھا وہ بھارت سمیت دیگر ملکوں اور اقوام متحدہ پر نہیں ڈال سکے۔     (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔