وقت کے فرعون

میاں اصغر سلیمی  اتوار 1 دسمبر 2019
اس دنیا میں نمرود، شداد، فرعون، قارون اور نہ جانے کتنے آئے اور چلے گئے اور رہ گئیں عبرت کی نشانیاں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس دنیا میں نمرود، شداد، فرعون، قارون اور نہ جانے کتنے آئے اور چلے گئے اور رہ گئیں عبرت کی نشانیاں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دلوں کو دہلا دینے والی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مظفر گڑھ میں بااثر زمیندار نے غریب محنت کش اور اس کے بیٹے پر خونخوار کتے چھوڑ دیئے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سیت پور کے علاقے موضع سندر میں راستے سے گزرنے کی رنجش پر بااثر زمیندار نے غریب محنت کش باپ بیٹے پر خونخوار کتے چھوڑ دیے، جنہوں نے 70 سالہ خیر محمد اور اس کے بیٹے اسماعیل کو بری طرح نوچ ڈالا۔ زمیندار کتے چھوڑنے کے بعد شرمندہ ہونے کے بجائے قہقہے لگاتا رہا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، اس طرح کے ایسے بے شمار دلخراش واقعات ہیں جو آئے روز ہمارے اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

نجانے انسان کا دماغ اتنا خراب کیوں ہوجاتا ہے کہ بسا اوقات غرور، تکبر اور گھمنڈ میں اس قدر آگے نکل جاتا ہے کہ خود کو نعوذ باللہ ”خدا“سمجھنے لگتا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق سے ہر طرح کا ناروا سلوک کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ وہ دوسروں کا حق مارتا ہے، زمینوں پر قبضے کرتا ہے، قتل وغارت کا بازار گرم کرتا ہے، انسانی سروں کے مینار بناتا ہے، ناحق جنگیں شروع کرتا ہے جس میں لاکھوں، کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا کہ اس دنیا میں نمرود، شداد، فرعون، قارون اور نہ جانے کتنے آئے اور چلے گئے اور رہ گئی عبرت کی نشانیاں۔ اگر پھر بھی کسی کو سمجھ نہ آئے تو وقت نکال کر قریبی قبرستان چلا جائے، بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ وہاں پر ایسے ایسے بھی ملیں گے جو خود کو اس دنیا کےلیے ناگزیر سمجھتے تھے اور آج ان کے بڑے نام، جاہ وحشمت، رعب ودبدبہ سب کچھ فنا ہوچکا ہے۔ اگر انسان کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی تو کم از کم اپنی تخلیق پر ہی غور کرلے تو اس کی تمام اکڑ اور غرور ہوا ہوجائے گا۔

ڈاکٹرخالد جمیل دنیائے طب کا بڑا نام ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ کےلیے میو اسپتال کے شعبۂ پوسٹ مارٹم کے انچارج بھی رہے۔ ان کے مطابق پوسٹ مارٹم کرنے کےلیے انسان کے سر میں سے دماغ نکال کر اس کا معائنہ کیا جاتا ہے، اس کے بعد چھاتی چیر کر دل، پھیپھڑے، جگر، تلی، آنتیں اور جسم کے دوسرے اعضا کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جسم کے اندر سے سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سب کے دل، جگر اور باقی اعضا کا رنگ بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ان کی ترتیب اور ساخت میں بھی کوئی فرق نہیں ہوتا۔ گورے اور کالے کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ انسان میں بنیادی فرق اس کے جسم کی ابتدائی تہہ جسے ہم حرف عام میں ”اسکن“ کہتے ہیں، ہوتی ہے۔ اس جلد کو خوبصورت بنانے کےلیے نہ جانے کیا کیا جتن کرتا ہے۔ دنیا بھر کی خواتین تو زیادہ سے زیادہ خوبصورت نظر آنے کے چکر میں میک اپ کی مد میں سالانہ اربوں ڈالرز خرچ کرتی ہیں۔ انسان گوری اور کالی چمڑی کو جواز بنا کر انسانوں میں تفریق پیدا کرتا ہے، خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ حالانکہ انسان کی اصل حقیقت تو ریت کے ذرے سے بھی زیادہ نہیں۔

لیکن انسان ہے کہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا اور طاقت و غرور کے نشے میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس ملک کا ہر فرد جانتا ہے کہ اس ملک کا ایک صدر ایسا بھی تھا جس کو اپنی ذہانت اور اقتدار پر بڑا غرور تھا۔ جب وقت کا ریفرنس چلا تو اسے اپنی زندگی کے آخری دن لندن میں ایک کرائے کے فلیٹ میں گزارنا پڑے۔ ملک غلام محمد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل تھے۔ انہیں فالج ہوچکا تھا۔ وہ سارا دن وہیل چیئر پر پڑے رہتے تھے۔ اس کے باوجود وہ خود کو عقل کل سمجھتے تھے۔ صدر جنرل یحییٰ خان پاکستانی تاریخ کے انتہائی متنازعہ کردار تھے۔ حمود الرحمان رپورٹ میں صدر کی ذاتی زندگی کے انتہائی گھناؤنے واقعات درج ہیں۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ طاقتور سیاسی گھرانے زرداری، مزاری، گیلانی، ٹوانے، کھوسے، بٹ، راجپوت بن کر اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ مالی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور غریبوں کا بری طرح استحصال کرکے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں۔ وہ یہ تک بھول چکے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے، ایک دن انہوں نے اگلے جہاں میں بھی اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

انسان کے سمجھنے کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ جب روز محشر میدان لگا ہوگا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دنیا کے بادشاہ کدھر ہیں، وہ ظالم کدھر ہیں، تکبر اور غرور کرنے والے کدھر ہیں؟ پھر اللہ فرمائیں گے کہ آج کون بادشاہ ہے۔ جب کوئی جواب نہیں آئے گا تو اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائیں گے آج اکیلے اللہ ہی کی بادشاہت ہے۔ اس روز گہنگار اپنے کیے پر نادم اور نیک اور صالح عمل کرنے والے سرخرو ہوں گے۔ انسان کے سنبھلنے کےلیے بس اتناہی کافی ہے۔ اگر وہ یہ جان لے کہ ہر چیز فنا ہونے کےلیے ہے۔ بس جو نام ہمیشہ ہمیشہ کےلیے باقی رہے گا، وہ ”اللہ“ کا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Mian Asghar Saleemi

میاں اصغر سلیمی

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، دو عشروں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ 12 برس سے ایکسپریس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔