بال ٹیمپرنگ۔۔۔ چند واقعات، چند انکشافات

سلیم ملک  پير 28 اکتوبر 2013

اگر چاہوں تو الفاظ میں نقشہ کھینچ کر رکھ دوں لیکن کیا کروں، اگر قمیض اٹھائی جائے تو پیٹ اپنا ہی برہنہ ہوتا ہے، شائقین کے سامنے بال ٹیمپرنگ کے حقائق سامنے لانے سے قبل نہ جانے کتنی دیر تک پیچ و تاب میں الجھا رہا۔کالم لکھنے کے لیے کاغذ اور پین ہاتھ میں لے کر بیٹھا تو دنیائے کرکٹ کے ایسے ایسے بھیانک اور شرمناک واقعات یاد آنا شروع ہو گئے کہ خدا کی پناہ۔ قارئین سے اپنے گذشتہ کالم میں اس حوالے سے چند راز افشا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا کر رہا ہوں، اور بھی ایسے بہت سے بھید ہیں جو کسی مناسب وقت پرکھولوں گا۔ بال ٹیمپرنگ کرکٹ کے کھیل میں نئی نہیں بلکہ گیند کو خراب کرنے کا فن گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے، اس کا آغاز اس وقت ہوا جب1978/79 میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ میلبورن ٹیسٹ میں میزبان آسٹریلیا کو ٹیسٹ میں فتح کے لیے صرف77 رنز درکار تھے، ایلن بارڈر 105 اورکم ہیوز 84 رنزکے ساتھ کریز پر موجود تھے، ایسے میں کینگروز کی فتح یقینی نظر آ رہی تھی، پھر وہ ہوا جوکرکٹ کے پنڈتوں اور پجاریوں نے کبھی دیکھا اور نہ ہی سنا۔

فاسٹ بولر سرفراز نواز نے33 گیندوں پر صرف ایک رن دے کر 7کھلاڑیوں کو پویلین بھیج کر فتح پاکستان کے نام کر دی۔اس دور میں آج کی طرح میچوں کے دوران جدید ترین درجنوں کیمروں ہوتے تھے اور نہ ہی امپائرنگ قوانین اتنے زیادہ سخت تھے، تیز اور ذہین کرکٹرز دوسروں کو چکمہ دے کر اپنی مرضی کے مطابق گیند کے ساتھ چھیڑ خانی کر لیتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ اس فن میں جدت آتی گئی، گیند کو ناخن سے کھرچنے ، انگلیوں پر سینڈ پیپر چڑھانے، ٹرائوزر میں ممنوعہ اشیا یہاں تک کہ بوتل کے ڈھکن کے ساتھ بال کو خراب کیا جاتا رہا۔دعوے سے کہتا ہوں کہ بال ٹیمپرنگ کا فن آج بھی دنیا کی دوسری ٹیموں تک منتقل نہ ہوتا اگر پاکستانی ٹیم کے 1988کے دورئہ ویسٹ انڈیز کے دوران ایک اوپنر شراب کے نشے میں ٹن ہو کرغیروں کو یہ نہ بتاتا کہ ہمارے بولرز گیند کی ٹیمپرنگ اور اس کے لیے کون کون سے حربے استعمال کرتے ہیں۔

اس کرکٹر کا نام لکھنے کی بجائے اپنے قارئین کو اشاروں اور کنایوں میں بتا رہا ہوں، وہ پی سی بی میں اعلی عہدے پر فائز رہا اور ان دنوں بھی بیرون ملک کرکٹ کی اہم ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ بال ٹیمپرنگ کی پٹاری سے اس راز کا سامنے آنا تھا کہ پھر یہ فن رکا نہیں بلکہ ایک ٹیم سے دوسری ٹیموں تک منتقل ہوتا رہا، اب یہ عالم ہے کہ جنوبی افریقی بولر ایک ہی میچ میں گیند سے چھیڑ خانی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرتے ہیں۔یہ ہمارے سابق اوپنر کی مہربانی کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیائے کرکٹ میں گرین شرٹس پر بال ٹیمپرنگ کے الزامات لگنے کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ شروع ہوگیا کیونکہ عالمی سطح پر اس حوالے سے الزامات کی زد میں آنے والی پہلی ٹیم پاکستان ہی تھی جسے 1992میں پہلی بار اس الزام کا سامنا کرنا پڑا تاہم وقار یونس کو2000 میں سری لنکا کیخلاف ون ڈے میچ میں بال کو خراب کرنے کی پاداش میں ایک میچ کے لیے معطل کیا گیا، یوں بورے والا ایکسپریس اس جرم میں معطل ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

دوسرے کرکٹر شعیب اختر تھے جنھیں نومبر2002 میں زمبابوے کے خلاف ہرارے ٹیسٹ میں بال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے پر2 میچوں کے لیے ٹیم سے باہر کر دیا گیا تھا، 2006کے اوول ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم بھی اس الزام کی زد میں رہی جبکہ 2010 میں شاہد آفریدی آسٹریلیا کے خلاف ٹوئنٹی20 میچ کے دوران گیند کو چباتے ہوئے پکڑے گئے اور ان پر 2 میچوں کی پابندی لگی، میری نظر میں نیوزی لینڈ کے سر رچرڈ ہیڈلی اور ویسٹ انڈین میلکم مارشل عظیم بولر تھے جنھوں نے کوئی دو نمبری کیے بغیر اپنی خالص پرفارمنس کے بل بوتے پر دنیائے کرکٹ میں نام کمایا، میں تو بھارتی سابق کپتان کپیل دیوکو بھی خراج تحسین پیش کروں گا جو ریورس سوئنگ کے بارے میں جانتا تک نہ تھا پھر بھی اس نے اپنے دور میں بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ پاکستانی کرکٹرز کے علاوہ انگلش کپتان مائیکل ایتھرٹن 1994 کے لارڈز ٹیسٹ،2001 میں ٹنڈولکر جنوبی افریقہ کے خلاف پورٹ ایلزبتھ، 2010 میں انگلینڈ کے اینڈرسن اور براڈ اور 2012 میں آسٹریلیا کے کرس براڈ اور پیٹر سڈل سری لنکا کے خلاف میچ میں بال کو خراب کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ کرکٹ کو شرفا کا کھیل کہا جاتا ہے، یہ گیم آف جینٹلمین ہی تھا لیکن بڑھتے ہوئے منفی رجحانات نے اس کے نام پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔