قومی ٹیسٹ ٹیم کی آسٹریلیا میں مایوس کن کارکردگی

عباس رضا  اتوار 1 دسمبر 2019
کمزور بنیادوں پر کھڑی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ فوٹو: فائل

کمزور بنیادوں پر کھڑی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ فوٹو: فائل

آزمودہ اظہر علی کی قیادت میں پاکستان کی نوآموز ٹیسٹ ٹیم نے آسٹریلیا میں سیریز کی تیاریاں شروع کیں تو کوئی بھی تہلکہ خیز کارکردگی کی امید نہیں کررہا تھا لیکن یہ توقع بھی نہیں تھی کہ گرین کیپس لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیں گے۔

برسبین میں بیٹسمین اور بولرز بے بس نظر آئے،اس میچ میں اننگز کا آغاز ایک عرصہ سے آؤٹ آف فارم اظہر علی نے کیا، انہوں نے گرتے پڑتے 39کی اننگز کھیلی لیکن ٹیم کی پوزیشن مستحکم ہونے سے قبل ہی ہمت ہارگئے، سری لنکا کے بعد آسٹریلیا کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی مسلسل ناکام رہنے والے مڈل آرڈر بیٹسمین حارث سہیل کو تیسرے نمبر پر بیٹنگ کا موقع دیا گیا۔

نئی پچ پر انتہائی محتاط آغاز کے بعد اوپنرز رخصت ہوئے تو حارث سہیل کی ثابت قدمی مہمان ٹیم کو بہتر پوزیشن میں لاسکتی تھی لیکن انہوں نے روایتی کمزوری دکھاتے ہوئے وکٹوں کے پیچھے کیچ دیا، بابر اعظم نے غیرذمہ سٹروک پر وکٹ گنوادی، افتخار احمد کو لوئر آرڈر میں بیٹنگ کو استحکام دینے اور پانچویں بولر کی آپشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے منتخب کیا گیا، انہوںنے بھی مایوس کیا۔

مڈل آرڈر کے غیر ذمہ دارانہ کھیل کے بعد محمد رضوان اور یاسر شاہ نے غیرمتوقع مزاحمت کرتے ہوئے اسدشفیق کیساتھ قیمتی شراکتیں قائم کیں ورنہ پاکستان ٹیم 150سے بھی کم سکور پر ڈھیر ہوجاتی، آسٹریلیا کی بیٹنگ کے دوران محمد عباس کی جگہ لینے والے عمران خان سینئر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔

شاہین شاہ آفریدی اور سرپرائز پیکیج نسیم شاہ بھی کوئی تہلکہ خیز کارکردگی نہیں دکھاسکے، جس پچ پر پاکستان کی پوری ٹیم نے 240رنز بنائے تھے، اس پر میزبان اوپنرز ڈیوڈ وارنر اور جوئے برنز کی جانب سے 222کی شراکت نے ثابت کردیا کہ پاکستان کی بولنگ میں وہ دم خم ہی نہیں کہ کینگروز کو مشکل مین ڈال سکے، ڈیوڈ وارنر ففٹی کے بعد نسیم شاہ کی گیند پر کیچ دینے کے باوجود نوبال کی وجہ سے وکٹ بچانے میں کامیاب ہوگئے، تجربہ کار یاسر شاہ کی 205 رنز کے عوض 4وکٹیں پاکستانی بولرز کی بے بسی کا ثبوت تھیں۔

آسٹریلیا کی جانب سے کھڑا کیا جانے والا 580رنز کا پہاڑ پاکستانی بیٹنگ لائن کے حوصلے پست کرنے کے لیے کافی تھا، اظہر علی دوسری اننگز میں ڈبل فیگر تک بھی رسائی نہیں حاصل کر پائے، حارث سہیل نے ایک اور ناکامی سے کیریئر پر سوالیہ نشان لگایا، مشکل وقت میں اسد شفیق بھی پہلی اننگز کی کارکردگی نہیں دہراسکے، بابر اعظم نے اپنی غلطی سے سب سیکھا اور دوسری باری میں سنچری بنانے میں کامیاب ہوگئے، محمد رضوان نے بھی اچھی اننگز کھیلی، افتخار احمد ایک بار پھر ناکام ہوئے۔

پاکستانی بولرز نے آسٹریلیا کو اتنے رنز بنانے کا موقع دیا کہ بیٹسمینوں کے لیے میچ میں واپسی کا موقع نہ ہونے کے برابر رہا گیا، اسد شفیق کی پہلی، بابر اعظم اور محمد رضوان کی دوسری اننگز میں اننگز میں شکست کے سوا برسبین ٹیسٹ میں پاکستان کے لیے کوئی مثبت پہلو نہیں تھا۔

ایڈیلیڈ میں دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے بولنگ کوچ وقار یونس اور کپتان اظہر علی نے کہا کہ کھلاڑی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہوگئے،بولرز کو بھی اپنی غلطیوں کا اندازہ ہوگیا،بیٹسمینوں کو بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کی اننگز نے نیا حوصلہ دیدیا ہے،پنک بال سے اچھی کارکردگی دکھائیں گے لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس نظر آئی۔

سرپرائز پیکج نسیم شاہ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کوئی تہلکہ نہیں مچاسکے، تاہم ان کی سپیڈ نے سب کو متاثر کیا،ان کو دوسرے ٹیسٹ سے ڈراپ کرنے سے قبل ہی یہ وضاحت پیش کی جانے لگی تھی کہ نوجوان پیسر کا ’’ورک لوڈ‘‘ کم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی فٹنس کے مسائل پیدا ہوگئے تھے، کمر کی تکلیف محسوس کرنے کے اگلے روز انہوں نے صرف 4 اوورز کروائے۔

کسی بھی بولر کو انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ قبول کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار کرنے کے بجائے میدان میں اتارنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ اس کا مستقبل ہی داؤ پر لگ جاتا ہے،ماضی میں اس کی کئی مثالیں نظر آتی رہی ہیں،نسیم شاہ کی جگہ ایک اور کم عمر محمد موسیٰ کو ڈیبیو کا موقع دیا گیا تو ڈیوڈ وارنر اور لبوشین جیسے ان فارم بیٹسمینوں نے ان کی ناتجربہ کاری کا امتحان لیا،انجری سے نجات پاکر آنے والے محمد عباس سیم بولنگ کے لیے مشہور ہیں،ایڈیلیڈ میں سوئنگ سے ہی تھوڑی مدد مل سکتی تھی۔

تجربہ کار پیسر کی پاس اس کی مہارت نہیں، ان کی رفتار میں بھی واضح کمی آچکی ہے، یواے ای کی پچز پر گزشتہ سیریز میں کینگروز کو تگنی کا ناچ نچانے والے محمد عباس نے چند اوورز میں کفایتی بولنگ ضرور کی لیکن کسی موقع پر بھی میزبان بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے نظر نہیں آئے۔

شاہین شاہ آفریدی نے سوئنگ کا ہتھیار اور اپنی رفتار استعمال کرتے ہوئے قدرے بہتر بولنگ کی جس کا صلہ انہیں 3 وکٹوں کی صورت میں ملا،نوجوان پیسر سب سے کفایتی بولر بھی رہے اور 2.93فی اوور کی اوسط سے رنز دیئے،ایشیائی ٹیموں کے لیے موزوں ترین ایڈیلیڈ کے وینیو پر یاسر شاہ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن انہوں نے 6.15رنز فی اوور دیئے،محمد موسٰی کو 5.70کی اوسط سے پٹائی برداشت کرنا پڑی۔

ڈیوڈ وارنر کی وکٹ حاصل کرنے کا ایک موقع نوبال کی وجہ سے گنوایا،یاسر شاہ اپنی تجربہ کاری کے باوجود شارٹ گیندیں کرتے ہوئے مار کھاتے رہے،کیریئر کے اس مرحلے پر انہیں کسی بولنگ کوچ کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے لیکن افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، پاکستانی بولرز کی اس ناقص ترین کارکردگی کی وجہ سے آسٹریلیا نے صرف 3وکٹوں کے نقصان پر 589رنز بناکر اننگز ڈکلیئر کردی، لبوشین تو 162کی اننگز کھیل کر رخصت ہوئے۔

ٹرپل سنچری میکر ڈیوڈ وارنر اگر بیٹنگ جاری رکھتے تو برائن لارا کا 400رنز کا ریکارڈ اپنے نام کرسکتے تھے لیکن میزبانوں نے مہمان بولرز کی جان چھوڑ کر بیٹسمینوں کا امتحان شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی اننگز کا آغاز ہوتے ہی کنڈیشنز بیٹنگ کے لیے ناسازگار نظر آنے لگیں،برسبین ٹیسٹ باہر بیٹھ کر دیکھنے والے امام الحق کو موقع ملا بھی تو فائدہ نہیں اٹھاسکے،اظہر علی نے وہی کیا جو ایک عرصہ سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

شان مسعود بھی مشکل وقت میں ہمت ہار کر چلتے بنے، صرف 38رنز پر 3وکٹیں گنوانے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے کسی بڑی شراکت کی ضرورت تھی لیکن اسد شفیق سینئر بیٹسمین ہونے کا حق ادا نہیں کرسکے،افتخار احمد کی ناکامیوں کا سلسلہ بھی دراز ہوگیا،برسبین میں فارم کی جھلک دکھلانے والے محمد رضوان بھی آسان شکار ثابت ہوئے، بابر اعظم اکیلے کتنی دیر تک جنگ لڑیں گے، ٹیم کی سنچری مکمل ہونے سے قبل ہی 6 وکٹیں گرنے بعد پاکستان کی میچ میں واپسی کے راستے بند ہوچکے، اگلے دو روز موسم خراب رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے،بیٹنگ کی جو صورتحال نظر آرہی ہے،خدشہ یہ ہے کہ جتنے اوورز کا کھیل بھی ممکن ہوا، پاکستان کی بساط لپیٹنے کے لیے کافی ثابت ہوگا۔

ٹیسٹ سیریز میں اب تک کی کارکردگی سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان ٹیم ذہنی، جسمانی اور تکنیکی طور پر کینگروز کی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، مہمان بولرز کے سامنے ڈیوڈ وارنر نے ناقابل شکست ٹرپل سنچری جڑ دی تو دوسری جانب جواب میں پاکستان کے ٹاپ 6بیٹسمین مل کر بھی 100کا سنگ میل عبور نہیں کرسکے،مردہ وکٹوں پر رنز کے انبار لگانے والے سٹار اور پی ایس ایل کے 4اوورز میں دھوم مچانے والے بولرز کی مدد سے آسٹریلوی ٹیم کو حیران یا پریشان کیا جاسکتا تھا، نہ ایسا ہوسکا۔

ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق تشکیل نو کا نعرہ لگا کر آسٹریلیا گئے تھے،واپسی پر بھی اسی طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی، سرفراز احمد کو اس لئے ہٹایا گیا تھا کہ بطور بیٹسمین قیادت کا حق ادا نہیں کرپارہے لیکن صرف ایک فارمیٹ کھیلنے والے مسلسل ناکام اظہر علی کو کپتان کیوں بنایا گیا؟ آگے بڑھنے کی باتیں کرنے والے مصباح الحق نے پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا؟ اس صورتحال میں مستقبل میں بہتری کی امیدیں بھی حسرت میں بدلنے لگی ہیں، بھرپور قوت کیساتھ میدان میں اترنے والی سری لنکن ٹیم کیخلاف ہوم سیریز جیتنا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔