- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
3 ماہ کے دوران 571 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی کی نذر
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور ملکی دفاع کی مد میں رواں مالی سال کی ابتدائی سہ ماہی میں 814 ارب روپے خرچ کیے۔ یہ رقم ریونیو میں دہرے ہندسوں میں ہونے والے اضافے کے باوجود حکومت کی آمدنی سے بھی زائد ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے گذشتہ روز ( ہفتے کو) جاری کی گئی وفاقی مالیاتی آپریشنز کی سمری کے مطابق جولائی تا ستمبر قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد وفاقی حکومت کی آمدنی منفی 67 ارب روپے رہی۔
سمری سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ترقی پر اخراجات میں بھاری کٹوتی کے باوجود بنبیادی طور پر قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی ضروریات کی وجہ سے وفاق کے اخراجات دہرے ہندسوں میں رہے۔قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی مد پہلی سہ ماہی میں 814.2 روپے کے اخراجات اس مدت کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جمع کردہ ٹیکسوں کے حجم کا 84.4 فیصد کے مساوی تھے۔ پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کا حاصل کردہ ریونیو 964.4 ارب روپے تھا۔
جولائی تا ستمبر حکومت نے اندرونی و بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 571.6 ارب روپے خرچ کیے۔ یہ رقم گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 64.6 ارب روپے ( 12.8 ) فیصد زیادہ ہے۔ اسی مدت میں دفاعی اخراجات 242.6 ارب روپے رہے جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کی نسبت 10.7 فیصد زائد ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی مد میں آمدنی سے زیادہ اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ابھی تک معاشی جھٹکوں سے سنبھل نہیں سکی۔
اگرچہ پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا محض 0.7 فیصد ( 286 ارب روپے ) رہا۔ پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارے میں مجموعی طور پر 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کی وجہ چاروں صوبوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ تھا۔ اس عرصے میں حکومت کی ٹیکس و نان ٹیکس آمدنی اور دیگر ٹیکس بڑھ کر دہرے ہندسوں میں داخل ہوگئے مگر قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی وجہ سے انسانی ترقی پر خرچ کرنے کے لیے بجٹ کا حجم غیراہم حد تک محدود ہوگیا۔
ہوتا ہے کہ انسانی ترقی پر اخراجات میں بھاری کٹوتی کے باوجود بنبیادی طور پر قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی ضروریات کی وجہ سے وفاق کے اخراجات دہرے ہندسوں میں رہے۔قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی مد پہلی سہ ماہی میں 814.2 روپے کے اخراجات اس مدت کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جمع کردہ ٹیکسوں کے حجم کا 84.4 فیصد کے مساوی تھے۔
پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کا حاصل کردہ ریونیو 964.4 ارب روپے تھا۔ جولائی تا ستمبر حکومت نے اندرونی و بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 571.6 ارب روپے خرچ کیے۔ یہ رقم گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 64.6 ارب روپے ( 12.8 ) فیصد زیادہ ہے۔ اسی مدت میں دفاعی اخراجات 242.6 ارب روپے رہے جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کی نسبت 10.7 فیصد زائد ہے۔
قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی مد میں آمدنی سے زیادہ اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ابھی تک معاشی جھٹکوں سے سنبھل نہیں سکی۔ اگرچہ پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا محض 0.7 فیصد ( 286 ارب روپے ) رہا۔
پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارے میں مجموعی طور پر 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کی وجہ چاروں صوبوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ تھا۔ اس عرصے میں حکومت کی ٹیکس و نان ٹیکس آمدنی اور دیگر ٹیکس بڑھ کر دہرے ہندسوں میں داخل ہوگئے مگر قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی وجہ سے انسانی ترقی پر خرچ کرنے کے لیے بجٹ کا حجم غیراہم حد تک محدود ہوگیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔