امریکا کو پکڑنا مشکل نہیں ناممکن ہے

وسعت اللہ خان  پير 28 اکتوبر 2013

مشکل یہ ہے کہ پنجابی میں جسے ’’ بیستی ‘‘ کہتے ہیں وہ صرف کمزور کی ہوتی ہے۔طاقتور کی ’’ بیستی‘‘ کو تنقید کہہ کر اس کی شدت کم کردی جاتی ہے۔ورنہ تو شائد ہی کوئی دن جاتا ہو کہ جب امریکا پر دنیا کے کسی نہ کسی کونے سے ’’ تنقید ’’ نہ ہوتی ہو۔ایسی تنقید یا بیستی کرنے والوں کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ بس یہ جملہ کہہ کے سیٹی بجاتی آگے بڑھ جاتی ہے کہ یہ وہ حاسد ہیں جو امریکا کے گلوبل اثرو رسوخ سے جلتے ہیں۔اس جملے کا ٹرک ڈرائیوری زبان میں یہ اردو ترجمہ بنے گا کہ محنت کر حسد نہ کر ، جلنے والے کا منہ کالا ، پاس کر یا برداشت کر وغیرہ وغیرہ۔

جیسے فلسطین اسرائیل تنازعہ ، جیسے گوانتانامو ، جیسے عالمی ماحولیات ، جیسے ڈرون حملے ، جیسے عراق و افغانستان، جیسے نیو اکنامک ورلڈ آرڈر ، جیسے…کچھ بھی…اس میں کاہے کی بیستی۔

آپ بخوشی امریکا یا اس کے رویے پر تنقید کرسکتے ہیں یا جل بھن سکتے ہیں لیکن دشمنوں یا دوستوں کی بیستی کرنے کا حق صرف امریکی اسٹیبلشمنٹ کو حاصل ہے۔اس بارے میں پاکستان کی بابت امریکی اسٹیبلشمنٹ کے تاریخی اور موجودہ رویے کا حوالہ بار بار دینا اچھا نہیں لگتا۔اب تو اس حوالے سے قارئین بھی شدید بور ہوجاتے ہیں۔لہذا بات کرتے ہیں دیگر مثالوں کی۔

جیسے اسی کی دھائی میں جب ایک اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ امریکا کے صنعتی راز چراتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا تو ریگن انتظامیہ کئی دن تک ہمارے محلے کی تائی حمیداں کی طرح ہاتھ پھیلا پھیلا کر اسرائیل کو کوسنے دیتی رہی۔ ’’ شرم نہیں آتی ان کو۔جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔۔جو انھیں دودھ پلائے اسی کو ڈستے ہیں۔جہاں موقع ملتا ہے محسن کشی سے باز نہیں آتے۔کتنا پال پوس کے بڑا کیا اور اپنے ہی گھر میں چوری کرلی۔آنکھوں کی شرم مرگئی ہے۔دیدے میں پانی تک نہیں رہا۔تم ہمارے صنعتی راز جاننے کے لیے اتنے ہی مرے جارہے تھے تو ہم سے ویسے ہی مانگ لیتے۔ کیا پہلے کچھ دینے سے انکار کیا ہے۔مگر تمہیں تو حرام کھانے کی عادت پڑ چکی ہے۔بے غیرتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ حرامزادے کہیں کے۔ہن اے پھڑ ڈوڑھ سو ایف سولہ تے دفع ہوجا میریاں نظراں تو…‘‘۔

جیسے چین کو امریکی اسٹیبشملنٹ چوبیس گھنٹے اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتی رہتی ہے کہ تم تو ہو ہی نقالوں کی قوم۔اپنا تمہارا اوریجنل کیا ہے۔ساری دو نمبر چیزیں تمہارے ہاں بنتی ہیں اور وہ بھی ہمارے صنعتی و اقتصادی رازوں اور ڈیزائنوں کی جاسوسی کرکے۔اور پھر وہی چیزیں تم ہم سمیت پوری دنیا کو دھڑلے سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیچ رہے ہو۔کاپی رائٹس کے قوانین کی تم نے ایسی تیسی کررکھی ہے۔ دنیا جہان کا سافٹ وئیر ، ڈی وی ڈیز ، حتی کہ میزائلوں کا ڈیزائن تک تم نے چرانے کے لیے ہمارے ہاں بندے چھوڑ رکھے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی سینہ ٹھونک کے کرتے ہو کہ ہم دو ہزار پچاس تک امریکا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی عظیم طاقت بن جائیں گے۔اول تو ایسا میں ہونے نہیں دوں گا بچو۔اور خدانخواستہ میرے منہ میں خاک اگر ایسا ہو بھی گیا تب بھی تم ایک نقال دو نمبر سپر پاور ہی کہلاؤ گے۔بغیر کاپی رائٹس کی سپر پاور ہا ہا ہا ہا…پھر بھی ہمارا جگرا دیکھو کہ ہم اپنی منڈی میں سالانہ تمہیں سو بلین ڈالر سے زیادہ کا مال بیچنے دے رہے ہیں۔تمہارے ٹریلین ڈالرز کے امریکی ریزرو بانڈز خریدنے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ہم سپر پاور ہیں تو ہمارا دل بھی بڑا ہے۔مگر ایسی لطیف باتیں تم جیسے چنی آنکھوں والے اسپاٹ چہروں والوں کو سمجھ میں نہیں آسکتیں۔

روس تو رہا ایک طرف۔ امریکا تو یورپ کی نقد بیستی سے بھی نہیں چوکتا۔ آ بھئی نواب صاحب…رسی جل گئی بل نہ گیا۔دوسری عالمی جنگ میں ہم اگر نہ کودتے تو ہٹلر نے تو تمہیں کھا پی کے ڈکار بھی نہیں لینی تھی۔تمہیں ادھار پر اسلحہ دیا ، فوجی دیے اور جنگ کے بعد مارشل پلان کے ذریعے خزانوں کے منہ کھول دیے۔سوویت ریچھ کے پنجوں سے بچانے کے لیے ناٹو کے ذریعے تمہارے سروں پر جوہری و عسکری چھتری تان دی ورنہ تمہارے پاس بچا کیا تھا۔ہم اور ہمارا پیسہ اور ہماری فوجی طاقت نہ ہوتی تو تمہاری اوقات کیا رہ گئی تھی۔زیادہ سے زیادہ ٹھنڈے علاقے کے انگولا، موزمبیق یا نائجیریا کہلاتے اور بہت ہی تیر چلاتے تو برازیل کے برابر ترقی کرلیتے۔لیکن وہ تمہاری اکڑ۔آج ہمیں ہی خاطر میں نہیں لاتے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ نواب تے نواب ہی ہوندے نیں…

اور تو اور جن ہمسائیوں کی دیواریں امریکا سے ملی ہیں، ان تک کو مستقل امریکا کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔جیسے بے چارا میکسیکو،ایک تو ہمسایہ اوپر سے غریب،لاکھوں میکسیکن تلاشِ روزگار میں اپنے امیر ہمسائے کے ہاں کام کررہے ہیں اور امریکی صنعتی و زرعی انجن کو سستی لیبر کا ایندھن دے رہے ہیں۔لیکن امریکا اسے بھی چیرٹی سمجھتا ہے اور گاہے بگاہے اپنے ہمسائے کو جتاتا رہتا ہے کہ کبھی خود بھی کچھ کر لو کب تک ہمارے ہی ٹکڑوں پر پلتے رہو گے۔شکر ہے دوسرے ہمسائے کینیڈا سے اتنی شکایات نہیں ہیں۔کیونکہ کینیڈا سے تعلقات ہر طرح سے منافع بخش ہیں۔امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں کینیڈا کے اندر خوش ہیں اور کینیڈا کے پاس اپنے دانے بھی بہتیرے ہیں۔ورنہ اسے بھی امریکا کی نظر میں میکسیکو بنتے دیر نہیں لگنی تھی۔

لیکن خود امریکا بذاتِ خود اور بزعمِ خود ہر طرح کی تنقید اور بیستی سے بالاتر اور بقول اوباما امریکی طرزِ زندگی ناقابلِ تسخیر ہے۔

اگر آپ اسے کہیں کہ تم کیسی جعلی سپر پاور ہو ویتنام سے دم دبا کر بھاگ نکلے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تو اسٹرٹیجک ریٹریریٹ ( حکمت ِ عملی کے تحت پسپائی ) تھی۔آپ جاہل ہیں آپ یہ بات نہیں سمجھیں گے۔

اگر آپ امریکا کی یہ کہہ کے بیستی کرنے کی کوشش کریں کہ ایک کاسترو تو تم سے پچھلے ساٹھ سال میں سنبھالا نہیں گیا اور باتیں کرتے ہو تم چاند اور مریخ کی۔تو اس کا بھی بڑا خوبصورت جواب ہے کہ امریکا جیسی سپر پاور کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کیوبا جیسے مچھروں پر توجہ دے۔شروع میں ہم نے اسے سیریسلی لیا تھا پھر سمجھ گئے کہ بابا جی کو اپنے حال میں مست رہنے دو۔البتہ بطور ضمانت ہم نے کیوبا کا ایک حصہ گوانتانامو اپنے پاس ضرور رکھا تاکہ اگر بابا جی پگلائیں تو انھیں فوراً ٹھیک کیا جاسکے۔آج کل گوانتانامو میں یہی کام ہورہا ہے مگر یہ دوسری طرح کے پاگل ٹھیک کیے جارہے ہیں۔

اور اسرائیل کے معاملے پر اگر آپ پھبتی کسیں تو امریکا کے پاس ترنت جواب ہے کہ اس کا وجود مشرقِ وسطیٰ میں مغربی تہذیب کی آخری چوکی کے طور پر عسکری علاقائی توازن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ورنہ عرب اگر اسرائیل کے خلاف نہیں ہوں گے تو ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے۔بلکہ وہ تو اسرائیل کی موجودگی میں بھی اس کام سے باز نہیں آرہے لہذا اسرائیل کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر آپ کہیں کہ افغانستان اور عراق میں اتنے آدمی مرگئے تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ وہ تو کولیٹرل ڈیمیج ( مجموعی نقصان ) ہے جانی نقصان تھوڑی ہے۔جنگوں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

اگر آپ کہیں کہ اب تو کئی عالمی تنظیمیں اور ممالک ڈرون حملوں کو جنگی جرائم سمجھتے ہیں اور اقوامِ متحدہ کو بھی اس کی قانونی حیثیت پر تحفظات ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے پیشگی کارروائی حلال اور جائز ہے، جسٹ شٹ اپ…آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ؟؟؟

جب وکی لیکس سامنے آئیں اور اس کے بعد ایڈورڈ سنوڈن نے دنیا بھر کی مواصلات ریکارڈ کرنے اور سننے کا امریکی بھانڈا پھوڑا تو ایسا محسوس ہوا کہ امریکا کو پہلی بار عالمی سطح پر اپنی ’’ بیستی ’’ شائد شدت سے محسوس ہو۔لیکن امریکا تو پھر امریکا ہے۔ پہلے تو اس نے وکی لیکس سامنے لانے والے جولین اسانچیز اور پھر ایڈورڈ سنوڈن کو اشتہاری مجرم قرار دیا۔حالانکہ اتحادی اور دوست ممالک چیخ رہے ہیں کہ ان کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے ٹیلی فون برسوں سے ٹیپ کرنا صریحاً امریکی بددیانتی ہے۔القاعدہ ، طالبان ، تیسری دنیا کی حکومتوں ، روس اور چین کے رہنماؤں کی فون ٹیپنگ اور ذاتی جاسوسی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن انتہائی قریبی اتحادی یورو گوئے اور برازیل کے صدور حتیٰ کہ جرمن چانسلر اینگلا مرکل کا موبائل فون بھی امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی والے تب سے آخر کیوں سن رہے ہیں جب وہ چانسلر بھی نہیں بنی تھیں۔

اس اسکینڈل پر مجال ہے جو امریکی ماتھے پر ایک قطرہِ انفعال تک آیا ہو۔یوروگوئے کے صدر صرف غصہ پی کے رہ گئے۔برازیل کی صدر نے اپنا دورہِ امریکا منسوخ کردیا۔امریکا نے اس دورے کی منسوخی پر تو افسوس کا اظہار کیا لیکن فون ٹیپنگ کے معاملے کو سرے سے ہی گول کرگیا۔اینگلا مرکل نے اس معاملے کی باضابطہ وضاحت مانگی ہے۔ مگر امریکا کی وضاحت ہمارے علاقے کے تھانے کے ایس ایچ او کی وضاحت سے ملتی جلتی ہے۔’’ وسعت صاحب یقین کرو اللہ نوں جان دینی اے۔اے چھاپہ میں نئیں ماریا۔اے اس کمینے حوالدار شفیق دا کم اے۔مینوں تے چھاپہ مارن دے بعد وی ایس گھٹیا انسان نے کج نہئیں دسیا۔مگر تسی فکر نا کرو میں اینہوں معطل کرا کے چھڈاں گا ‘‘

امریکی اہلکاروں کا کہنا کہ صدر اوباما جرمن چانسلر کے فون ٹیپ کرنے کے اسکینڈل سے لا علم تھے۔لہٰذا یورپی یونین ، جرمن چانسلر اور دیگر عالمی رہنماؤں کا ردِعمل تنقید کے زمرے میں تو آتا ہے۔ بیستی کے زمرے میں نہیں۔

مگر ہماری بے بسی دیکھیں کہ ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بیستی تو عزت داروں کی ہوتی ہے۔آخر ہمیں بھی کچھ دن اور اسی دنیا میں رہنا ہے۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔