’پرانے ٹھگ‘

ایاز خان  پير 28 اکتوبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

برصغیر میں ٹھگی کا رواج بہت عرصہ رہا، کہتے ہیں کہ انیسویں صدی کے وسط تک سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر ان ٹھگوں کا راج تھا جو راہ گیروں کے گلے میں پھندا ڈال کر انھیں موت کے گھاٹ اتارتے اور پھر ان کا مال اسباب لوٹتے۔ مغلوں کے زمانے میں انھیں پھانسی گر کہا جاتا۔ وہ چکنی چپڑی باتوں سے مسافروں سے راہ و رسم بڑھاتے اور پھر موقع ملتے ہی انھیں موت کی نیند سلا دیتے۔ ہمارے ایک دوست کو نا صرف خود پڑھنے کی لت ہے بلکہ وہ میرے جیسے کم پڑھے لکھوں کو بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی ہی واردات اس نے میرے ساتھ کی اور معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب ’’پرانے ٹھگ‘‘ میرے حوالے کر دی جس کو سنگ میل پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے ۔میں نے وہ کتاب پڑھی تو حیران رہ گیا کہ اس دور کے اتنے بڑے مسئلے پر قابو پانے کے لیے صرف ایک انگریز افسر نے کمال مہارت کا مظاہرہ کیا۔ آج اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے لیکن اس پر قابو پانے کے محض دعوے ہی ہو رہے ہیں۔ شدت پسندوں پر قابو پانے کے لیے دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ان کی دھمکیوں سے ہمارے سیاسی اور دینی قائدین کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب ذرا اس کتاب میں درج ٹھگوں کی وارداتیں اور ان پر قابو پانے کے بارے میں کیے گئے اقدامات ملاحظہ فرمائیں اور پھر خود یہ فیصلہ کریں کہ کیا کوئی ریاست اتنی بے بس ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے لیے خطرہ بننے والوں پر قابو نہ پا سکے۔

رضا علی عابدی کے مطابق گلہ گھونٹنے پر زور اس لیے تھا کہ خون خرابہ میں پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا۔ خنجراور تلوار لے کر چلنا بھی مشکل تھا جب کہ کندھے پر پڑے یا کمربند میں گھڑ سے رومال کو آلہ قتل سمجھنا مشکل تھا۔ اس طریقہ قتل میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہتا۔ ٹھگ بڑے سفاک ہوتے۔ کچھ معاملات میں وہ احتیاط برتتے مثلاً ان کے عقیدے میں کسی عورت کو ہلاک کرنا جائز نہ تھا۔ ٹھگوں اور دوسرے مجرموں میں فرق یہ تھا کہ وہ منظم گروہ کی صورت کام کرتے، جس کے پیچھے ایک نظریہ کام کر رہا ہوتا، اور وہ اپنے کیے کی ذمے داری خود قبول نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا عقیدہ تھا کہ دیوی بھوانی ان کے ذریعے سے راہگیروںکو زندگی سے محروم کراتی ہے۔ ٹھگوں کی ایک خاص بولی تھی، جس کو صرف وہی سمجھتے تھے۔ اثر و رسوخ والے لوگوں کو لوٹ کے مال میں حصہ دیتے تاکہ وہ بدلے میں انھیں تحفظ فراہم کریں۔ ٹھگوں کے بارے میں اہم بات جو اس کتاب سے پتا چلتی ہے وہ ان کا مذہب پر گہرا اعتقاد ہے۔ برصغیر کا سب سے مشہور ٹھگ امیر علی پانچ وقت کا نمازی بھی تھا لیکن راہ گیروں کو گلے میں پھندا ڈال کر انھیں مارتا بھی تھا۔ 719 افراد کو زندگی سے محروم کرنے کا اقرار تو اس نے خودکیا۔

انگریزوں نے استعمار کے طور پراس خطے میں لوٹ کھسوٹ تو بہت کی جیسا کہ ہر استعمار کرتا ہے لیکن کچھ ایسے مثبت کام بھی ضرور کیے جن کے گہرے اثرات ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ برائیاں بھی تھیں جن کو ختم کرنے میں مقامی لوگ تو ناکام رہے لیکن انگریز حکومت کامیاب، اس سلسلے میں ٹھگی کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جس نے یہاں کے راہ گیروں کو خوف زدہ کر رکھا تھا۔ برصغیرسے ٹھگی کو اکھاڑ پھینکے کا کریڈٹ انگریزوں کو جاتا ہے۔ گورنر جنرل لارڈ بین ٹنک نے اس برائی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ 1830ء میں ٹھگی کے انسداد کے لیے باقاعدہ طور پر منظم انداز میں مہم چلی تو ولیم سلی مین انچارج مقرر ہوا‘ آیندہ برسوں میں ولیم سلی مین نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں، جس سے ٹھگوں کی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ ان کی قوت پرکاری ضرب لگی اور سلی مین لوگوں کا ہیرو بن گیا۔ جبل پورکے شمال مشرق میں سلی مین نام کا گاؤں اب بھی موجود ہے۔ 1855ء میں وہ مختلف اہم عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد اپنے وطن روانہ ہوا تو برصغیر قریب قریب ٹھگی سے نجات پا چکا تھا۔ سلی مین دفتر میں بیٹھ کا ماتحتوں کو احکامات جاری کرنے کے بجائے، میدان عمل میں خود اترا ۔ وہ عام لوگوں میں گھل مل جاتا تاکہ مقامی رسوم و رواج سے آگاہی حاصل کر سکے۔ وہ سرکاری کاغذات کو پڑھنے میں بڑی مغز ماری کرتا۔ اٹھارہ سو تیس میں پہلی بار اس نے ٹھگوں کو پکڑا اور انھیں سزائیں ملنا شروع ہوئیں۔ پرانے اور گھاگ ٹھگوں کو اس نے وعدہ معاف گواہ بنایا اور ان سے ٹھگوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں۔ ان کی زبان کو جاننے کی کوشش کی۔ وعدہ معاف گواہوں کی بڑی دیکھ بھال ہوتی اور ان کے بچوں کو الاؤنس بھی ملتا۔ اس نے ٹھگوں کا باقاعدہ اندراج کیا۔ ان کے اجداد کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ ان کی مخصوص زبان رماسی کی لغت بنائی۔ مذہبی عقیدوں کے بارے میں جانا۔ بھرتی کے طریقہ کار کے بارے میں تحقیق کی۔ ٹھگوں کے بارے میں اس کی معلومات سے خود ٹھگ بھی حیران رہ جاتے۔ اس نے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے ٹھگوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی اور ایسے قوانین بنائے کہ وہ ساری عمر جیل میں رہیں۔ ٹھگ جیلوں میں گئے۔ کالے پانی گئے۔ پھانسی گھاٹ کو اپنے لیے منتظر پایا۔

سزا کے خلاف اپیل ہوتی اور نہ ہی سزا کی معافی۔ جج اور سلی مین کے دوست ایف سی اسمتھ کا خیال تھا کہ کوئی ٹھگ رحم کا مستحق نہیں۔ سلی مین بتدریج اپنی مہم کا دائرہ وسیع کرتا گیا۔1836ء میں تبدیلی قانون کے بعد وہ پورے ہندوستان میں انسداد ٹھگی کا سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا۔ اس کے دور میں سزاکے خلاف اپیل ہوتی اور نہ ہی سزاکی معافی تھی۔ دوسرے مجرموں کے ساتھ رو رعایت پھر بھی ہو جاتی لیکن ٹھگوں سے کسی قسم کی نرمی نہ برتی جاتی۔ عظیم دربار میں جب ملکہ وکٹوریا کو قیصر ہند قرار دیا گیا تو کالے پانی کے سزا یافتگان بہت سے ٹھگوں کو جیل سے رہائی تو مل گئی، لیکن وہ جزیرے کے صدر مقام سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔

’’پرانے ٹھگ‘‘ میں سزاؤں کے بارے میں درج ذیل معلومات بھی ملتی ہیں۔:

’’ جس پر یہ الزام ثابت ہو جائے کہ وہ ٹھگ تھا اور صرف ایک گواہ کہہ دے کہ اس نے ایک واردات میں کسی کا گلا گھونٹا تھا، اسے جلا وطن کر دیا جاتا۔
جس نے لاشوں کو دبانے کے لیے گڑھے کھودے، لاشیں غائب کیں یا اپنے شکار کو باتوں میں پھنسایا اسے تاحیات قید ہوتی۔

جن کا جرم کم نوعیت کا تھا، مثلاً پہرے پر کھڑے ہوئے، انھیں چودہ سال قید ہوتی۔
جو لوگ جرم کے وقت موجود ہوتے البتہ خود شریک نہ ہوتے وہ سات سال قید پاتے۔

جو لڑکے کم عمر تھے وہ اچھے چال چلن کی ضمانت دے کر چھوٹ جاتے تھے۔
مختصر بات یہ ہے قریب قریب ہر ٹھگ مجرم قرار پایا۔ شاید ہی کوئی تھا جسے معمولی سزا ہوئی ہو۔ ایک بات اور۔ کبھی کسی کی اپیل منظور نہیں ہوئی اور فیصلہ تبدیل نہیں کیا گیا۔ سرگرم جج اور سلی مین کے دوست ایف سی اسمتھ کا سیدھا سادہ اصول یہ تھا کہ کوئی ٹھگ رحم کا مستحق نہیں۔

کہیں کہیں یہ بھی ہواکہ جن لوگوں کو سات سال قید یا اس سے زیادہ سزا ہوئی تھی، ان کے ماتھے پر لفظ ٹھگ لکھ دیا جاتا۔ کبھی کبھی اس خیال سے کہ یہ ماتھا ڈھانپ لیں گے، ان کی آنکھوں کے نچلے پپوٹوں پر اردو یا ہندی میں لفظ ٹھگ گودا جاتا۔ اس سزا کے بارے میں کوئی پرانی تحریر نہیں ملتی لیکن ایسے ٹھگوں کی تصویریں ملی ہیں، مقصد یہ تھا کہ اگر یہ لوگ قید خانے سے فرار ہو جائیں تو آسانی سے پکڑے جائیں۔ ایک منصوبہ یہ تھا کہ سزا یافتہ ٹھگوں کو ان کے اپنے گاؤں میں پھانسی دی جائے۔ خیال یہ تھا کہ اس سے دوسر ے پھانسی گر عبرت حاصل کریں گے۔ مگر پھر خیال ہوا کہ اپنے علاقوں سے مجرم کے فرار ہو جانے کا امکان بہت ہے۔ پھر یہ طے ہوا کہ جن شہروں میں سزا سنائی گئی وہیں پھانسی دی جائے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔