مظلوم کشمیریوں کے حق میں زبردست عالمی ردِ عمل

تنویر قیصر شاہد  پير 2 دسمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سویڈن کے بادشاہ کارل گستاف اور ملکہ سلویا ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ یکم دسمبر 2019سے بھارت کے چھ روزہ دَور ے پر ہیں۔اس دَورے سے قبل سویڈن کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں جاری انسانی المیے اور محاصرے پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ بھارتی جریدے ( انڈیا ٹو ڈے) نے بھی سویڈن کے اس بیان کو نمایاں خبر کے طور پر شایع کیا ہے ۔

یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب یورپی یونین اور امریکی کانگریس کے نمایاں ارکان کی طرف سے بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری تازہ بھارتی مظالم و اقدامات کے خلاف سخت مذمتی بیانات آ چکے ہیں ۔ ترکی ، ملائیشیا اور ایران نے بھی کشمیریوں کے حق میں کھل کر آواز بلند کی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غصے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مذکورہ ممالک کی کیبل پر ٹی وی نشریات بند کر دی ہیں ۔

سویڈن کی وزیر خارجہ این کرسٹین نے 27 نومبر 2019 کو اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : ’’کشمیر میں سیکیورٹی لاک ڈاؤن اور کمیونیکیشن بلیک آؤٹ پر ہمیں تشویش ہے۔ سویڈن نہیں چاہتا کہ کشمیر میں صورتحال مزید خراب ہو۔ اس مسئلے کا کوئی دیرپا سیاسی حل تلاش کرنے میں کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے۔‘‘ این کرسٹین بھارت کے دورے پر آنے والے سویڈش شاہی جوڑے کے وفد میں بھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ سویڈن اور بھارت کے درمیان دیگر شعبوں کے علاوہ دفاع بھی باہمی تعاون کا ایک اہم شعبہ ہے۔ سویڈش کمپنی ’’ ایس اے اے بی‘‘ بھارتی فضائیہ کو 114گریپین جنگی طیارے فروخت کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔

اس اہم تجارتی سودے کی حساسیت کے باوصف سویڈش وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی دگرگوں صورتحال پر بیان دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ یہ دراصل کشمیریوں کی پُر امن جدو جہد کا اثر ہے ۔ سویڈش وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا : ’’ کشمیر کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ سویڈن اور یورپی یونین نے بھارت سے کشمیر میں عائد پابندیوں کو بھی اٹھا لینے کی اپیل کی ہے۔‘‘ بھارت میں متعین سویڈن کے سفیر، کلاز مولن، نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے : ’’کشمیر کے حوالے سے ان کے ملک کا یہ ایک اصولی موقف ہے۔ ہم اور یورپی یونین اس امر کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے کشمیریوں کی اپنی اہمیت مسلمہ ہے۔

یورپ کی متعدد تنظیموں نے بھی کشمیر میں سیکیورٹی لاک ڈاؤن اور کمیونیکیشن بلیک آؤٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں جتنی جلد ختم ہو جائیں، اتنا ہی بہتر ہو گا۔‘‘ سویڈش سفیر نے کہا ہے کہ سویڈش وزیر خارجہ کی اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ وفد کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے دوران کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھایا جا ئے گا۔ اس پیش منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کا یہ محض خواب ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے خلاف 5 اگست کے ظالمانہ فیصلے کے بعد کشمیر کو سموچا ہڑپ کر جائے گا۔

مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھارتی عزائم بے نقاب ہو رہے ہیں ۔ اس عزم میں بھارت کے لیے اسرائیل ایک ’’ماڈل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پچھلے ہفتے امریکا سے شایع ہونے والے میگزین Middle East Eye نے ایک رپورٹ شایع کرتے ہُوئے یہ انکشاف کیا کہ امریکا میں متعین موجودہ بھارتی قونصل جنرل، سندیپ چکرورتی، نے کہا ہے کہ بھارت (مقبوضہ) کشمیر میں ہندوؤں کو بسانے کے لیے اسرائیل کے طریقے پر آباد کاری کرے گا۔

مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق، نیویارک میں ہندوؤں کی ایک نجی تقریب (جس کا اہتمام ایک بھارتی فلمساز ویوک اگنی ہوتری نے کیا تھا) میں کشمیری ہندو پنڈتوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل، سندیپ چکرورتی، نے کہا ہے: ’’مودی حکومت کو کچھ وقت دیں تاکہ وہ کشمیر میں اپنے منصوبوں پر عمل کر سکے۔ میرے خیال میں (مقبوضہ) کشمیر میں ہندو پنڈتوں کو واپس جانے کی اجازت ملے گی جس کے بعد آپ اپنی زندگی میں واپس جا سکیں گے جہاں آپ کو سیکیورٹی بھی ملے گی کیونکہ دنیا میں ایک ایسا ماڈل پہلے سے ہی موجود ہ ہے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ ہم اس ماڈل پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ ایسا مشرقِ وسطیٰ میں ہو چکا ہے اور جب اسرائیلی ایسا کر سکتے ہیں تو ہم بھی یہ (آبادکاری) کر سکتے ہیں‘‘۔

بھارتی قونصل جنرل کے یہ الفاظ نہایت ظالمانہ بھی ہیں اور یہ بھی عیاں کرتے ہیں کہ نریندر مودی کی کشمیر دشمن پالیسیاں مستقبل میں کیا شکل اختیار کرنے والی ہیں ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی قونصل جنرل کے ان الفاظ کی وزیر اعظم عمران خان نے بھی بروقت گرفت کی ہے ۔ انھوں نے 27 نومبر 2019 کو اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں اِسی پس منظر میں یوں کہا : ’’ کشمیر میں 100 روز سے زائد جاری کرفیو کے باعث کشمیریوں کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ نیویارک میں بھارتی قونصل جنرل ( سندیپ چکر ورتی) کا بیان دراصل بھارتی حکومت کے آر ایس ایس نظریے کی فسطائی ذہنیت کا عکاس ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ نیویارک میں  بھارتی قونصل جنرل کے بیان سے کشمیر کے بارے میں بھارتی سوچ اور نیت بھی بے نقاب ہو گئی ہے اور اس کے خلاف سخت ردِ عمل بھی سامنے آئے ہیں ۔

سندیپ چکر ورتی کے اعتراف سے مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت کے موقف کی تصدیق ہو تی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اور اسے بھارت کی طرف جھکانے کے لیے کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کرنے کے لیے اسرائیلی ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ اس دعوے پر بھارتی حکمران جماعت ، بی جے پی ، کے ایک رکنِ اسمبلی ( رام مادھو) کے اس تازہ بیان نے بھی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ’’ اُن کی ہندو قوم پرست جماعت بھارت کے تقریباً دو سے تین لاکھ ہندوؤں کو وادیِ کشمیر میں بسانے کے لیے پُر عزم ہے ۔‘‘ کیا اس بیان کے بعد بھی نریندر مودی کے کشمیر مخالف عزائم مخفی رہ جاتے ہیں؟

مقبوضہ کشمیر اور مظلوم و مقہور کشمیری بھارتی استبداد و جبر کے نیچے کس طرح کے روز و شب گزار رہے ہیں ، بھارتی حکومت کی انتہائی کوشش ہے کہ رونگھٹے کھڑے کر دینے والی یہ خبریں میڈیا میں نہ آنے پائیں لیکن اس کے باوجود سچ کہیں نہ کہیں سے زور لگا کر باہر آرہا ہے ۔ مثلاً بھارتی Concerned Citizens,s Group کے پانچ رکنی وفد کا تازہ ترین دَورئہ سرینگر ۔ اس گروپ کی قیادت سابق بھارتی وزیر خزانہ، یشونت سنہا ، کر رہے تھے ۔ باقی ارکان یہ تھے : سابق بھارتی چیف انفرمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، سابق بھارتی ائر وائس مارشل کپل کاک، سینئر بھارتی صحافی بھارت بھوشن اور سوشو بھاروی ۔ ویسے تو یہ وفد پورے مقبوضہ کشمیر کا دَورہ کر کے صورتحال کا جائزہ لینا چاہتا تھا لیکن انڈین آرمی نے اس کی اجازت نہ دی؛ چنانچہ یہ وفد سرینگر میں لوگوں سے ملا ۔

واپسی پر یشونت سنہا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھارتی میڈیا ( خصوصاً ’’دی وائر‘‘)  سے گفتگو کرتے ہُوئے جو انکشافات کیے ہیں ، پڑھ اور سُن کر کشمیریوں کی حالتِ زار پر رونا آتا ہے ۔ یشونت سنہا نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ دعویٰ بالکل کذب بیانی ہے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں ۔ یشونت سنہا صاف الفاظ میں کہتے ہیں : ’’ مودی حکومت کشمیر کے بارے میں سراسر جھوٹ بول رہی کہ وہاں حالات نارمل ہیں ۔ کشمیریوں سے ہر معاملے میں نا انصافی ( sheer injustice) ہو رہی ہے ۔ کشمیر میں اسکول کالج یونیورسٹیاں بند ہیں ، سڑکیں بند، مین ٹریفک بند ، بازار بند ، سب کاروبارِ حیات معطل، کشمیر کے سابق تینوں وزرائے اعلیٰ نظر بند ۔۔۔ کیا اِنہیں نارمل حالات کہا جا سکتا ہے ؟‘‘۔ بھارت اور نریندر مودی کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ بس ڈھٹائی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔