لاحاصل مباحثوں میں الجھی قوم

نیاز اے شاکر  جمعرات 5 دسمبر 2019
ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور قوم لاحاصل مباحثوں میں مصروف ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور قوم لاحاصل مباحثوں میں مصروف ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تاریخ میں ہلاکو خان سے بڑا ظالم اور وحشی جنگجو اور کوئی نہیں گزرا۔ بچوں کو شکم مادر میں قتل کرنا اور انسانی سروں کا مینار بنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کے شقی القلب ہونے کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک روز کسی نے ہمت کرکے ہلاکو خان سے پوچھ ہی لیا ’’جناب، کبھی آپ کو کسی پر رحم بھی آیا؟‘‘ ہلاکو خان نے کہا، ہاں ایک دفعہ مجھے ایک عورت پر رحم آیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز میں اپنے گھوڑے پر سوار دریا کنارے جارہا تھا کہ کسی عورت کی چیخ و پکار کی آواز سنی۔ اس کا بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا اور کوئی اس کو نکالنے والا نہیں تھا۔ اس عورت کی چیخ و پکار نے میرے دل پر اتنا اثر کیا کہ میں اس کی مدد کرنے پر مجبور ہوگیا۔ میں نے اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا اور جب اس بچے کے نزدیک پہنچا تو اس ڈوبتے بچے کے گلے میں نیزہ پیوست کرکے اسے باہر کھینچا اور اس کی ماں کی گود میں ڈال دیا‘‘۔

اسی ہلاکو خان نے جب بغداد کا رخ کیا تو راستے میں آنے والی ہر شے کو خاک و خون میں نہلا دیا اور جب وہ بغداد کی چوکھٹ تک پہنچا تو اس وقت عالم اسلام ایک عجیب بحران سے گزر رہا تھا۔ وقت کے بڑے بڑے جید علما مختلف ٹولیوں کی شکل میں جمع تھے اور اسلام کے ایک بہت بڑے قضیے کو سلجھانے میں مصروف تھے۔ ان کے مناظرے کا ایجنڈا تھا ’’مسواک کی لمبائی ایک مشت ہونی چاہیے یا کہ ڈیڑھ مشت‘‘۔ اور امت مسلمہ ابھی اپنا یہ قضیہ حل کرنے نہ پائی تھی کہ ہلاکو خان ان کے سروں پر آپہنچا۔ اور پھر تاریخ دان آج بھی لکھتے ہوئے خون کے آنسو بہاتے ہیں کہ کیسے ہلاکو خان نے بغداد کو خون میں نہلا دیا اور اس قدر خون بہایا کہ دریائے فرات کا پانی سرخ ہوگیا۔

تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرا رہی ہے۔ آج پھر ایک سپر پاور مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلا رہا ہے اور مسلمان آج بھی ویسے ہی فروعی تنازعات حل کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں آنے والے خطرے کا احساس تک نہیں۔ فضل الرحمن کا دھرنا حلال تھا یا حرام، آرمی چیف کی ایکسٹینشن آئینی تھی یا ماورائے آئین، عثمان بزدار وسیم اکرم پلس ہے یا مائنس؟ روز چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہوتا ہے۔ سارا دن قوم ہیجان میں مبتلا ہوتی ہے اور شام تک جب طوفان تھم جاتا ہے تو اسکرپٹ رائٹرز اگلے دن کےلیے ایک نیا ڈرامہ تخلیق کرتے ہیں۔ اس بات کا احساس کیے بغیر کہ عالمی برادری ہمارے ان بحرانوں کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے اور ہمارا دشمن کس موقع کے انتظار میں ہے۔

ہلاکو خان اگر آج کے دور میں زندہ ہوتا تو شاید آج کے سپر پاور کے مظالم دیکھ کر شرما جاتا۔ ہلاکو خان نے تو ایک بغداد تباہ و برباد کیا تھا، آج تو پورا عالم اسلام سپر پاور کے قدموں تلے روندا جارہا ہے۔ افغانستان عملی طور پر کھنڈر بن چکا ہے، عراق، مصر، شام اور لیبیا میں عوام ابھی تک باہم دست و گریباں ہیں اور ان کو خود خبر نہیں وہ کس سے لڑ رہے ہیں۔ ان کو آپس میں لڑتا چھوڑ کر اب سپر پاور کے اگلے شکار اس علاقے کی دو بڑی اسلامی طاقتیں ہیں۔ ہمارے گرد جال بنا جارہا ہے اور شکار کو ہانک کر اپنی مرضی کے میدان میں لے جایا جارہا ہے اور ہم ان کو ہر جواز خود فراہم کررہے ہیں۔

ان حالات میں بھی ہمارے سیاستدان اور علما بیرونی خطرات کا احساس کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں۔ ہر ایک، دوسرے کے مذہبی عقیدے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور ہر ایک، دوسرے کو کافر قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ جبکہ سپر پاور کی لڑائی نہ شیعہ سے ہے نہ سنی سے، نہ بلوچی سے ہے نہ پنجابی سے۔ اس کی نظر میں ساری دنیا کے مسلمان برابر ہیں اور جب وہ کسی علاقے پر بم گراتا ہے تو مرنے والوں کےلیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے، ’کولیٹرل ڈیمیج یا ’اجتماعی نقصان‘‘۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس بم سے مرنے والا شیعہ تھا یا سنی۔

مولانا فضل الرحمن کا دھرنا صحیح تھا یا غلط، یہ تو خود مولانا جانتے ہوں گے یا عمران خان۔ لیکن اس دھرنے نے جہاں سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں کی ذہنی اور اخلاقی حالت کا پول کھول دیا ہے، وہیں علما کرام کی فکری حیثیت کو عوام کے سامنے بے نقاب کردیا۔ مولانا طارق جمیل کی دینی خدمات اور ان کا دین اسلام کا مطالعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، لیکن جیسے ہی ان کی ملاقات عمران خان سے ہوئی، ان پر اتنی بے ہودہ تنقید خود اپنے آپ کو عالم دین کہنے والوں نے اس انداز سے کی کہ ان کا اپنا مقام بھی عوام کی نظر میں متاثر ہوا۔ ابھی عوام فضل الرحمن کے دھرنا فیز تھری کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ چائے کی پیالی میں طوفان کی شکل میں نمودار ہوگیا اور اس ہیجان خیزی میں عوام تو عوام خود حکومت وقت علاقائی تبدیلیوں کو بھول کر اندرونی خلفشار میں مبتلا ہوگئی۔

سوچیں اگر ہم آرمی چیف کی توسیع کی بحث میں مبتلا ہوتے اور انڈیا یا امریکا ہم پر حملہ آور ہوجاتا تو آنے والی نسل خود ہمارے بارے میں کیا سوچتی اور مؤرخ ہماری تاریخ کن الفاظ میں بیان کرتا؟

ہمارے علما آخر اتنی فراست کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے کہ اس وقت جبکہ امریکا نے مسلمانوں کے اندر لاتعداد تنازعات پیدا کردیئے ہیں، ہمارے علما اس قوم کو ایک پلیٹ فارم اور ایک ایجنڈے پر جمع کرلیں۔ ہوسکتا ہے عمران خان ایک سیاست دان سے زیادہ ایک اسپورٹس مین ہو اور ہوسکتا ہے عثمان بزدار ایک صوبے کو چلانے کےلیے اتنا تجربہ کار نہ ہو۔ لیکن ساری اپوزیشن اپنی ساری توانائیاں ان کو ہٹانے میں صرف کرنے کے بجائے ان کو سپورٹ کرنے میں لگا دے تو ہم بھی سپر پاور بن سکتے ہیں۔ اور اس سے نہ صرف ملک کا فائدہ ہوگا بلکہ ان سیاستدانوں کا اپنا قد بڑا ہوگا۔

پی ٹی آئی گورنمنٹ کی پالیسیوں کے فوائد و مضمرات کیا ہیں، یہ تو آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ سردست تو جو عالمی حالات ہیں ان کا تقاضا ہے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور فوج ایک صفحہ پر ہوں اور اس کےلیے عمران خان سے بہتر اور کوئی لیڈر نہیں۔ سی پیک، گوادر پورٹ اور تیل و گیس کی تلاش ایسے پراجیکٹس ہیں، جن کےلیے اندرونی استحکام چاہیے۔ ایسے میں لازم ہے کہ ایک ایسی مخلص قیادت ہو جو بین الاقوامی صورتحال کے مطابق کوئی ٹھوس پالیسی بنا کر اس کو نافذ کرسکے۔

اگر عمران خان کے ساتھ فوج نہ ہوتی تو کیا انڈیا صرف کشمیر تک محدود رہتا یا اپنے جنگی جہاز کی تباہی پر یوں خاموش رہتا؟ اس کاسہرا یقیناً عمران خان کے سر ہے کہ انہوں نے انتہائی جرأت سے نہ صرف انڈیا کو خبردار کیا بلکہ عالمی برادری کو بھی نہایت موثر انداز میں انڈیا کے جنگی جنون سے آگاہ کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایک وقت میں جبکہ انڈیا نے اپنی پوری فوج ہماری سرحد کی طرف لگا لی تھی، عمران خان نے انڈیا کے مذموم ارادوں کو عالمی سطح پر یوں بے نقاب کیا کہ خود انڈیا عالمی برادی میں تنہا رہ گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف امریکا کی جانب سے ڈو مور کا تقاضا سننا نہیں پڑ رہا، بلکہ سردست انڈیا کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری معاشی حالت بھی بہتری کی جانب گامزن ہے اور اگر آنے والے دنوں میں اپوزیشن جماعتوں نے کوئی نیا کٹا نہ کھول دیا تو عمران خان کی ٹیم کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے اور ہم معاشی اور سیاسی طور پر اتنے مستحکم ہوجائیں کہ آئندہ کسی دشمن کو پاکستان کی طرف میلی نظر اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان جیسے ملک چلا رہے ہیں انہیں چلانے دیں اور سیاستدان اپنے اندرونی اختلافات ختم کرکے ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھیں۔

قوم کو اس وقت ایک مضبوط اور ایک ایجنڈے پر متفق قیادت کی ضرورت ہے۔ قوم کو اس بات میں دلچسپی نہیں کہ عمران خان الیکٹڈ ہے یا سلیکٹڈ۔ کیونکہ سب سے پہلے پاکستان اور پاکستان کی سلامتی ہے اور اس سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم ایسے تمام چھوٹے چھوٹے ایشوز کو فراموش کرکے ایک قوم کے طور پر آنے والے خطرات کا سامنا کریں۔ ورنہ پھر کوئی ہلاکو خان ہماری صفوں میں انتشار کا فائدہ اٹھا کر ہمارے سروں کے مینار بناسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نیاز اے شاکر

نیاز اے شاکر

بلاگر نجی ٹی وی کے ساہیوال میں بیوروچیف ہیں۔ ایک اخبار میں سب ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اردو کالمز مختلف اخباروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔