معاشی بہتری کو سیاسی محاذآرائی پر ترجیح دینا ہوگی

ارشاد انصاری  بدھ 4 دسمبر 2019
حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے نہ صرف سیاسی رابطے شروع کر دیے ہیں۔

حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے نہ صرف سیاسی رابطے شروع کر دیے ہیں۔

 اسلام آباد: عالمی طاقتوں کے درمیان مستقبل کی چودھراہٹ کے لئے جاری لڑائی میں شدت کا عنصر زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

افغانستان میں امریکی پسپائی، امریکی صدر کیلئے داخلی مشکلات اور پھر تُرکی امریکہ تنازعہ اور سب سے بڑھ کر امریکی شہہ پر بھارت جس طرح کشمیر کے معاملہ پر ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے کی راہ ہموار کر رہا ہے اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ عالمی چودھراہٹ پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔

جس طرح چین عالمی سطع پر طاقت پکڑ رہا ہے امریکہ کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اس وقت امریکہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہے اور چین کی معیشت تیزی سے اُبھر رہی ہے۔ عالمی سطع پر جو نئے اتحاد بن رہے ہیں اس سے امریکہ کی پریشیانی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی سطع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان کے حالیہ اچانک دورہ کو بھی بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ کیلئے افغانستان میں مزید ٹھہرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اورافغانستان میں پھنسنے کی وجہ سے ہر گذرتے دن کے ساتھ امریکی معیشت تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اچانک افغانستان کو دورہ کرنا پڑا اور وہاں موجود افواج کے گرتے ہوئے مورال کو سہارا دینے کیلئے خود آنا پڑا۔ اس دورے کے دوران جس طرح افغان صدر اشرف غنی کو اپنی ہی سرزمین پر بلگرام ائیر بیس پر تلاشی کے مرحلے سے گذرنا پڑا اس سے بہت جگ ہنسائی ہوئی ہے۔

جس طرح افغانستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل بحال کرنے کا اعلان کیا ہے وہ بھی امریکی کمزوری و بے بسی کو بیان کرتا ہے۔ اس تناظر میں عالمی سطع پر جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اس میں پیٹرو ڈالر کی جگہ پیٹرو یوآن زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے اور اسی کا راستہ روکنے کیلئے امریکہ اپنا پورا زور لگارہا ہے۔

اپنی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کے باعث کسی بھی عالمی طاقت کیلئے پاکستان کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ سی پیک کو امریکہ اپنی عالمی تھانیداری کے تابوت میں آخری کیل سمجھتا ہے اور اب امریکہ حکام کا سی پیک کے بارے میں زہر آلودہ بیانیہ کُھل کر سامنے آگیا ہے۔ اسی عالمی غلبے کی کشمکش میں ترکی، پاکستان،چین روس اور پھر ایران سمیت دیگر ممالک کو لے کر نئی صف بندی کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔

ایک بڑی پیش رفت یہ ہے کہ روس اور چین نے دونوں ممالک کو آپس میں جوڑنے والی مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبے کا آغازکر دیا ہے، جس کا مقصد دنیا کے سب سے بڑے گیس برآمد کنندہ کے طور پر روس کے کردار کو مستحکم کرنا ہے۔ عالمی سیاست کے اثرات یقینی طور پر خطے کے ممالک پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں بھی سیاسی صف بندیاں جاری ہیں اور تمام سیاسی کھلاڑی اپنے اپنے پتے بھرپور انداز سے کھیل رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے شہزاد اکبر کو معاون خصوصی برائے احتساب کے ساتھ امور داخلہ کے لیے بھی معاون مقرر کردیا ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کو عہدے سے ہٹاکر پاناما کیس میں نواز شریف کیخلاف تحقیقات کرنے والی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء کو نیا ڈی جی ایف آئی اے تعینات کردیا ہے جس پر بشیر میمن نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ڈاکٹر واجد ضیاء نے ملاقات کی۔

وزیراعظم نے ان سے کہا ہے کہ کرپشن، سائبر کرائم، معاشی جرائم، امیگریشن سے متعلق جرائم، منی لانڈرنگ، بلاتفریق احتساب اور منظم جرائم کا مقابلہ کرنا تحریک انصاف کے ایجنڈے کی سب سے اہم ترجیحات ہیں۔ اس کے ساتھ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق عدالتی فیصلے کو لے کر نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ آرمی ایکٹ مین ترمیم کیلئے کسی قسم کی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے نہ صرف سیاسی رابطے شروع کر دیے ہیں۔ قانون سازی کے معاملے پر 3رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پر مشتمل ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی اور اگر اس کی ضرورت پڑی تو اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔

میاں نوازشریف کی بیرون ملک روانگی اور شہباز شریف کے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ کے بعد رانا تنویر پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے ہیں جس کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے آثار پیدا ہوگئے تھے، مگر پھر کیا ہوا کہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ میں عدالتی فیصلہ کے بعد وزیراعظم عمران خان کا جو ٹوئٹ سامنے آیا اس نے ایک بار پھر مفاہمت کی باتیں کرنے والے حلقوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد آصف علی زرداری کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جو اِن ہاوس تبدیلی کااشارہ دیا ہے وہ عمران خان کے اسی ٹوئٹ کا ردعمل ہے۔

میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آصف زرداری سے ملک کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی بات ہوئی، پیپلزپارٹی اپنے نظریے اور مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے منتظر ہیں لہٰذا امید ہے کہ عدالتی فیصلے سے ہمیں قانون سازی میں رہنمائی ملے گی جیسے 18ویں ترمیم پر بھی عدالتی فیصلے سے رہنمائی ملی تھی۔

ساتھ ہی بلاول بھٹو نے اپنے والد کیلئے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کرنے کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔ سیاسی حلقوں کی طرف سے اسے بھی مستقبل کے سیاسی منظر نامے سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس میں دوراے نہیں ہیں کہ وجہ جو بھی ہو، بہرحال سیاسی استحکام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ خاص طور پر جبکہ اقتصادی فرنٹ پر پچھلے چند ماہ کے دوران کچھ حوصلہ افزاء خبریں آنا شروع ہوئی ہیں۔ ملک کا مالیاتی خسارہ 1.4 فیصد سے کم ہوکر 0.4 فیصد ہوا ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارے میں 35 فیصد کمی ہوئی ہے اور پھر برآمدات مین اضافہ ہوا ہے،ملکی سٹاک مارکیٹ میں بہتری شروع ہوئی ہے۔ پورٹ فولیو انوسٹمنٹ میں بھی ایک ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت سخت فیصلے کرنا پڑے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب اگر اقتصادی اعشاریوں میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے تو اس کو مزید آگے بڑھانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو بہتری آئی ہے وہ کافی نہیں ہے، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ملکی جی ڈی پی کو بڑھانے کیلئے ترقی کا یہ سفر جاری رکھنا ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ معیشت کی گاڑی کو چلنے دیا جائے کیونکہ معیشت کی گاڑی کسی سپیڈ بریکر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔