وفاقی حکومت کا طلبا یونین کو بے اختیار بنا کر بحال کرنے پر غور

صفدر رضوی  بدھ 4 دسمبر 2019
طلبا یونین کی ماضی ی صورت میں بحالی بیشترجامعات کے سربراہوں کو قبول ہوگی اورنہ ہی مقتدرحلقے تسلیم کرینگے، وائس چانسلر سرکاری جامعہ
 فوٹو : فائل

طلبا یونین کی ماضی ی صورت میں بحالی بیشترجامعات کے سربراہوں کو قبول ہوگی اورنہ ہی مقتدرحلقے تسلیم کرینگے، وائس چانسلر سرکاری جامعہ فوٹو : فائل

کراچی:  سندھ سمیت پورے پاکستان میں تقریباً36برس بعد طلبا یونین کی بحالی کی آوازیں اٹھنے اور سرکاری سطح پراس معاملے میں بظاہرآمادگی کے بعد حکومت نے ’’طلبا یونین  کوطلبا سوسائٹیز‘‘میں تبدیل کرکے اس کی’’کنٹرولڈ‘‘ فریم ورک کے ساتھ بحالی پرغورشروع کردیا ہے۔

طلبا سوسائٹیزکے ماڈل پراسٹڈی کے ساتھ ساتھ اس پر مختلف حلقوں اوراسٹیک ہولڈرزسے مشاورت بھی شروع کردی گئی ہے اوروفاقی حکومت طلبا سوسائٹیز کے ایک ایسے ماڈل کواعلیٰ تعلیمی اداروں میں متعارف کرانے پرغورکررہی ہے جوملکی سیاست سے لاتعلق اورانتہائی محدود دائرہ کارمیں کام کرسکے گی۔

’’ایکسپریس‘‘کواس سلسلے میں بعض جامعات کے آفیشلزاورماہرین تعلیم نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ حکام مقتدراداروں کی مشاورت سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ طلبا یونین کوطلبا سوسائٹیزکے فریم ورک میں اس طرح بحال کیاجائے جس سے ان کی سیاسی شناخت ختم اورسیاسی ایشوزپرطلبا کی کسی قسم کی مداخلت نہ ہوسکے۔

حد یہ ہے کہ ماضی کی طلبا یونینزکے برعکس خود طلبا کے اپنے ایشوزپربھی رائے دینے یافیصلہ سازی میں شامل ہونے کے مجازنہیں ہون گے بلکہ مجوزہ قانون سازی میں یونین کی ممکنہ بحالی کے بعد طلبا سوسائٹیزکی سرگرمیاں محض ہم نصابی ہوں گی۔

بعض حکام کی رائے ہے کہ ماضی میں طلبا یونین دراصل تعلیمی اداروں میں سیاسی پارٹیوں کی منتخب یونینزتھیں جونجی جامعات سمیت اب حکومت اورمقتدرحلقوں کوبھی کسی صورت قابل قبول نہیں یہ ماڈل اب صرف سوسائٹیز کی صورت میں ہی قابل عمل ہوسکتاہے۔

ایک دوسرے وائس چانسلرنے حکومت سندھ کی جانب سے سرکاری جامعات کے ترمیمی ایکٹ 2018میں سینڈیکیٹ سے طلبا یونین کی نشست ختم کرنے کاحوالہ دیتے ہوئے کہا حکومت سندھ نے یہ کام اس قدر ذہانت سے کیاہے کہ متعلقہ حلقے یا اسٹیک ہولڈرز بھی اس کی نشاندہی نہیں کرسکے۔ اب ترمیمی ایکٹ 2018کاجائزہ لیں تواس میں سندھ کی سرکاری جامعات کی سینڈیکیٹ کی جو ہیئت بیان کی گئی ہے اس میں طلبا یونین کاتذکرہ ہی نہیں ہے۔

صرف سندھ ایچ ای سمیت کچھ مزیدنمائندگیاں دی گئی ہیں تاہم طلبا یونین کی نمائندگی کاذکرنہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قائم صوبائی حکومت بھی تعلیمی اداروں میں کسی طلبا یونین کی ممکنہ بحال کی صورت میں اسے ایک کنٹرولڈفریم ورک میں رکھناچاہتی ہے۔

’’ایکسپریس‘‘سے بات کرتے ہوئے پابندی سے قبل جامعہ کراچی کی آخری طلبا یونین کے صدر اورجامعہ کراچی شعبہ جینیٹکس کے پروفیسرڈاکٹرشکیل فاروقی نے اس وقت کی طلبا یونینز کے اختیارات کاتذکرہ کرتے ہوئے بتایاکہ پابندی سے قبل طلبا یونینزپورے پاکستان کی سرکاری جامعات کی سینڈیکیٹ میں نمائندگی رکھتی تھیں اورتعلیمی ادارے کی طلبا یونین کاصدرمتعلقہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کاباقاعدہ رکن ہوتاتھا۔

انھوں نے مزیدبتایاکہ چونکہ تمام کالجوں کی یونینزعلیحدہ ہوتی تھیں لہذاان کی ایک مشترکہ کونسل بنائی جاتی تھی جس کا سربراہ بھی متعلقہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کارکن ہوتاتھا۔ اس طرح جامعات کی سینڈیکیٹ میں طلبا یونین کی ایک نہیں بلکہ دونمائندگیاں موجودتھیں۔

انھوں نے یہ واضح کیاکہ فیسوں اورانرولمنٹ یاداخلہ پالیسی سمیت طلبا کے معاملات اوردیگرانتظامی معاملات جوسینڈیکیٹ کے ایجنڈے کاحصہ ہوتے تھے یونین کے صدورباقاعدہ اس پر رائے دینے اورفیصلہ میں شامل ہونے کاقانونی حق رکھتے تھے جبکہ بربنائے عہدہ یہی دواراکین متعلقہ جامعات کی سینیٹ کے رکن بھی ہوتے تھے جبکہ طلبا یونین کی ذیلی کمیٹیاں یونیورسٹی کی ٹرانسپورٹ اورلائبریری کے انتظامات جبکہ جیمخانہ سرگرمیوں میں انتظامی سطح پر حصہ دار ہوتی تھیں۔

’’ایکسپریس‘‘کے سوال پر ڈاکٹرشکیل فاروقی نے واضح کیاکہ 9فروری 1984کوجب طلبا یونین پرپابندی عائد کی گئی توانھیں منتخب ہوئے ڈھائی ماہ سے کچھ زائد عرصہ ہی گزراتھا وہ 23دسمبر1983کوجامعہ کراچی کے انتخاب جیت کرطلبا یونین کے صدرمنتخب ہوئے تھے جبکہ ان کے منتخب سیکریٹری عاصم حمیدی تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔