قصہ ویکسین کی شروعات کا

ویکسین کے بارے میں ہمارا طرز عمل وہی ہے جو 300 پہلے اہلِ برطانیہ کا اس بارے میں تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ویکسین کے بارے میں ہمارا طرز عمل وہی ہے جو 300 پہلے اہلِ برطانیہ کا اس بارے میں تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’میں تمہیں ایک ایسی بات بتانے جا رہی ہوں کہ مجھے یقین ہے تم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش کروگی۔ ہمارے ملک (انگلستان) میں چیچک کا پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی جتنی زیادہ ہے، یہاں (ترکی میں) پیوندکاری کی تکنیک کی حیرت انگیز ایجاد کی وجہ سے بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تکنیک کو انجام دینے کےلیے باقاعدہ تجربہ کار خواتین موجود ہیں جو ہر موسمِ خزاں میں یہ عمل انجام دیتی ہیں۔ ہر سال ایک عمر رسیدہ عورت احتیاط سے منتخب کیے گئے چیچک کے زہر کی تھوڑی سی مقدار کے ساتھ آتی ہے اور نشان دہ رگ کے ذریعے چیچک کے زہر کی نہات معمولی سی مقدار سوئی کی مدد سے خون میں داخل کردیتی ہے… ہر سال ہزاروں افراد اس عمل سے گزرتے ہیں اور اس کی وجہ سے آج تک کسی کے بھی مرنے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ میری بات کا اعتبار کرو کہ مجھے اس عمل کے محفوظ ہونے پر کامل یقین ہے… اور بحیثیت ایک محب وطن، میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ یہ مفید ایجاد انگلستان میں بھی رائج ہوجائے۔‘‘

یہ خط لیڈی میری ورٹلی مونٹاگو نے ترکی میں اپنے قیام کے دوران اپنی ایک سہیلی کو 1717 میں لکھا تھا۔ 1716 میں لیڈی میری کے شوہر ایڈورڈ ورٹلی مونٹاگو کو سلطنتِ عثمانیہ میں برطانوی سفیر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تو وہ بھی ان کے ساتھ ترکی آگئیں۔ ترکی میں جہاں پہلی مرتبہ کسی یورپی عورت کو مشرقی ملک کا سفر کرنے کا موقع ملا، وہیں لیڈی میری نے اپنی انشاء پردازی کی صلاحیت سے، ان حاصل ہونے والی معلومات کو اپنے خطوط کی شکل میں محفوظ کرلیا۔ درج بالا خط بھی اسی دوران تحریر کیا گیا۔

اس خط میں جس ’’پیوند کاری‘‘ نامی تکنیک کا ذکر لیڈی میری کر رہی ہیں، وہ سلطنتِ عثمانیہ میں صدیوں سے رائج ایک طبی آپریشن تھا جس کی مدد سے ترکی میں لوگ خود کو اور اپنے بچوں کو چیچک جیسے موذی مرض سے بچاتے تھے۔ لیڈی میری کےلیے یہ ایک خاص توجہ کا باعث تھا کیونکہ چند برس قبل ہی 1713 میں ان کے بھائی کا انگلستان میں چیچک کی وجہ سے انتقال ہوا تھا اور 1715 میں لیڈی میری خود بھی اس مرض کا شکار ہوکر بدشکل ہوچکی تھیں۔ اپنے بھائی کی موت اور اپنی بیماری کے تجربے کی روشنی میں لیڈی میری نے جب اس پیوند کاری کی تکنیک کو پرکھا تو انہیں احساس ہوا کہ اس وقت یورپ میں چیچک کی وباء کی روک تھام کےلیے کوئی تدبیر موجود نہیں۔ انہوں نے اس تکنیک کے بارے میں خاصی جانچ پڑتال کی اور ہر لحاظ سے اپنے دلی اطمینان کے بعد اپنے بیٹے کو چیچک سے بچاؤ کی خاطر یہ پیوند کاری کروائی۔

1718 میں ترکی سے انگلستان واپسی کے بعد لیڈی میری نے جب اس تکنیک کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام کو تو چھوڑئیے، انگریز ڈاکٹروں کی طرف سے بھی اس تکنیک کو مشرق کا جھاڑ پھونک، ٹونا ٹوٹکا اور اتائی علاج تک قرار دے کر اس کی مخالفت کی گئی۔

حسنِ اتفاق دیکھیے کہ اس ساری بحث کے دوران ہی 1721 میں انگلستان میں چیچک کی وباء پھوٹ پڑی۔ اس وباء کے دوران ہی لیڈی میری نے اپنی بیٹی کو بھی چیچک سے بچانے کےلیے پیوند کاری کروائی اور اس امر کی تشہیر بھی کی۔ اپنی کوششوں سے لیڈی میری نے پرنسس آف ویلز شہزادی کیرولین کو بڑی حد تک قائل کرلیا اور اگست 1721 میں سزائے موت کے منتظر سات قیدیوں پر یہ تکنیک تجرباتی طور پر آزمائی گئی۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور ان ساتوں قیدیوں کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں دیکھا گیا۔ اگرچہ اس تکنیک کی مخالفت میں کوئی خاص کمی تو نہیں آئی لیکن شہزادی کیرولین نے اس حفاظتی تکنیک کی افادیت کو سمجھتے ہوئے اپریل 1722 میں اپنی بیٹیوں اِمیلیہ اور کیرولین کو پیوند کاری کروائی۔ شدیدتر ہوتی مخالفت کے باوجود لیڈی میری کی ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ چیچک سے بچاؤ کےلیے تادمِ مرگ مصروفِ عمل رہیں۔ لیڈی میری کی جدوجہد نے انگلستان میں ویکسین کےلیے زمین ہموار کی اور ان کی وفات کے کچھ ہی برس بعد ایڈورڈ جینر نے اپنے تجربات کی روشنی میں ’’ویکسینالوجی‘‘ (ویکسین کے علم) کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔

اس پوری کہانی میں دو بنیادی نکتے ہیں جن پر میں آپ کی توجہ چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ لیڈی میری کا بیماری کے حوالے سے ذاتی تجربہ اور علاج کا مشاہدہ ہے۔ لیڈی میری کو اپنے بھائی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، وہ خود بھی اس سے بیمار ہوئیں اوراس بیماری کے اثرات عمر بھر کےلیے ان کے جسم پر رہے۔ لیکن جیسے ہی لیڈی میری کو علاج یا بچاؤ کا پتا چلا، انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا، اس طریقہ کو جانچا پرکھا اور اپنی مکمل تسلی کرلینے کے بعد نہ صرف اپنے بیٹے اور بیٹی کو چیچک سے محفوظ کرلیا بلکہ انگلستان واپسی کے بعد اپنی بھرپور کوشش کی کہ دوسروں کو بھی اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔

دوسرا نکتہ معاشرے میں اس نئے طریقے کے خلاف ردعمل اور مخالفت ہے۔ اس چیز کو علامہ اقبال اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج سے ٹھیک تین سو سال قبل جو طرز عمل انگریزوں نے اپنایا تھا، آج وہی کام ہم کر رہے ہیں۔ کل تک تو صرف پولیو کی ویکسین ہی ناقابلِ قبول تھی مگر اب تو ٹائیفائیڈ کی ویکسین پر بھی ہمیں یہود و نصاریٰ کی سازش کا شک ہے۔ جی ہاں! وہی یہود و نصاریٰ جنہوں نے خلافتِ عثمانیہ کے مسلمانوں سے ویکسی نیشن کا طریقہ سیکھا تھا۔

تین صدی پہلے لیڈی میری کو اپنی اولاد کو ویکسی نیٹ کرکے لوگوں کو دکھانا پڑا تھا۔ آج ہمارے بڑے بڑے ڈاکٹرز پولیو اور ٹائیفائیڈ کی ویکسین اپنے بچوں کو میڈیا کے سامنے لگانے اور دکھانے پر مجبور ہیں۔

سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ ویکسین کی افادیت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ آپ ویکسن کے مخالف کسی بھی شخص سے بات کرلیجیے، وہ آپ کے سامنے مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے سے لے کر سلو پوائزننگ تک، طرح طرح کے سازشی نظریات عین الیقین والے تیقّن سے بیان کرے گا۔ مگر آپ کو ایک بھی ایسا فرد نہیں ملے گا جو یہ کہہ سکے کہ میرے بیٹے یا بیٹی کو پولیو کی ویکسین دی گئی مگر اس کو پھر بھی پولیو ہو گئی، تجربہ شرط ہے۔

اگر بحث کی غرض سے تسلیم کر بھی لیا جائے کہ پولیو مہمات، پاکستانی مسلمانوں کی آبادی قابو کرنے کےلیے کی جارہی ہیں، تو بھائی ایک بات بتائیے کہ کیا صرف پولیو کی ویکسین ہی رہ گئی ہے جس کی مدد سے آبادی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ اول تو یہ جان لیجیے کہ پیناڈول سے لے کر انسولین تک، ہر دوا پاکستان باہر سے درآمد کرتا ہے۔ پھرتو آپ کوئی بھی دوا استعمال نہ کیا کریں! کیونکہ پولیو ویکسین کے تو صرف دو ہی قطرے پینے ہوتے ہیں، وہ بھی تین چار مہینے بعد، مگر کھانسی بخار میں تو آپ اپنے بچوں کو دواؤں کی پوری کی پوری بوتل ہی پلا دیتے ہیں۔ اسی طرح صرف دواؤں پر ہی کیا موقوف، جتنی کھپت پاکستان میں سافٹ ڈرنکس کی ہے اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ خود اندازہ کیجیے کہ آپ اور آپ کے اردگرد موجود لوگ ایک ہفتے میں کتنی مقدار میں کولا مشروبات اور دیگر ذائقوں والی کاربونیٹڈ ڈرنکس پی جاتے ہیں۔ ان سب کا شیرہ بھی باہر سے تیار ہو کر پاکستان آتا ہے۔ لیکن کولا مشروبات پیتے ہوئے تو کبھی آپ کو یہ آبادی کنٹرول ہونے کا ڈر نہیں لگا۔

ایک لمحے کےلیے ان سب شکوک و شبہات سے بالاتر ہوکر سوچیے کہ اگر آپ کسی کی آبادی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو ان مشروبات کا انتخاب کرتے یا پولیو ویکسین کا؟

ہمیں اپنے بچوں کےلیے، اپنی قوم کے مستقبل کی خاطر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے طرزِ عمل کو ٹھیک نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔