طالبان سے مذاکرات کے لئے صوبائی حکومت کا وفاق پر دباؤ

شاہد حمید  بدھ 30 اکتوبر 2013
حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز نہیں کرتی تو پھر صوبائی حکومت اپنے طور پر مذاکرات شروع کرنے پر مجبور ہوجائے گی. فوٹو : فائل

حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز نہیں کرتی تو پھر صوبائی حکومت اپنے طور پر مذاکرات شروع کرنے پر مجبور ہوجائے گی. فوٹو : فائل

پشاور: مرکزی حکومت کی جانب سے مینڈیٹ ملنے کے باوجود ملک میں قیام امن کے سلسلے میں مذاکرات کی ابتداء نہ کرنے اور اس وجہ سے خیبرپختونخوا میں دہشت گرد ی کی کاروائیاں ہونے کے خلاف بالآخر خیبرپختونخوا حکومت اپنا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو ہی گئی اور یہ ردعمل اجتماعی طور پر چار وزراء کی جانب سے ایک ہی دن صوبائی اسمبلی کے فلور پر ظاہر کیا گیا۔

چاروں صوبائی وزراء جن میں سراج الحق ،شاہ فرمان ،شوکت علی یوسفزئی اور مشتاق غنی شامل ہیں، چاروں نے ایک ہی موقف اپناتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر مرکزی حکومت فی الفور طالبان کے ساتھ قیام امن کے سلسلے میں مذاکرات کا آغاز نہیں کرتی تو پھر صوبائی حکومت اپنے طور پر مذاکرات شروع کرنے پر مجبور ہوجائے گی ،صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں شاید ہی کوئی میکنزم بنایا ہو جس کے تحت وہ طالبان کے ساتھ قیام امن کے لیے مذاکرات شروع کرے اور اگر صوبائی حکومت مذاکرات شروع کر بھی دے تو کیا صوبائی حکومت وہ گارنٹیز طالبان کو دے سکتی ہے۔

جس کا ان کی جانب سے ممکنہ طور پر مطالبہ کیا جائے گا ؟۔ یقینی طور پر یہ سب صوبائی حکومت کے بس میں نہیں اور نہ ہی قبائلی علاقہ جات صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہیں، تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے یہ اعلان یقینی طور پر مرکز کو دباؤ میں لانے کے لیے تھا تاکہ مرکزی حکومت فوری طور پر مذاکراتی عمل شروع کردے اور یہ شاید اسی دباؤ کا نتیجہ تھا یا پھر مرکز کی اپنی حکمت عملی کہ مرکز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں پیش رفت ہوگی جس کے بارے میں سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

مرکزی حکومت کی چاہے کوئی مجبور ی ہو یا بین الاقوامی دباؤ تاہم چونکہ یہ مسلم لیگ(ن)کی پالیسی بھی تھی اور ملکی سیاسی قیادت کا مطالبہ بھی اس لیے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے مرکزی حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہی ہوں گے کیونکہ قیام امن کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اوراسی بات کا احساس کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے مرکز پر دباؤ ڈالا ہے تاہم اس دباؤ سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر مرکزی حکومت قیام امن کے لیے مذاکرات کا آغاز نہیں کرتی اوردوسری جانب ڈرون حملے جاری رہتے ہیں تو اس صورت میں صوبائی حکومت نیٹو سپلائی بند کردے گی۔

یہ بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے کہ گزشتہ حکومت میں بھی نیٹو سپلائی کی بندش کی گئی تھی تاہم یہ اقدام اس وقت کی صوبائی حکومت نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ اقدام مرکز کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں صوبائی حکومت بھی ان کے ساتھ تھی کیونکہ مرکز اور صوبہ میں مخلوط حکومتیں تھیں ۔ اب تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے نیٹو کو سپلائی بندش کی جو دھمکی دی ہے۔

یہ اس لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کام وہ مرکز کی مشاورت سے نہیں بلکہ مرکز کی جانب سے مذاکرات شروع کرنے میں تاخیر اور ڈرون حملوں کے خلاف کرنے جا رہی ہے اور اپنے طور پر یہ اقدام کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے امریکا اور نیٹو افواج کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس لیے ایک جانب مرکز کو بات آگے بڑھانا پڑے گی تو دوسری جانب امریکا کو بھی ڈرونز کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی کیونکہ اگر نیٹو سپلائی کو بند کردیا جاتا ہے تو اس سے افغانستان میں موجود امریکا اور نیٹو افواج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگرچہ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کی جانب سے قیام امن ہی کے سلسلے میں صوبائی سطح پر بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی تاہم جماعت اسلامی اس اے پی سی کے اعلامیے کے مطابق معاملات آگے بڑھانے کے لیے جو سٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے رہی ہے اس میں وہ نہ صرف تحریک انصاف کو نمائندگی دے رہی ہے بلکہ مسلم لیگ(ن)کو بھی نمائندگی دی جا رہی ہے جو دعوت ملنے اور اے پی سی میں شرکت پر آمادگی کے باوجود اس میں ’’بوجوہ‘‘شریک نہیں ہوئی تھی۔

چونکہ جماعت اسلامی،تحریک انصاف ہی کی اتحادی جماعت ہے اور ڈرون حملوں ، دہشت گردی اور قیام امن کے سلسلے میں فوری طور پر طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے دونوں پارٹیوں کی پالیسی بھی یکساں ہے اس لیے تحریک انصاف مرکز پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس فورم کوبھی استعمال کر سکتی ہے کیونکہ جماعت اسلامی کی جانب سے بلائی گئی مذکورہ اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی تھی اور نہ صرف شرکت کی تھی بلکہ جو اعلامیہ جاری ہوا تھا اس پر بھی سب کا اتفاق تھا اس لیے اسی اتحاد اوراتفاق کا استعمال کرتے ہوئے معاملات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔

بلکہ اس کا انحصار ان سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مذکورہ اے پی سی کے اعلامیہ کے تحت قائم کی جانے والی سٹیئرنگ کمیٹی میں شرکت پر ہے، اگر مذکورہ پارٹیاں اپنے نمائندوں کے ذریعے اس سٹیئرنگ کمیٹی کا حصہ بنتے ہوئے معاملات آگے بڑھانے پر رضامند ہوئیں تو اس سے مذاکراتی عمل شروع نہ کرنے پر مرکز کے لیے مشکلات بڑھیں گے جس کا فائدہ مسلم لیگ (ن)کی مخالف سیاسی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں تاہم اگر مسلم لیگ(ن)مذاکراتی عمل شروع کردیتی ہے تو یہی فورم اس کے لیے مدد گار بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس فورم پر ایسی پارٹیاں اور افراد بھی موجود ہیں جن میں سے کچھ پر حکومت اور کچھ پر طالبان اعتماد کرتے ہیں ۔

تحریک انصاف کی قیادت میں کام کرنے والی صوبائی حکومت نے بیرونی محاذ پر تو یہ سخت پیغام دے دیا ہے تاہم جہاں تک اقتدار کے ایوانوں کا تعلق ہے تو حکمران اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت قومی وطن پارٹی ناراض ہوکر اسمبلی ، اسمبلی کی کمیٹیوں اور اپنے دفاتر کا بائیکاٹ کرتے ہوئے گھروں میں بیٹھ گئے ہیں ، قومی وطن پارٹی کی جانب سے یہ ردعمل پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی چھوٹی ،موٹی ’’جھڑپیں‘‘ہوچکی ہیں جن میں قومی وطن پارٹی کے ارکان نے ان کے محکموں میں تحریک انصاف کی مداخلت کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا ۔ اب قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام وزراء اور ارکان اس معاملہ میں اکھٹے ہوگئے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ صوبائی اسمبلی کے جاری سیشن کے پہلے دونوں روز کاروائی میں حصہ نہیں لیا ۔

بلکہ بلدیاتی نظام پر غور کے لیے قائم سلیکٹ کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ اپنے دفاتر جا رہے ہیں جو کوئی معمولی بات نہیں ہے ، بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ یہ احتجاج اپنے محکموں میں مداخلت کے خلاف کیاجا رہا ہے تاہم اس کی کڑیاں صوبائی حکومت کے خلاف کسی ممکنہ کاروائی سے بھی ملائی جا رہی ہیں اور کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ الٹی گنتی ایک مرتبہ پھر شروع ہو چکی ہے کیونکہ اشارے مل چکے ہیں اور اسی بنیاد پر تانے بانے بنے جا رہے ہیں تاہم معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ کوئی کھیل شرو ع ہوچکا ہے، ناراضگیوں کی حد تک معاملہ درست ہے اور اس کے حوالے سے تحریک انصاف سرگرم بھی ہے تاکہ اس ناراضگی کوختم کیا جا سکے ۔

اور بلدیاتی انتخابات کاقصہ کچھ یوں ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرنے کی دعویدار تحریک انصاف اس معاملے میں دیگر تینوں صوبوں سے پیچھے رہ گئی ہے کیونکہ دیگر تینوں صوبے بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کے حوالے سے تاریخوں کا اعلان بھی کرچکے اور سپریم کورٹ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو تیاریوں کی ہدایات بھی کر چکی ہے تاہم جہاں تک خیبرپختونخوا کا تعلق ہے تو یہاں ایک جانب تاحال بلدیاتی نظام سے متعلق بل سلیکٹ کمیٹی کے پاس پھنسا ہوا ہے اور حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے اس کے حوالے سے الجھی ہوئی ہیں تو دوسری جانب تاحال صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے لیے کسی تاریخ کا اعلان کرنے یا اس کے بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

اس بارے میں بتایاجا رہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت ممکنہ طور پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے 4 نومبر کو عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقع پر 28 دسمبرکی تاریخ دے سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں بلدیاتی نظام کی بروقت تیاری نہیں کرسکیں ، ان کا یہ موقف اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے وہ انتہائی عرق ریزی کے بعد نظام لارہے ہیں جبکہ دیگر صوبے وہی پرانا نظام دے رہے ہیں ۔ یہ دلیل تاخیر کے حوالے سے اس لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کے دعویداروں کو اس کے لیے تیاری بھی اسی مناسبت سے پہلے ہی کرلینی چاہیے تھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔