- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
سجا پھر فیض میلہ
پاکستان میں کمیونسٹ و مارکسسٹ خیالات کے حامل اور باغی شعراء کم ہی رہے ہیں جو تھے ان میں سب سے سب سے اونچا قد فیض احمد فیض کا ہے۔ اپنے باغی خیالات اور بائیں بازو سے قربت کی وجہ سے فیض نے اپنا موضوع غریب اور محنت کش طبقے کو بنایا ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ فیض احمد فیض مزدور اور کسان کا شاعر ہے۔
اردو ادب میں علامہ محمد اقبال اور مرزا غالب کے بعد فیض احمد فیض کو تیسرا بڑا شاعر مانا جاتا ہے (بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں بھی کرتے) لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فیض کے کلام میں جو جوش، ولولہ اور پُختگی نظر آتی ہے وہ بہت کم شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۔
فیض کا نام ان تخلیق کاروں میں سرِفہرست ہے جنھوں نے اپنی تخلیقات کی بنیاد ترقی پسند تحریک کے عطا کردہ سیاسی شعور پر رکھی اور دوسری طرف ان فنی اور جمالیاتی تقاضوں سے بھی عہدہ برآ ہوئے جو اعلیٰ ادبی تخلیقات کی اساس ہیں۔ فیض ان ترقی پسند شعراء میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اس نظریے کی ترویج میں قابلِ تحسین کردار ادا کیا ہے اور اس کردار کو نبھانے کے لیے جس سیاسی و ادبی شعور کی ضرورت تھی فیض کے پاس وہ موجود تھا۔
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
فیض کے ساتھ زندگی میں کیا گزری اور کیا کیا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ یہاں میں ذکر کروں گا فیض احمد فیض کے اسلوب و فکر کو زندہ رکھنے اور ان کے علمی و ادبی کام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے حوالے سے لاہور میں منعقد کیے جانے والے سالانہ فیض فیسٹیول کا۔
زیادہ دور نہیں بس کچھ سال پہلے کی ہی بات ہے کہ فیض فاؤنڈیشن (جو ان کی بیٹیاں چلا رہی ہیں) نے فیض کے چاہنے والوں کے تعاون سے ”فیض انٹرنیشنل فیسٹیول” کا انعقاد شروع کیا جہاں فیض کے کلام کے ساتھ ساتھ دوسری بیٹھکیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ پچھلے سال 2018 میں اس فیسٹیول میں بھارت کے مشہور لکھاری جاوید اختر اور ان کی اہلیہ اداکارہ شبانہ اعظمی نے بھی شرکت کی تھی جس کے بعد اس میلے کی شہرت کو چارچاند لگ گئے تھے۔
اس سال یہ میلہ ”فیض فیسٹیول” کے نام سے لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں 15 سے 17 نومبر تک منعقد ہوا جس میں فنونِ لطیفہ کی تمام اصناف کا احاطہ کیا گیا اور شعبہ زندگی کے ہر میدان سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس میں شرکت کی۔
اس میلے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنی طرز کا واحد ایونٹ ہے جو 2015 سے باقاعدگی سے ہر سال منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ اس بار بھی اس میں کئی پروگرام بیک وقت منعقد کیے گئے تھے جہاں فلم، ٹی وی، موسیقی، سیاست، ادب، صحافت، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والی کئی معروف ہستیوں نے شرکت کی جن میں اسد عمر، شازیہ مری ، احسن اقبال، نفیسہ شاہ، افراسیاب خٹک، نسیم زہرہ، حامد میر، منیزے جہانگیر، وسعت اللہ خان، وجاہت مسعود، احسن خان، اصغر ندیم سید، ماہرہ خان، علی سیٹھی، سرمد کھوسٹ، سامعہ ممتاز، واسع چوہدری، عدیل ہاشمی، نور الحسن، نمرہ بُچہ، کلپنا دیوی، پیٹر جیکب، سردار رمیش سنگھ اروڑہ، سلیمہ ہاشمی اور فرح یاسمین شیخ شامل ہیں۔
بیک وقت مختلف ہالز میں ہونے والے پروگرامز میں اجوکا تھیٹر کا ڈراما سائرہ اور مائرہ، سماجی مسائل میں میڈیا کا کردار، سیاسی پابندیوں کے دور میں آزاد صحافت، اقلیتوں کے مسائل، عام شہری اور ماحولیاتی بحران، راولپنڈی سازش کیس کا حال، عاصمہ جہانگیر کی یاد میں، پاکستانی سنیما کا مستقبل، پنجاب میں سکھ مت، پاکستان کی خواتین کھلاڑی، سانحہ جلیانوالہ باغ جیسے موضوعات پر ادبی و فکری بیٹھکیں اور رقص و شاعری کے مختلف پروگرام شامل تھے۔ ایک سیشن میں عدیل ہاشمی نے پیانو پر فیض کا کلام خوب صورت انداز میں پڑھ کہ سماں باندھ دیا جب کہ فرح یاسمین شیخ کے کلاسیکل رقص کا سیشن بھی خوب رہا۔
باہر گیلری میں فیض احمد فیض کی زندگی سے متعلق تاریخی تصاویر کی نمائش کی گئی تھی جب کہ لان میں کھانے پینے کے اسٹالز اور کتاب میلہ بھی لگائے گئے تھے، جہاں فیض سمیت بہت سے ادیبوں اور شعراء کی کتابیں سستے داموں مل رہی تھیں۔ اس کے علاوہ پختون اور پنجابی موسیقی اور نوجوان طلباء کا رقص بھی شامل تھا۔
دوسری طرف کچھ مزدور پیشہ اور فیض کے پرانے چاہنے والوں سے جب بات کی تو ان کا یہ کہنا تھا کہ فیض احمد فیض غریب طبقے اور مزدور کا شاعر تھا جسے اب کمرشل کر دیا گیا ہے۔ یہ فیسٹیول اب ان جیسے لوگوں کی پہنچ سے بہت دور کر دیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ کو اس فیسٹیول میں کامریڈ، مزدور و کسان راہ نما اور استاد جگہ جگہ نظر آتے تھے، لیکن مڈل کلاس فن کاروں کو نظرانداز کر کہ اس میلے میں ایلیٹ کلاس کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے جس پر ہمیں تحفظات ہیں۔
بہرحال، دہشت گردی کے عفریت سے تازہ تازہ نکلنے والے معاشرے کے لیے ایسے ادبی و ثقافتی میلے آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں ہر شہر میں سالانہ بنیادوں پر منعقد ہونا چاہیے۔ یہی ادبی میلے ہی ہیں جو ہماری سوچ کو تخلیق کے آسمان میں اڑان بھرنے میں مدد دیتے ہیں۔
بلاشبہہ لاہور میں اس فیسٹیول کا انعقاد اہلِ علم و ادب کے لیے خوش گوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے جسے تمام عمر کے افراد کی شرکت نے انتہائی مقبول بنا دیا ہے۔
بقول فیض ؛
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست تو کہاں ہے آج
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔