دنیا کے سات بلند ترین پہاڑی شہر

مرزا ظفر بیگ  جمعرات 5 دسمبر 2019
جن کا ملکوتی حسن آج بھی دیکھنے والوں کو مسحور کردیتا ہے

جن کا ملکوتی حسن آج بھی دیکھنے والوں کو مسحور کردیتا ہے

مائیکرو اسکوپک بیکٹیریا کی طرح انسان نے بھی انتہائی شدید حالات میں اپنے وجود کو شدید موسموں میں محفوظ بھی کرلیا ہے اور ان حالات میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی سیکھ لیا ہے۔

صحارا کی جھلسا دینے والی شدید گرمیوں سے لے کر سائبیریا کے منجمد کردینے والے ٹنڈرا تک میں انسانی زندگی پائی جاتی ہے اور ان حالات میں بھی لوگ وہاں رہتے ہیں۔ صورت حال اس حد تک بدل گئی ہے کہ ان بلندوبالا پہاڑوں میں جہاں زندگی بچانے والی آکسیجن انتہائی حد تک کم ہوتی ہے، وہاں بھی انسان ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں۔ کم و بیش 140 ملین افراد مستقل طور پر نہایت بلندیوں پر رہ رہے ہیں۔

جن کی بلندیاں ایشیا کے ہمالیاز میں 2,500 میٹر سے لے کر  8,200 فیٹ تک ہوتی ہیں۔ جنوبی امریکا میں انڈیز میں بھی یہی صورت حال ہے اور افریقا کے بلند و بالا مقامات پر ایتھوپیئن Highlandsمیں بھی یہی پوزیشن ہے اور صورت حال تو اس حد تک چلی گئی ہے کہ قرب و جوار کے ملحقہ شہروں میں بھی یہ لوگ رہتے ہیں اور خوب پھل پھول رہے ہیں۔ یہاں ہم دنیا کے سات بہت بلند شہروں اور آبادیوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن میں سے ہر ایک 10,000 فیٹ کی بلندی سے بھی زیادہ بلندی پر واقع ہے۔

٭  La Rinconada  :

یہ پیرو کا ایک شہر ہے جو Peruvian Andes کے دور دراز علاقے کا شہر ہے اور ماضی میں یہ ایک سونے کی کان کا کیمپ تھا جو آج ایک بڑا شہر بن چکا ہے۔ اس پہاڑی شہر یعنی La Rinconadaمیں کم و بیش 50,000 سے بھی زیادہ افراد 16,732 فیٹ یعنی 5,100  میٹرز کی بلندی پر رہتے ہیں۔ یہ شہر ’’دنیا کا بلند ترین شہر‘‘ ہونے کا دعوے دار ہے۔

la-rinconada  حالاں کہ اس شہر نے اپنی معیشت کو مکمل طور پر قریبی سونے کان کے باعث بہت ترقی دی ہے، لیکن اس کے باوجود اس شہر کا بنیادی ڈھانچہ غریب ہے اور اس کا شمار غریب معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اس شہر میں پلمبنگ کا کوئی نظام نہیں ہے اور اسی لیے یہاں گندگی کی نکاسی کو بھی کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں آلودگی کے مسائل بھی ہیں اور انہی کی وجہ سے یہاں کان کنی کے مسائل بھی ہیں۔

اس شہر کے لگ بھگ سبھی مکین یہاں کام کرنے والے کان کن یا ورکر ہیں جو دور دراز مقامات سے روزگار کی تلاش میں یہاں آئے ہیں اور وہ یہاں کسی محفوظ روزگار کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اچھی اور خوش حال زندگی گزار سکیں۔ ان کا ادائیگی کی سسٹم بہت ہی عجیب اور انوکھا ہے جسے یہاں کے لوگ مقامی زبان میں Cachorreo کہتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے ملازمین کسی بھی تن خواہ یا ادائیگی کے بغیر پورے30  دن تک کام کرتے ہیں اور پھر اکتیسویں دن انہیں اجازت ہوتی ہے کہ وہ اس کان سے جتنا خام مال ساتھ لے جاسکیں، اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس کے بعد یہ ورکر کان کن اس خام مال سے جو بھی چیز یا چیزیں نکال سکتے ہیں، وہ ان کی ملکیت ہوتی ہے۔

یہ اس خطے کی کمپنیوں کا تن خواہ یا ادائیگی کا غیر روایتی طریقہ ہے، اس کے باوجود یہاں آنے والے کارکن اسی میں خوش ہیں اور انہیں اس طریقے سے معاوضہ وصول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے ، کیوں کہ وہ جوق در جوق کام کی تلاش میں یہاں آتے رہتے ہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران La Rinconada  کی آبادی 230 فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔

٭  El Alto  :

El Alto نامی یہ شہر بولیویا کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ شہری مراکز میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ اور پھیل رہا ہے۔ اس کے اربن سینٹرز بھی بہت شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ اس کی آبادی 1.1 ملین سے بھی زیادہ ہوچکی ہے اور یہ شہر 13,615 feet یعنی کم و بیش 4150میٹرز کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کا شمار بھی دنیا کے بلند ترین شہروں میں ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں  Alto نامی یہ شہر ملحقہ La Paz کا ایک چھوٹا سا ذیلی قصبہ ہوا کرتا تھا اور یہ  Altiplano highlands پر واقع تھا، لیکن بعد میں بولیویا کے دیہی علاقوں سے1950 کی دہائی میں La Paz کی طرف بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کے باعث یہ خطہ خاصا پھیل گیا اور صرف چالیس سال سے بھی کم عرصے میں اس چھوٹے سے شہر نے ایک بڑے اور معروف شہر کا رتبہ حاصل کرلیا۔

جس خطے میں El Alto واقع ہے، وہ بالکل خشک ہے اور شدید ہے اور اسی لیے1903 تک یہ بالکل غیر آباد تھا۔ لیکن جب جھیلTiticaca پر نئی ریلوے لائن بچھائی گئی اور افریقا کھاڑی کے دائرے تک پہنچا جہاں لاپاز کا ٹرمنس واقع تھا تو یہاں ریلوے ورکرز کے لیے ان کی آبادیوں کے قریب گھر بھی بنائے گئے۔

1925 میں یہاں ایک ہوائی اڈا بھی بنایا گیا جو نئی ایئر فورس کے لیے تعمیر کیا گیا تھا جسے دیکھ کر روایتی بستیوں میں بھی تبدیلیاں واقع ہونے لگیں اور علاقے کا چہرہ بدلتا چلا گیا۔

1939میں El Alto کا پہلا ایلیمینٹری اسکول کھولا گیا، پھر 1950 کے عشرے میں El Alto بہت تیزی اور شان کے ساتھ ترقی کرتا گیا اور پھیلتا چلا گیا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ آبادی La Paz’ water supply کے ساتھ منسلک ہوگئی اور پانی کی پریشانی اس خطے میں ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے اس شہر میں پانی واٹر ٹینکرز کے ذریعے ہی سپلائی ہوا کرتا تھا۔

1985 میں El Alto کا ضلع اور اس کے ملحقہ علاقے سیاسی طور پر La Paz  کے شہر سے علیحدہ ہوگئے اور 1987 میں El Alto ایک شہر کی حیثیت سے انکارپوریٹ ہوگئے یعنی ان کی کوئی الگ اور آزاد حیثیت نہیں تھی۔بس یہ ایک آزاد اور خود مختار شہر بن گیا تھا۔

٭  Potosi  :

یہ شہر یعنی Potosi بھی بولیویا کا ہی دوسرا شہر ہے جو 13,420  فیٹ کی بلندی پر یعنی 4,090 میٹرز کی اونچائی پر واقع ہے۔اس کی بنیاد 1545 میں ایک کان کنی کے ٹاؤن کے طور پر رکھی گئی تھی، جلد ہی یہ ترقی کرتا چلا گیا اور خوب دولت کمانے والا شہر بن گیا یہ دنیا میں اور امریکاز میں سب سے بڑا شہر بھی بن گیا جس کی آبادی 240,000 افراد تک جا پہنچی۔Potosi نامی یہ شہر Cerro de Potosí نامی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے جو ماضی میں چاندی کی کان کے حوالے سے بہت مشہور تھا جہاں سے 4,824 میٹرز کی بلندی پر خوب چاندی ملتی تھی اور اسی لیے اس شہر نے پورے خطے پر اپنی حکم رانی قائم کررکھی تھی۔

The Cerro Rico نامی یہ پہاڑ  Potosí کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خوش حالی کا سبب بھی ہے، کیوں کہ یہ شہر اسپین کے لیے نیو ورلڈ اسپینش امپائر کے دوران چاندی کی سپلائی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ تھا۔یہ  Potosí ہی تھا جہاں سے اسپین کے لیے چاندی کی سپلائی بڑی مقدار میں ہوا کرتی تھی۔ 1556 سے لے کر 1783 کے دوران  Cerro Rico سے خالص چاندی یعنی 45,000 شارٹ ٹن بھیجی گئی تھی جس میں سے 9,000 شارٹ ٹن چاندی اسپین کے شاہی طبقے کو بھیجی جاتی تھی۔

اتنی زیادہ اور بے تحاشہ چاندی کی کان کنی سے یہ پہاڑ بھی خود بہ خود ہی کم ہونے لگا اور پھر چند سو میٹرز تک رہ گیا۔ پھر 1672 میں چاندی کے سکے ڈھالنے کے لیے ایک ٹکسال قائم کی گئی تھی اور ساتھ ساتھ پانی ریزروائرز بھی تعمیر کئے گئے تھے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اس موقع پر 86سے بھی زیادہ چرچ تعمیر کیے گئے تھے۔

9

جس کے نتیجے میں اس شہر کی آباد ی بڑھ کر لگ بھگ دو لاکھ نفوس تک جا پہنچی جس کے بعد یہ شہر نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا بلکہ دولت مند ترین شہر بھی بن گیا۔ 1800 کے بعد چاندی کی کانوں کی پیداوار کم کردی گئی اور اس کی جگہ ٹن کو اس کی مین پراڈکٹ بنادیا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ وہاں سستی کے ساتھ معاشی زوال کا آغاز ہوگیا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ چاندی کی پہاڑی کان پہلے کی طرح آج تک چاندی فراہم کررہی ہے۔ لیکن ایک تو اس شہر کے کان کنوں یا ورکرز کی معاشی حالت بہت خراب ہے، پھر ان کی حفاظت کے لیے بھی مناسب انتظامات نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی حفاظتی اوزار و آلات ہیں، پھر یہاں کے کان کن سارا سارا دن دھول مٹی میں اٹے رہتے ہیں، اسی لیے ان ورکرز کی اوسط زندگی کم ہوتی چلی جارہی ہے، کیوں کہ ان کے حلق اور پیٹ میں سارا دن دھول مٹی جاتی ہے۔ اس سے ان میں silicosis یعنی سلیکون کی بیماری بھی بڑھ رہی ہے اور یہ لوگ چالیس سال کی عمر تک موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

٭  Shigatse  :

Shigatse اصل میں عوامی جمہوریہ چین کے Tibet Autonomous Region (TAR) خطے کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی 100,000 افراد پر مشتمل ہے اور یہ تبت کے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہ شہر 12,600 فیٹ یعنی 3,840 میٹرز کی بلندی پر واقع ہے اور یہ مغربی تبت میں Yarlung Tsangpo (aka Brahmaputra) اور  Nyang River اور(Nyang Chu or Nyanchue) کے سنگم پر واقع ہے۔Shigatse ایک سیدھی سادی بنجر میں پر بلند پہاڑوں کے درمیان میں واقع ہے اور شہری علاقے میں یہYarlung Zangbo River کے جنوب میں جنوب وسطی تبت کے خود مختار خطے میں واقع ہے۔ یہ شہر Ü-Tsang  صوبے کا قدیم دارالحکومت تھا اور فی الوقت یہ جدید Shigatse کمشنری میں واقع ہے جو TAR. کا انتظامی ضلع ہے۔

٭  Juliaca  :

Juliaca جنوب مشرقی پیرو کے پونو ریجن میں سان رومن کا کیپیٹل سٹی ہے۔ یہ خطے کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی کم و بیش 225,146 نفوس پر مشتمل ہے اور یہ 2007کے اعداد و شمار کے مطابق 12,549 فٹ یا سطح سمندر سے 3,825 میٹرز کی بلندی پر Collao Plateau پر واقع ہے۔یہ Puno کے خطے میں سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ ساتھ ہی یہ اس خطے میں سب سے بڑا ٹرانزٹ پوائنٹ ہے اور اسی لیے پیرون کے جنوبی شہروں کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات قائم ہیں جن میں درج ذیل شہر شامل ہیں:

Arequipa،  Puno، Tacna, Cuzco،  Ilo، اور جمہوریہ بولیویا۔

٭  Oruro  :

یہ Urusky کے خطے میں واقع چاندی کی کان کا مرکز ہے جو یکم نومبر 1606 کو قائم ہوا تھا۔Oruro بولیویا کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 2010 کی مردم شماری کے مطابق235,393  افراد پر مشتمل ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے 12,159 فیٹ یا 3,706میٹرز کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سے چاندی کی کان کے خاتمے کے بعد Oruro انیسویں صدی کے اواخر میں دوبارہ قائم ہوا۔مگر دوسری بار Oruro ٹن کے مائننگ سینٹر کی حیثیت سے سامنے آیا۔ ایک طویل عرصے تک Oruro کی La Salvadora کی ٹن کی کان دنیا میں ٹن کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ذریعہ کم پیداواری بنتا چلا گیا اور اس کے بعد اس پر پھر زوال آگیا، حالاں کہ اس کا بنیادی ایمپلائر آج بھی کان کنی کی صنعت ہے۔

٭  Lhasa  :

Lhasa ایک چھوٹا سا طاس ہے جو ہمالیائی پہاڑوں سے گھر ہوا ہے۔Lhasa کی بلندی لگ بھگ 11,800فیٹ یا 3,600 میٹرز ہے اور یہ تبت کی سطح مرتفع کے مرکز میں واقع ہے جہاں قریبی اور ملحقہ پہاڑ5,500 میٹرز یا 18,000 فیٹ تک بلند ہیں۔The Kyi River  یا ( Kyi Chu) یارلونگ دریائے زینگ بو کا معاون ہے جو شہر کے جنوبی حصے کے ساتھ بہتا ہے۔

اس دریا کو مقامی تبتی “merry blue waves” کہتے ہیں جو برف سے ڈھکی چوٹیوں اور Nyainqêntanglha پہاڑوں کے درمیان سے بہتا ہے اور دریائے یارلونگ زینگ بو کو Qüxü کے مقام پر خالی کردیتا ہے۔ یہ اس کے بعد ایک نہایت سحرانگیز حسن کا منظر پیش کرتا ہے۔ Lhasa تبتی سطح مرتفع پر واقع دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جس کی آبادی 550,000 نفوس سے بھی زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس شہر میں متعدد اہم ترین تبتی بودھ مقامات ہیں جیسے پوٹالا محل، جوکھنگ مندر اور Norbulingka  کے محلات۔ان میں سے زیادہ تر  Chengguan District میں شہر کی سیٹ کی حیثیت سے واقع تھے۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔