بُک شیلف

رضوان طاہر مبین  جمعرات 5 دسمبر 2019

فوٹو:فائل

فوٹو:فائل

دل کش لفظوں میں پروئی ہوئی سنجیدگی

1
شان الحق حقی جیسا ماہر لسانیات اور محقق جب مزاح نگاری کے میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے، تو پھر اس کی کیا صورت گری ہوتی ہے، اسے لفظوں میں اور وہ بھی محدود لفظوں میں بتا دینا کم سے کم اس طالب علم کے بس کا تو روگ بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ گذشہ دنوں ’اوکسفرڈ‘ کے تحت حقی صاحب کے باغ وبہار قلم کی یہ ’بہار‘ بہ عنوان ’’نوک جھوک‘‘ شایع کی گئی ہے۔۔۔ 263 صفحات کی کتاب کی قیمت 595 روپے ہے۔

اس کے پہلے حصے میں طنزیہ اور فکری پہلو لیے ہوئے 13 مضامین جلوہ افروز ہیں، جب کہ دوسرے حصے میں ’الف‘ اور ’ب‘ کے مختلف موضوعات پر ’نوک جھوک‘ کی صورت میں اردو زبان سنور رہی ہے۔۔۔ کیسے کیسے عام سے موضوعات شان الحق حقی کی نوک قلم پر آکر گیرائی اور گہرائی پا لیتے ہیں، یہ پڑھ کر ہی اندازہ ہو پاتا ہے، پھر ایک چھوٹے سے جملے میں لفظیات، معنویت اور اردو لسانیات کے جو جوہر ہیں۔

اس کے تو کیا ہی کہنے۔۔۔ لیکن یہ صرف طنز ومزاح یا شگفتگی قطعی نہیں، بلکہ کئی جگہوں پر شیریں ذخیرہ الفاظ میں کڑوے تر حقائق اور پرکشش شبدوں میں سنجیدہ تر موضوعات بھی پیش کیے گئے ہیں۔۔۔ ’عرض مصنف‘ میں شان الحق حقی رقم طراز ہیں کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ تخلیق کار ایک واسطے کی حیثیت رکھتا ہے، ورنہ اس کی تخلیقات، بلکہ وہ خود بھی معاشرے کی تخلیق ہوتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کو حق ہے کہ وہ اپنی اس ملکیت کے ساتھ جو سلوک چاہے کرے اور معنی چاہے اسے پہنائے، وہی معتبر ہوں گے، نہ کہ مصنف کا قول، چاہے وہ غالب ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

۔۔۔
گئے وقتوں کی پرچھائیاں اوردردِ رفتہ کا بیان

2
راشد اشرف نے ’زندہ کتابوں‘ کے سلسلے میں ایک جلد میں دو کتابیں ’یادوں کے گلاب اور ڈربے‘ یک جا کی ہیں۔ 535 صفحات تک دراز اس کتاب کے 317 صفحات تک ’یادوں کے گلاب‘ کے 61 مضامین شامل ہیں، جسے پڑھیے تو نگاہوں کے سامنے بیتے زمانے کے مناظر چلنے لگتے ہیں، یاسیت اور اداسی امنڈ امنڈ کر آتی ہے، ان صفحات میں آنسو، گریہ اور ہجر نمایاں ہے۔

اِن کے لفظوں میں ایک بے چینی ہے، جو سطر سطر میں بسی ہے، اس کا وہ خود اعتراف بھی کرتے ہیں، شاید یہی تلاش ہے، جسے وہ ہر مضمون میں کوئی نہ کوئی معنی پہنا دیتے ہیں۔ آپ اسے ادب وتاریخ کے حوالے سے کسی خانے میں رکھیے، یا سوانحی داستان قرار دے دیجیے۔ اس کی اپنی ادبی اہمیت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی، پھر اس میں مرصع زبان کا لطف بھی ملتا ہے۔

خود نوشت کا تو رنگ ہے ہی۔ اے حمید کے سوانحی ناول ’ڈربے‘ میں درد اور رنج کا یہ بیان ذرا اور پھیل جاتا ہے، پچھلے صفحوں میں جو کوئی ایک اداسی عنوان سے شروع ہو کر چند صفحوں کے بعد اگلے عنوان سے پہلے ختم ہو جاتی تھی، اور پھر اس کی جگہ کوئی دوسرا ہجر لے لیتا تھا، لیکن ’ڈربے‘ میں گئے وقت کے ایک ہی درد کی بازگشت ہے، جس میں سو، سو طرح کے بیان ملتے ہیں، یہ ہجرت اور ہجرت کے بعد کی ایک داستان الم ہے۔ اپنی دھرتی چھوٹنا اور پھر ایک اور جگہ آکے پڑ جانا اور پھر پس منظر میں مشاہدے، امنڈتے خیالات اور پیش منظر میں نئے المیوں کی کسک بہت گہری ہے۔۔۔کتاب کی ضخامت کے باوجود قیمت صرف 500 روپے ہے۔

۔۔۔
ایک متحرک زندگی کا احوال


’’ٹنڈو آدم سے کراچی‘‘ ڈاکٹر رضوان اللہ خان کی یادداشتیں ہیں، جس کا آغاز ان کی پیدائش کے بعد ان کا نام رکھے جانے کے مرحلے سے شروع ہوتا ہے۔ کتاب میں وہ اپنے والد کو بھی ’سالار صاحب‘ سے مخاطب کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔ تب ہجرت کا واقعہ تازہ تھا اس لیے انہیں اپنی تصاویر کھنچوا کر ہندوستان بھجوانا بھی یاد ہے۔ وہ اپنے عقائد کے حوالے سے بھی اظہار خیال کرتے ہیں، کچھ آبائی تہذیب کی روایاتوں کا ذکر اور کچھ آنکھوں دیکھے دل چسپ واقعات بھی کتاب میں شامل کیے ہیں۔

اپنے اساتذہ کا بھی خصوصی طور پر ذکر ہے، انہوں نے کچھ وقت بعد ٹنڈوآدم سے حیدرآباد کا رخ کیا اور پھر کراچی آگئے۔ وہاں پیش آنے والے سیاسی حالات اور اپنے مشاہدات کا بھی چیدہ چیدہ ذکر کتاب میں موجود ہے۔ ’زندہ کتابوں‘ کے بانی راشد اشرف نے یہ تصنیف اصرار کر کے قلم بند کرائی ہے، یعنی اس کی طبع اول ہی ’زندہ کتابوں‘ کے سلسلے کے تحت عمل میں آئی ہے۔

کتاب کے آخری باب میں مصنف کے روحانی تجربات کا ذکر بھی شامل ہے۔ 448 صفحات کی یہ کتاب چھے ابواب میں بانٹی گئی ہے، پھر ان ابواب کو مزید ذیلی عنوانات میں بھی تقسیم کیا گیا ہے، کتاب کے آخر میں مصنف نے اپنی زندگی کی اہم شخصیات وغیرہ کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ قیمت 450 روپے ہے۔

۔۔۔

بچوں کے لیے ’بڑی کہانیاں‘


کہنے کو وقاص اسلم کی کتاب ’’اللہ کے دوست‘‘ احادیث مبارکہ سے آراستہ بچوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے، لیکن سچ پوچھیے، تو ہم نے اِس میں بہت سی ’بڑی کہانیاں‘ پائیں۔۔۔ 96 صفحات کی اس کتاب میں 16 سبق آموز کہانیاں سجی ہیں، ہر کہانی میں ’سیرت طیبہ‘ کا پیغام اس کا حُسن ہے، یا یوں کہیے جس پیغام مبارکہ کے گرد کہانی بُنی گئی ہے، اس بُنت کی داد دل سے نکلتی ہے۔۔۔ البتہ ہر حدیث کے ساتھ کتاب کا حوالے کی ضرورت شاید نہیں تھی۔

کیوں کہ یہ کہانیاں تو بچوں کے لیے ہیں، نہ کہ یہ کوئی تحقیقی مقالہ ہے، جہاں حوالہ دیا جانا لازمی ہو۔ بہرحال ہر کہانی اپنے پیغام کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط مرکزی خیال رکھتی ہے، جس میں بڑی خوبی یہ ہے کہ بہت سی عام نصیحتیں پڑھ کر بھی کہیں تکرار کا احساس نہیں ہوتا۔ بالخصوص ’بلاعنوان‘ نامی کہانی میں تو سماجی المیہ نوحہ کناں ہے، جس میں ایک مالکن اپنے بچوں کے پرانے کپڑے کوڑے دان کی نذر کر دیتی ہے، لیکن اپنی ملازمہ کے بچوں کو دینا اپنی توہین سمجھتی ہے۔۔۔!‘ یہ کہانی تو بڑوں کو بھی جھنجوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’گلستان کتاب گھر‘ (خانیوال) نے عمدہ زبان وبیان کے ساتھ بچوں کے ادب میں ایک اچھا اضافہ کیا ہے۔

۔۔۔
فلسفہ وتصوف کا بیان


مولانا صلاح الدین علی نادر عنقا ’پیر اویسی‘ کی کتاب ’’عرفان وتصوف، حقیقت دین‘ میں فلسفیانہ انداز میں مذہب سے متعلق بہت سے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ کتاب کے فلیپ کے مطابق مصنف ’پیر اویسی‘ روحانیت کے ساتھ طبعیات، ریاضیات، مابعد الطبعیات سے لے کر فن تعمیر اور فلسفے وغیرہ تک کے میدانوں کے شناور ہیں، جس سے ہم ان کے طرز اظہار کی جہتوں کا اندازہ بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔ اس کتاب میں مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے حوالوں کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔ خاکی سرورق سے آراستہ اس کتاب کی ضخامت 96 صفحات ہے، اس کتاب کے ناشر ’مطبوعات مکتبِ طریقیتِ اویسی شاہ مقصودی‘ کراچی ہیں۔

۔۔۔
تاریخ اور خود نوشت کے رنگ لیے ہوئے خاکے


ہمیں تو رام لعل کے ’شخصی خاکوں‘ کی اس کتاب میں خود نوشت کا گہرا رنگ بھی چھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بہت سی شخصیات کے باب میں انہوں نے مذکورہ شخصیت سے اپنی خط وکتابت کو بھی تحریر کا حصہ بنایا ہے، جو کہ خاکوں میں عمومی طور پر روا نہیں ہوتا۔ رام لعل کو بھی اپنی ان تحریروں کو خاکہ کہنے پر زیادہ اصرار نہیں۔

بلکہ ’پیش لفظ‘ میں وہ اسے تاثراتی مضامین کہتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں کہ ’اس میں خاکہ نگاری، تنقیدنگاری اور افسانہ نگاری تینوں اصناف شیر وشکر ہو گئی ہیں۔‘ کتاب کی ورق گردانی کیجیے، تو دیکھیے کہ اس کے مندرجات میں تلوک چند محروم، فراق گورکھ پوری، سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، فیض احمد فیض، خواجہ احمد عباس، جگن ناتھ آزاد سے قتیل شفائی اور فہمیدہ ریاض تک جیسی، گئے وقتوں کی شخصیات کا بیان ہے۔

پھر ان شخصیات کے حوالے سے بہت سے اہم تاریخی واقعات کا بھی ایک سلسلہ دراز دکھائی دیتا ہے، اس لیے ادبی اور سوانحی کے ساتھ ساتھ اس کتاب کو بجا طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تصنیف بھی کہا جا سکتا ہے۔۔۔ رام لعل کی یہ تصنیف ’دریجوں میں رکھے چراغ‘ 280 صفحات ہر مشتمل ہے، جسے راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 31‘ کے ذریعے نئے قارئین تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ ’بزم تخلیق ادب‘ کی شایع کردہ اس مجلد کتاب کی قیمت500 روپے ہے۔

۔۔۔
کچھ ’بھولی ہوئی‘ کہانیوں کی یاد


ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی دو کتابیں ’بھولی ہوئی کہانیاں‘ (اشاعت اول 1995ء) اور ’ہفت محل‘ (اشاعت اول 1994ء) ایک جلد میں یک جا کی گئی ہیں۔ اول الذکر ابتدائی 129 صفحات تک دراز ہے، جب کہ موخرالذکر آخری 182 صفحات تک تمام ہوتی ہے۔ ’بھولی ہوئی کہانیاں‘ کے حوالے سے مصنف نے کہا ہے کہ ’’یہ دوسروں کی نہیں، بلکہ خود میری کہانیاں ہیں، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔‘‘ گیارہ مضامین میں علی گڑھ، پھر علی گڑھ کے احباب، جبل پور اور پھر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور دیگر چند ایک شخصیات کو موضوع کیا گیا ہے۔

دوسری کتاب ’ہفت محل‘ کے حوالے سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ لکھتے ہیں کہ یہ مضامین کچھ علمی ہیں اور کچھ تجرباتی، کہتے ہیں کہ ان مضامین سے ان کی زندگی کے مراحل کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں عربی زبان، تحقیق، اسلامی تصوف اور مثنوی مولانا روم سمیت پانچ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں کتابوں کا تاثر مشاہداتی اور تجرباتی ہے، کہیں کہیں روزنامچے کا رنگ بھی غالب ہے، جس کی وجہ سے احوال خاصا تفصیلی معلوم ہوتا ہے، لیکن مصنف کی شخصیت کھلنے کے ذیل میں ہم اسے خوبی ہی شمار کریں گے۔ مجلد کتاب کی قیمت 400 روپے ہے، کتاب کی اشاعت کا اہتمام راشد اشرف نے کیا ہے، جب کہ اشاعت ’فضلی بک سپر مارکیٹ‘ سے معروف سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت عمل میں آئی ہے۔

۔۔۔
بٹوارے کے درد میں گھلیہوئی ایک تہذیب


1947ء کے بٹوارے کو آٹھویں دہائی لگ چکی ہے۔۔۔ اب اُس ہنگام کو دیکھنے والی آنکھیں سمٹتی جا رہی ہیں۔۔۔ تاریخ عالم کا یہ ایک ناقابل فراموش واقعہ جو ہجرت اور کشت وخون سے ہی مزین نہیں ہے، بلکہ اپنی وسعتوں میں بہت سے تہذیبی اور زمانی المیے بھی سموئے ہوئے ہے۔۔۔ آنے والی نسلوں کے لیے اِس کا سرمایہ بس جتنا محفوظ ہو سکا وہ ہوگیا، اب اس میں اضافے کے امکانات گھڑی کی نہ رکنے والی ٹک ٹک سے بہت محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ زیر تبصرہ خود نوشت کچھ ایسی ہی یادوں سے آراستہ ہے، جس کی اشاعت اول ہی راشد اشرف کے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت عمل میں آئی ہے۔

اگر آپ گئے وقتوں کو سراپا مجسم دیکھنے والے لفظ پسند کرتے ہیں، تو یقیناً اس کتاب کے ایک ایک لفظ میں بسے ہوئے اُس ماضی کی لذت اور چاشنی کو سیدھا اپنے دل پر محسوس کریں گے۔۔۔ رقت جذبات سے ممکن ہے کئی بار آپ کی نظر بھی دھندلا جائے اور آپ کو مطالعہ جاری رکھنے کو اپنی پلکیں پونچھنا پڑیں۔۔۔ کیوں کہ اس کتاب کی راقمہ صوفیہ انجم تاج نے تو پاکستان ہجرت نہیں کی، لیکن ان کی بہن ’پٹنہ‘ سے کراچی بیاہ کر آئیں۔

جب کہ مصنفہ خود شادی کے بعد لندن چلی گئیں۔۔۔ یوں اس کتاب کے ورق ورق میں زمینی اور زمانی دونوں طرح کا ہجر پوری طرح گریہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند لکھتے ہیں کہ ’’صوفیہ انجم تاجؔ کی یہ کتاب تذکرہ نویسی اور خود نوشت سوانح کے کوائف نگاری یعنی باقیات نویسی کا وہ نمونہ ہے، جو اردو میں ’نہیں کے برابر ہے۔

مصنفہ ایمان داری سے اپنے بچپن اور لڑکپن کی یادوں کو جز دان کی گرہیں کھولتی چلی گئی ہیں اور جو کچھ بھی برآمد ہوا ہے اسے قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔‘‘ یہ کتاب ’مثال پبلی کیشنز‘ (فیصل آباد) سے شایع کی گئی ہے، صفحات 256 اور قیمت 500 روپے ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک نہایت متاثرکُن تصنیف ہے، شمس الرحمن فاروقی صاحب بالکل درست کہتے ہیں کہ ’’صوفیہ انجم تاجؔ ہمارے شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی یادوں کے پردے میں ایک پوری زندگی اور ایک پوری تہذیب بیان کر دی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔