صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا اعلان

ایڈیٹوریل  ہفتہ 7 دسمبر 2019
امریکی صدرکسی کو بھی کچھ کہہ سکتے ہیں اور پھر ان پر بھی تنقید کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ فوٹو : فائل

امریکی صدرکسی کو بھی کچھ کہہ سکتے ہیں اور پھر ان پر بھی تنقید کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ فوٹو : فائل

امریکی صدرکا شمار یوں تو دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں ہوتا ہے، لیکن اس وقت صورتحال خاصی دلچسپ رخ اختیارکر چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان ایوان نمایندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ایک نیوزکانفرنس میں کیا ہے۔

ان کے مطابق ٹرمپ نے صدارتی عہدے کو نجی اور سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے اور وہ امریکی نظام کوکرپٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ جواب آں غزل کے طور پر صدر ٹرمپ نے نینسی پلوسی کی پریس کانفرنس سے کچھ دیر قبل اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اگر آپ میرا مواخذہ کرنے جا رہے ہیں تو فوراً کریں تاکہ سینیٹ میں ہمارا منصفانہ ٹرائل ہو اور ہمارا ملک معمول کی زندگی کی جانب لوٹ سکے۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایک دلچسپ شخصیت کے حامل ہیں جوکہ روایتی سابق امریکی صدور سے ہمیں یکسر مختلف نظرآتی ہے۔ ان کی سیاسی مخالف نینسی پلوسی کے بقول ہماری جمہوریت داؤ پر لگی ہے۔ مواخذے کے علاوہ صدر نے ہمارے لیے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ اب صورتحال کچھ یوں بنے گی کہ عدالتی کمیٹی مواخذے کی کارروائی کا آغاز کرے گی۔ کمیٹی کی منظوری کے بعد مواخذے کا بل ایوان میں پیش کیا جائے گا۔ وہاں پر کیا صورتحال پیش آتی ہے۔

اس بات کا یقیناً سب کو شدت سے انتظار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکی صدر اور میڈیا کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہیں، یوں سمجھ لیں کہ دونوں کی آپس میں بنتی نہیں ہے۔ تازہ ترین شکوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ ہے کہ میڈیا غلط خبروں کے ذریعے نیٹو سے متعلق میرے برطانیہ کے کامیاب دورے کوگھٹا کر بتانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ نیٹوکے رہنماؤں کو سالانہ 130 بلین ڈالر اور تین سال میں400 بلین ڈالر زیادہ ادا کرنے پر راضی کیا، جب کہ امریکا کے لیے رقم میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

مزید برآں برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے قریب منعقدہ نیٹو سربراہی اجلاس میں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی غیر رسمی گفتگو وائرل ہوئی جس میں ٹرمپ نے جسٹن ٹروڈوکو تنقید کا نشانہ بنایا اور انھیں ’’بہروپیا ‘‘ قرار دیا۔ امریکی صدرکسی کو بھی کچھ کہہ سکتے ہیں اور پھر ان پر بھی تنقید کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔بہرحال ان کے خلاف مواخذے کی تحریک بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں، اس کا سب کو انتظار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔