کشمیر کے بعد بھارت کا اگلا شکار مسلم پناہ گزین

خالد محمود رسول  ہفتہ 7 دسمبر 2019

کشمیر کی آئینی حیثیت کو بزور تبدیل کرنے کے بعد بی جے پی سرکار نے مسلم دشمنی کا اگلا قدم اٹھا لیا۔ ساٹھ سال سے بھی قبل پاس کیے گئے قانونِ شہریت میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا ترمیمی مسودہ اسی ہفتے کابینہ نے منظور کر لیا۔ یہ مسودہ منظوری کے لیے اب ایوانِ زیریں بھیجا جائے گا۔ اپوزیشن اور سوشل میڈیا پر شدید مخالفت کے باوجود بی جے پی آئین کے سیکولر نین نقش کو ہندوتوا کا رنگ دینے پر عمل پیرا ہے۔

بھارت نے اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلقہ شقوں میں تبدیلی کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو یونین میں ضم کرنے کا یکطرفہ اقدام اٹھایا۔ ۔ جموں و کشمیر میں کرفیو کو چار ماہ سے زائد ہونے کو آئے ہیں لیکن حکومتی جبر کی طویل رات کی سحر نظر نہیں آ رہی۔

چار ماہ سے زائد مسلسل کرفیو نے زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ کاروبارِ زندگی معطل ہے، کاروبار ، بازار، اسکول بند اور عوام گھروں میں محصور ہیں۔ اربوں روپوں مالیت کے سیب اور دیگر فروٹ گل سڑ گئے لیکن دہلی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

غیر آئینی اقدام پر عوام کے غیض و غضب کا ایساخوف  ہے کہ مرکزی سرکار طویل محاصرے اور ریاستی جبر کے باوجود  کرفیو اٹھانے پر تیار نہیں ہے۔ ریاست میں آزادانہ داخلے اور نقل و حرکت پر بھی پابندیاں ہیں۔ میڈیا اور غیر ملکیوں کو  صورت حال جاننے کے لیے آزادانہ آمد و رفت کی اجازت نہیں۔ بی جے پی حکومت کے اس اقدام نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا۔ اپنے انتخابی وعدے اور ایک دیرینہ مطالبے کو پورا کرکے اپنے تئیں ہندوتوا کے ایجنڈے کو پورا کرنے کا خواب اس نے پورا کر لیا۔ اب وقت فیصلہ کرے گا کہ آیا کشمیر ایک تر نوالہ تھا یا اس اقدام سے بھارت کے آئینی اور سیاسی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

ابھی جموں و کشمیر کی صورتحال سنبھلی نہ تھی کہ حسبِ توقع بی جے پی کی حکومت اپنے اگلے شکار پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ بھارت میں شہریت کا قانون 1955 میں منظور ہوا۔ اس قانون میں شہریت کے حقوق منظور ہوئے یعنی  کون کون سی صورتوں میں شہریت کا حق تصور ہوگا۔ مثلاً  پیدائش، اندراج کی درخواست، شہریت عطا کیے جانے اور وراثتی یعنی Descent کی صورت میں وغیرہ۔

اس قانون کی رو سے شہریت اختیار کرنے یا دینے میں کوئی مذہبی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہ قانون بھارت کے سیکولر آئین کے مطابق تمام لوگوں کے لیے یکساںحقوق فراہم کرتا ہے لیکن اب اس قانون میں غیرقانونی طور پرآئے مہاجرین یا پناہ گزینوں کو شہریت دینے کی شقوں میں ترمیم کے ذریعے مسلم مہاجروں اور پناہ گزینوں کو شہریت کے لیے نااہل قرار دیا جارہا ہے۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی پناہ گزین یا مہاجرین اس قانون کی حد تک غیر قانونی یعنی illegal immigrants تصور نہیں ہوں گے۔ بلکہ انھیں شہریت کے لیے درکار گیارہ سالہ مدت کو کم کرکے چھ سال کرنے کی تجویز ہے۔

یوں اس فہرست میں اب مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جب کہ بھارت کے سیکولر آئین میںمذہب کی بناء پر کسی بھی شخص سے مختلف  سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں بنگلہ دیش اور میانمار سے مسلمان پناہ گزینوں کی خاصی تعداد گاہے گاہے بھارت میں آتی رہی۔  شمال مشرقی ریاستوں میں یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔

آسام میں اس سے الٹ یعنی ہندوؤں کی کثیر تعداد میں آمد سے مقامی آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے اندیشے نے کئی بار حالیہ سالوں میں فسادات کو بھی جنم دیا۔ ماضی میں روہنگیا مسلمان مہاجرین پر بھی بھارت ہمیشہ ناخوش رہا ۔ آسام و دیگر ریاستوں میں قومی شہریت رجسٹر میں اندراج کے لیے دو تین نسلوں سے مقیم مسلمان خاندانوں سے شہریت یا وراثت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ یوں ان علاقوں میں ایسے مسلمان خاندانوں میں خوف و ہراس اور مستقبل کی بے یقینی نے ڈیرہ جما لیا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام اپوزیشن کا  بیانیہ یہ ہے کہ یہ ترمیم بھارتی آئین کی سیکولر روح سے متصادم ہے۔ ایک اور نمایاں اپوزیشن لیڈر ییچوری کے بقول یہ ترمیم غیر آئینی ہے اور اسی لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بھارت کے شہری ہونے کے لیے مذہب، رنگ، نسل، علاقے، صنف اور ذات کی کوئی تخصیص نہیں ہے، کون کیا کھاتا ہے، کس مذہب کا پیروکار ہے، کیا کام کرتا ہے اس کا ان کی شہریت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے یہ ترمیم قابلِ قبول نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری ڈی راجہ نے بھی اس ترمیم پر سخت تنقید کی۔

ان کے بقول ہم اس ترمیم کے مخالف ہیں۔ بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت  کی حامل شق 370 کو تبدیل کرکے جموں و کشمیر کو ایک شدید بحران میں دھکیل دیا ہے ۔ شہریت کے قانون میں اس ترمیم  کے ذریعے وہ ملک میں ایک نیا انتشار پھیلانا چاہتے ہیں بالخصوص شمال مشرقی ریاستوں میں اس ترمیم کے دوررس اثرات ہوں گے۔ اپوزیشن اور سوشل میڈیا پر سخت مخالفت کے باوجود بی جے پی اس ترمیمی بل میں مذہب کو بنیاد بنانے پر کیوں بضد ہے؟

بقول بے جے پی حکومت مسلمانوں مہاجرین اور پناہ گزینوں کو بھارت میں شہریت کے لیے اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ وہ دنیا بھر میں کسی بھی اسلامی ملک میں پناہ لے سکتے ہیں۔ اس بیانئے کا ایک واضح مقصد یہ بتلانا  بھی مقصود ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ جبر روا رکھا جا رہا ہے۔

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے۔ جمہوریت میں اکثریت کو حکومت کرنے کا اختیار ملتا ہے۔ بھارت میں جمہوریت کے طفیل ہی بی جے پی  حکومت میں آئی ہے لیکن یہ بھی ایک طرفہ تماشہ ہے کہ جس آئینی ڈھانچے کی بنیاد پر بی جے پی حکومت کرنے کی مجاز ٹھہری، اس نے اسی آئین کی روح کو ہی بدلنے پر کمر کس لی ہے۔ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ انھیں اکثر سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے مذہبی تعصب کا سامنا رہا ہے۔

ہندو مسلم فسادات اس تعصب کی خوفناک شکل رہے  ہیں لیکن دیگر سیاسی جماعتوں نے کم از کم سیاسی اور آئینی طور پر سیکولر بھرم کو قائم رکھنے کی کوشش کی ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا البتہ آئین کی اس روح سے متصادم ہے کہ  ان کی سیاست کی بنیاد ہی بھارت کو ہندوتوا ریاست بنانے  پر ہے۔ بھارت کے معروف تاریخ دان ڈاکٹر رام چند گوہا کے بقول بھارت کی بنیاد میں کئی فالٹ لائنز ہیں جن میں مذہب ایک اہم اور خطرناک ترین فالٹ لائن ہے۔ بی جے پی اپنے ہندوتوا جنون  میں مبتلا ہے۔مسلم اقلیت کو  Single out کرنے کے اس جنون میں مودی سرکار اور بی جے پی نے بھارت کے آئین کی روح کو کشمیر کے بعد ایک اور چرکا لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔