گھر، گور اور پشاور

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 7 دسمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

اگرانصاف بلکہ تحریک انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس جھگڑے کی ساری ذمے داری کپتان صاحب پر آتی ہے کہ پہلے کپتان صاحب ہی نے حضرت مولانا کی طرف زبان ماری تھی اور ’’ای ی ی‘‘کیاتھا کیونکہ کپتان صاحب کی ابتدا ہی سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ ہرکسی کو  ’’زبان مارتے‘‘تھے اور’’ای ی ی‘‘کرتے تھے بلکہ یہ ان کی مستقل عادت ہے۔

یقیناً اب پوچھیں گے کہ یہ ’’زبان مارنا‘‘اور’’ای ی ی‘‘کیاہوتاہے لیکن ہم پوچھے بغیربتاتے ہیں کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں ان میں ’’ای ی ی‘‘ کا واقعہ تو پراناہے اور’’زبان مارنے‘‘کا واقعہ بالکل نیا نویلا ہے بالکل پاکستان کی طرح۔ہوا یوں کہ ہمارے ایک پشتو زبان کے محقق اور اسکالر ہیں ہم ان کو بھی اور ان کے بارے میں بھی سنتے رہے ہیں کہ بہت زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔

اب وہ چل چلاؤ کی عمر میں ہیں تو ہمیں تجسس ہوا کہ ان کا کوئی تحقیقی کام ابھی تک منظرعام پرکیوں نہیں آیا۔بڑی مشکل سے ان کا نمبر ملا ۔ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم ان کے پاس ملنے کے لیے سوات آرہے ہیں فون ملنے پر انھوں نے بتایا کہ اب تو بالکل نہ آو کہ میں اسلام آباد میں ہوں یہاں کچھ لڑکیاں ہیں جو اپنے پلے سے میری کتابیں چھپوانا چاہتی ہیں، پانچ دن یہاں رہوں گا پھر پوچھا کہ ہم کیوں ان سے ملنے آرہے ہیں۔ ہم نے بتادیا کہ ایک زمانے سے آپ کے بارے میں سنتے آرہے ہیں لیکن آپ نے اپنا کالم یا علم ابھی تک چھپوایا نہیں۔

اگرکوئی دقت ہو تو ہم آپ کی مدد کریں وہ ہماری بے خبری پر خفاہوئے، کہا میری تو اب تک چالیس سے زیادہ کتابیں چھپ چکی ہیں لیکن زیادہ تراردو اور انگریزی میں ہیں جو لاہور اور اسلام آباد کے مختلف اداروں نے چھاپی ہیں جن میں سے اکثرختم ہوچکی ہیں اور تم ابھی تک میری کتابوں سے بے خبرہو؟۔ہم نے اعتراف کرلیا تو پھر بولے کہ میں تو تم سے خفاہوں تم نے فلاں تقریب میں میری طرف زبان ماری تھی۔ہم نے حیران ہوکرپوچھاکب کیسے؟لیکن جواب ملنے سے پہلے ہی ہماری بدقسمتی جو ہمیشہ ہمارے ساتھ لگی رہتی ہے جلوہ گرہوئی موبائل بیلنس ختم ہونے پر ٹوں کرکے بند ہوگیا۔

دوسرے دن بیلنس برابر کیا لیکن اب وہ اٹھاتے نہیں کوئی بیس تیس بار کوشش کرچکے لیکن اب شاید زبان مارنے کے ساتھ ساتھ ایک اور جرم ٹیلیفون بندکرنے کا بھی ہم پرعائد ہوچکا اور یہ بات شاید ہمیں عمربھر معلوم نہیں ہوسکے گی کہ ’’زبان مارنا‘‘کسے کہتے ہیں اور کیسے ماری جاتی ہے اور یہ کیسی زبان ماری تھی کہ ہم زبان مار رہے تھے اور ہمیں پتہ تک نہیں چلا۔اب’’ای ی ی‘‘کی بات کرتے ہیں، ہمارے عزیزوں میں ایک چچا بھتیجے کے درمیان کچھ ان بن ہوگئی ایک ہلکی سی دھینگامشتی بھی ہوگئی مسئلہ عام سا کوئی سود وزیاں کا تھا۔رشتہ داروں میں ایسے جھگڑے چلتے رہتے ہیں اور پھر کچھ لوگ بیچ میں پڑ کر دونوں کو راضی بازی بھی کرلیتے ہیں لیکن یہاں راضی بازی کرنے والوں کے سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ آن پڑاتھا۔

چچا نے کہا میں اسے ہرگز معاف نہیں کروں گا اس نے مجھے ای ی ی کیاہے اور اس کے ساتھ باقاعدہ’’ای ی ی‘‘کی ڈیمانسٹرشین بھی کرکے دکھاتا تھا۔دانتوں کو سختی سے بھینج کرمنہ سے ای ی ی کی آواز نکالنا۔ عام طور پرتو اسے دانت پیسناکہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ منہ سے’’ای ی ی‘‘؟اور وہ دانت پیسناتو معاف کرنے کو تیارتھا لیکن ’’ای ی ی‘‘معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔جب سارے اپنے پرائے تھک گئے اور وہ سب کے سامنے’’ای ی ی‘‘کا نمونہ دکھاکر انکار کرچکا۔

تو قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند سب نے کہا کہ وہ سوائے تمہارے اور کسی کی نہیں سنے گا اور واقعی وہ میرے قدردان اور عزت کرنے والا تھا۔اس لیے ہم نے کمر ہمت باندھی اور اس آپریشن ای ی ی کے لیے آمادہ ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ اس نے ہمیں بھی اس’’ای ی ی‘‘کا مظاہرہ دکھاکر انکار کیا جب وہ’’ای ی ی‘‘کی تصویری شکل دکھارہاتھا تو ہمیں اس میں کوئی بڑی بات دکھائی نہیں دی کسی پر دانت پیستے ہوئے ’’ای ی ی‘‘کی آواز کوئی گالی نہیں کوئی حملہ نہیں کوئی وار نہیں اسے سمجھانا چاہا۔تو بولا تمہیں یہ چھوٹی بات دکھائی دے رہی ہے لیکن ’’ای ی ی‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اس نے تو اپنی حد تک مجھے دانتوں میں بھینج کرقتل کردیاتھا یا قتل کرنے کا اس کا ارادہ تھا لیکن پورا نہیں کرسکا۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس نے تو اپنی دانست میں قتل کر ڈالا ہے یہ تومیری قسمت اچھی تھی کہ میں اس کے دانتوں کے درمیان نہیں تھا ورنہ’’ای ی ی‘‘کرکے چبا تو ڈالا ہے۔

ہم نے یہاں وہاں سے بہت سارے دلائل پیش کردیے کہ ایک طرح سے تمہاری برتری کا اس نے اعتراف کیاہے کہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑسکتا تھا اس لیے اپنا غصہ اپنے دانتوں پرنکالا۔وہ ایک مرتبہ پھر شروع ہونے والا تھا کہ دانت چباناتوخیر لیکن یہ’’ای ی ی‘‘؟لیکن ہم نے اس کی بات کو ویٹوکرتے ہوئے کہا۔گولی مارو اسے بھی اس کے دانتوں کو بھی اور اس کے’’ای ی ی‘‘کو بھی صرف یہ بتاو کہ ہماری بات مانوگے یا اٹھ جائیں؟

خدا اس کا بھلا کرے اس کے دل میں ہماری عزت اور اہمیت تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے مان گیا اور ’’ای ی ی‘‘کو معاف کیا۔کہ میں تو اس کے اس ’’ای ی ی‘‘کو ہرگزبخشنے والا نہیں تھا لیکن آپ کی بات ٹال نہیں سکتا اس لیے آپ جو چاہیں کریں۔راضی نامے کے وقت جب ہم ان دونوں کو گلے ملواچکے تو اس نے اس کے بھتیجے یعنی ’’ای ی ی‘‘کرنے والے سے فرمائش کی ذرا ہمارے سامنے بھی پھر سے’’ای ی ی‘‘کرکے دکھادو لیکن اس نے کہاکہ ایک مرتبہ ’’ای ی ی‘‘کرنے سے تو بات اتنی بگڑگئی اب اگر پھر ’’ای ی ی‘‘کروں گا تو نہ جانے کیاہوگا؟۔

مطلب اس سارے قصے بلکہ قصوں کا ایک ہے کہ جناب کپتان صاحب اور حضرت مدظلہ کا یہ سارا معاملہ’’زبان مارنے‘‘اور اس کم بخت ای ی ی کا ہے اس لیے زبان مارنا بھی بہت ہوچکا اور’’ای ی ی‘‘بھی۔اب دونوں یہ زبان مارنے اور ای ی ی کرنے کا سلسلہ منقطع کرلیں کہ آپ کا تو صرف’’زبان مارنا‘‘اور ای ی ی کرناہے لیکن درمیان میں بیچارے خداماروں کی شامت آجاتی ہے۔وہ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ کیا واقعی تربوز اور لسی کی آپس میں نہیں بنتی؟

کیونکہ یہ عام عقیدہ ہے کہ تربوز اور لسی کو ایک ساتھ یا ایک دوسرے کے آگے پیچھے نہیں کھانا یا پینا چاہیے چنانچہ یہی کہاجاتاہے کہ دونوں کی آپس میں نہیں بنتی۔لیکن اس شخص کے پوچھنے پر اس داناشخص نے بتایا کہ دونوں جھوٹے ہیں دونوں کی آپس میں کوئی دشمنی نہیں ہے اور دونوں میں خوب لگتی ہے لیکن سارا چکر ہمارے پیٹ  میں گڑبڑمچانے کا ہے اور ہمیں بیچ میں سے نکالنے کا ہے اس پر رحمان بابا نے ایک پوری غزل بھی لکھی ہے اور اس میں ایسی تین چیزوں کو جمع کیاہے جو بظاہر متضاد ہیں لیکن حقیقت میں ’’تینوں ایک ہیں‘‘یہی غزل کا ردیف بھی ہے کہ تین چیزوں کا ذکر کرکے آخر میں تینوں ایک ہیں جیسے ایک شعر یہ ہے کہ

پہ سبب د ظالمانو حاکمانو

کور او گور اور پیخاور دریواڑہ یو دی

یعنی ظالم حاکموں کی وجہ سے گھر،گور اور پشاور تینوں ایک ہیں آپ چاہیں تو پشاور کی جگہ کوئی اور ’’مقام‘‘ بھی ڈال سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔