مشاعرے تربیت گاہ تھے آج تفریح گاہ بن گئے، مقررین اردو کانفرنس

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 7 دسمبر 2019
خواتین نے لکھا تووہی جدید غزل کا دور ہے، فاطمہ حسن،ملک کی بقا پاکستانی بیانیے میں ہے، شاعری انسان کااولین اظہار ہے، شاداب۔ فوٹو: فائل

خواتین نے لکھا تووہی جدید غزل کا دور ہے، فاطمہ حسن،ملک کی بقا پاکستانی بیانیے میں ہے، شاعری انسان کااولین اظہار ہے، شاداب۔ فوٹو: فائل

کراچی: آرٹس کونسل میں جاری بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن پہلے اجلاس میں ’’شعروسخن کا عصری تناظر‘‘ کے موضوع پر اہل علم ودانش نے مختلف عنوانات پر اپنے مقالے پیش کیے۔

اجلاس کی صدارت معروف ادیبوں اور شاعروں امجد اسلام امجد، افتخار عارف، کشور ناہید، امداد حسینی، عذرا عباس، منظر ایوبی اور افضال احمد سید نے کی، یاسمین حمید نے ’’جدید نظم میں طرزِ احساس کی تبدیلیاں‘‘ کے موضوع پر کہاکہ جدیدیت کا لفظ نظم اور غزل کے لیے بارہا استعمال ہوا ہے اور یہ وہ وقت تھا جب 1939 کے جدیدیت پسند حلقے نے اسے استعمال کیا عمومی سطح پر جدیدیت پسندی تخلیق پر حاوی ہوتی گئی اردو میں آزاد نظم کی پہلی اشاعت 1932 میں ہوئی، نظم کے اظہار میں پھیلاؤ ہے نظمیں عموماً ایک جگہ پر جامد اور ساکت رہتی ہیں۔

انھوں نے کہاکہ ترقی پسند کا راستہ بھی اجتماعی فکرو عمل کا راستہ تھا، مبین مرزا نے ’’جدید شعری تناظر اندیشے اور امکانات‘‘ پر مقالے میں کہاکہ  شاعری سماجی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے ، مشاعرے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے آئے ہیں۔ آج مشاعرے کا تفریح گاہ بن جانا شعرو سخن کی موت ہے، شعرو سخن کی بقا کی جنگ انسان دشمن قوتیں کبھی نہیں جیت سکتیں۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ’’جدید غزل میں نسائیت کی معنوی جہات‘‘ پر گفتگو میں کہاکہ کشور ناہید نے نظم اور نثر دونوں میں تہلکہ مچایا جبکہ فہمیدہ ریاض نے غزلیں کم لکھیں مگر اْن کی نظموں کی تعداد زیادہ ہے ، پروین شاکر کے حصے میں غیرمعمولی شہرت آئی، شاداب احسانی نے ’’اردو شاعری اور پاکستانی بیانیہ‘‘ پر مقالے میں کہاکہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس کا تاریک ترین پہلو ہوتا ہے، پاکستان کی بقا پاکستانی بیانیے میں ہے۔

نعت مشکل صنف شاعری ہے، قلم کار

کانفرنس میں ’’ عصر حاضر میں نعتیہ اور رثائی ادب ‘‘کا جائزہ لیا گیا جس کی صدارت افتخار عارف ، ڈاکٹر تحسین فراقی اور ہلال نقوی نے کی ، عزیز احسن نے ’ جدید اردو نعت، موضوعات اور مسائل‘‘ فراست رضوی نے ’’پاکستان میں جدید مرثیے کاارتقاء‘‘ اور طاہر سلطانی نے اعجازرحمانی کی نعتیہ ادب میں خدمات‘‘ پر روشنی ڈالی افتخار عارف، تحسین فراقی اور ہلال نقوی نے کہا کہ نعت ایک بہت مشکل صنف شاعری ہے، فراست رضوی نے کہا کہ مرثیہ دکن میں پیدا ہوا اور لکھنو میں پروان چڑھا۔

4 کتابوں پر تبصرے پیش کیے گئے

کانفرنس میں اصغر ندیم سید کی کتاب ’’ٹوٹی ہوئی طناب اْدھر‘‘ پر عرفان جاوید، صابر ظفر کی ’’آواز کی لہر پر چلا میں‘‘ پر ضیاالحسن ، رشید حسن کی کتاب ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ پر مبین مرزا اور فاطمہ حسن کی کتاب ’’فاصلوں سے ماورا‘‘ پر نعمان الحق نے تبصرہ کیا۔

بلوچ شاعروں نے ہر دور میں مظلوم طبقے کی نمائندگی کی، شعرا

بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے ’’دبستان اردو اور بلوچ شعرا‘‘ سیشن میں بلوچ دانشور نے کہا کہ بلوچ شعرانے ہر دور میں مظلوم طبقہ کی نمائندگی کی اور اکثرت شعرا نے اردو میں شاعری دبستان اردو اور بلوچ شعرا کے سیشن میں افضل مراد ، اے آر داد، غفور شاد اور وحیدنور نے بلوچ شعرا کی اردو شاعری پر گفتگو کی اس سیشن میں نظامت کے فرائض عمران ثاقب نے انجام دیے، بلوچ دانشوراوں نے شرکا کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔

بلوچ دانشوروں نے کہا ہے کہ بلوچ شعرا جو اردو میں شاعری کرتے ہیں ان کو وہ ماحول نہیں ملتا اس لیے ان کو مادری زبان کی طرف جانا پڑتا ہے،ماضی کے مقابلے آج کے کراچی اور آرٹس کونسل کافی تبدیل ہے ہر زبان کو اہمیت دی جارہی ہے، عطا شاد نے بھی جدید نظاموں کی اہمیت اسی طرح کی ہے جیسے اردو میں ن م راشد کی عطا شاد کی شاعری ثقافت کی عکاسی ہے،بلوچی زبان میں لکھنے والے حساس معاملات پر لکھتے ہیں۔

اردو کانفرنس میں یارک شائر اعتراف کمال ایوارڈز کا انعقاد

عالمی اردو کانفرنس میں یارک شائر اعتراف کمال ایوارڈز کا انعقاد کیاگیا جس میں معروف شاعرہ شہناز نور اور شاعر کشمیر احمد عطااللہ کو یارک شائر کمال فن ایوارڈز صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور ایاز محمود نے پیش کیے، عنبرین حسیب عنبر، آفتاب مضطر، فاطمہ حسن، ثمن شاہ، نسیم انصاری، رضا علی عابدی موجود تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔