ہیئر ڈائی سے بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

ویب ڈیسک  اتوار 8 دسمبر 2019
جو خواتین باقاعدگی سے بال رنگنے والی مصنوعات استعمال کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بھی نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جو خواتین باقاعدگی سے بال رنگنے والی مصنوعات استعمال کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بھی نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نارتھ کیرولائنا: امریکا میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین پر کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ خواتین جو باقاعدگی سے بال رنگنے اور بال سیدھے کرنے والی مصنوعات استعمال کرتی ہیں، ان میں چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) کا خطرہ دیگر خواتین کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔

ہیئر ڈائی اور اسٹریٹنر (بالوں کو سیدھا رکھنے والی مصنوعات) کے بارے میں یہ مطالعہ امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اینوائرونمنٹل ہیلتھ سائنسز (این آئی ای ایچ ایس) اور یونیورسٹی آف کیرولائنا میں مشترکہ طور پر گیا گیا۔

تحقیق کی غرض سے اس مطالعے میں 47000 ایسی خواتین کے اعداد و شمار جمع کیے گئے جن کی بہنیں بھی تھیں، جبکہ خود ان میں چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) کی تشخیص ہوچکی تھی۔

علاوہ ازیں، ان خواتین کا تعلق امریکا میں آباد سفید فام، سیاہ فام اور ہسپانوی نسل سے تھا۔ مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ خواتین جنہوں نے کسی نہ کسی ہیئر ڈائی یا ہیئر اسٹریٹنر کا باقاعدگی سے استعمال کیا تھا، ان میں بریسٹ کینسر کی شرح ایسی خواتین کے مقابلے میں زیادہ تھی جو ہیئر ڈائی/ ہیئر اسٹریٹنر کا استعمال نہیں کرتی تھیں۔

وہ خواتین جنہوں نے کم وقت میں زیادہ مرتبہ ان دونوں میں سے کسی بھی ایک پروڈکٹ کا استعمال کیا، ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ اسی حساب سے زیادہ تھا۔ مثلاً 5 سے 8 ہفتے میں ایک مرتبہ ہیئر ڈائی استعمال کرنے والی سفید فام خواتین میں بریسٹ کینسر کا خدشہ، دیگر خواتین سے تقریباً 10 فیصد زیادہ تھا لیکن سیاہ فام خواتین میں یہ خطرہ 60 فیصد تک زیادہ دیکھا گیا۔

البتہ ہیئر اسٹریٹنر (بال سیدھی کرنے والی پروڈکٹس) کے منفی اثرات ہر نسل کی خواتین پر ایک جیسے ہی دیکھے گئے۔ تاہم وہ ہیئر ڈائیز کے مقابلے میں قدرے کم تھے۔

ماضی میں بھی مختلف سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مختلف کاسمیٹکس خواتین کی صحت کو متاثر کرتی ہیں اور ان میں کئی طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔

یہ تحقیق اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کی تفصیلات ’’انٹرنیشنل جرنل آف کینسر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔