یہ پریشانی حالات نئی بات نہیں

شاہد سردار  ہفتہ 7 دسمبر 2019

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موئن جو دڑو سے لے کر آج تک کی تاریخ میں ظلم ، جبر اور مزاحمت کا چکر ہی چل رہا ہے۔

ضمیر ، اخلاقیات اور بھلائی کا درس صرف کتابوں میں بند ہے۔ عملی سیاسی دنیا ہو یا امور مملکت ، ان میں بے حسی ، ظلم اور زبردستی کا چال چلن ہی جاری ہے اور ابھی دور تک اس میں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس ظلم کے خلاف لڑنے والے احمد خان کھرل ہوں ، نواب مظفر خان ہوں ، ذوالفقار علی بھٹو یا سیکڑوں گمنام لوگ سبھی اپنا سرخ خون دے کر کالی تاریخ کو سنہرا تو بنا جاتے ہیں مگر ابھی تک اسے بدلنے پر قادر نہیں ہوئے۔ یوں ظلم رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے مگر اس کا انداز وہی بے رحمانہ ہے۔ مظلوم البتہ قربانی کے علاوہ کچھ اور نہیں دے پاتا۔

وطن عزیز میں حالیہ تاجروں اور دکانداروں کی ایسوسی ایشن تقریباً 70 ارب روپے کا صرف دو دن کی ہڑتال کی صورت نقصان خود کو اور ملکی خزانے کو پہنچا کر معاملے کو آئندہ تین ماہ پر لے کر ٹل گئی۔ اس مالیاتی ہڑتال میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے نقصان کے۔ ایف بی آر اور تاجر ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا دشمن سمجھ کر سوائے ایک دوسرے کی پوزیشن خراب کرنے کے اورکچھ نہ کرسکے۔

بھارت کی 126 کروڑکی آبادی میں 37 ملین یعنی 3 کروڑ 70 لاکھ ٹیکس دینے والے رجسٹرڈ نہیں یعنی صرف 3 فیصد افراد ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں جو بہت تشویش کی بات ہے۔ جب کہ 82 کروڑ افراد اور رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ہے جس میں 75 فیصد افراد یعنی 61 کروڑ افراد کا تعلق زمیندار طبقے سے ہے جن پرکوئی ٹیکس ہی نہیں لاگو ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک طرف ٹیکس امپورٹ کی سطح پر وصول کیا جاتا ہے پھر تمام صنعتی پیداوار پر بھی 17 فیصد ٹیکس ہے جو پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے حتیٰ کہ امریکا اورکینیڈا جو اس ٹیکس کے موجد ہیں بالترتیب 7 فیصد اور 9 فیصد ٹیکس خریدار سے وصول کرتے ہیں۔

مگر ہمارے ملک میں فروخت سے پہلے ہی صنعت کاروں سے یہ ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ہر مقام پر مختلف ناموں سے کہیں سرچارج کی آڑ میں کہیں اسی طرح کسی اور مد میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس بنیادی سہولتیں اور ضرورتیں سرے سے ناپید ہیں۔ بیشتر ممالک میں بے روزگاری الاؤنس بھی دیا جاتا ہے لیکن اس کا بھی ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ پھر بھی لوگ خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جس نے 17 سال وعدوں کی بھرمار کرکے الیکشن جیتا تھا اس سے امید تھی کہ وہ اپنے وعدے پورے کرکے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دے گی مگر سوا سال گزر چکا ساری امیدوں پر اوس پڑ چکی ہے اور صرف سیاست ، سیاست کا کھیل جاری ہے اور یہی ہماری سیاست کا اصل ، بھدا ، بد صورت، مطلبی اور خود غرض چہرہ ہے۔

حکومت کے پاس نہ دینے کوکچھ ہے اور نہ ہی عمران خان کی ضد کچھ دینے پر آمادہ ہے۔ نتیجے کے طور پر ایک بحران کی کیفیت ہے جسے تجزیہ کار بند گلی قرار دے رہے ہیں اور یہ بند گلی اس لیے بھی ہے کہ عمران خان امور مملکت اور سیاست کے داؤ پیچ ، جوڑ توڑ اور لچک کے اصولوں سے آگاہ نہیں۔ وہ اپنی شہرت، مقبولیت اور قومی ہیرو کے حصار میں بند ہے۔

وقت کی نبض سے آشنا جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کے زوال کی اصل وجہ ان کا غیر ضروری اعتماد اور رعونیت تھی لیکن ان کا زوال نو سال بعد شروع ہوا۔ لیکن عمران خان کے اکھڑ پن ، ضد اور انا پسندی نے انھیں سوا سال ہی میں وہاں پہنچا دیا جہاں مشرف نو سال بعد پہنچے تھے۔ یوں آج پاکستان کی سیاست میں پیدا ہونے والی نفرت اور کشیدگی کا خاتمہ نہ عمران خان کے بس کی بات ہے نہ کسی ادارے کے بس کی بات ہے۔ معاشرتی ناہمواری اور انصاف اور قانون کی پاسداری نہ ہونے سے پورے ملک میں فرسٹریشن عروج پر ہے۔

بلوچستان جیسے سب سے بڑے اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کے بیشتر علاقوں میں آج بھی گیس لوگوں کے گھروں تک نہیں پہنچی، یہاں آج بھی لوگ جوتا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اندرون سندھ اب بھی پینے کا پانی بھرنے کے لیے خواتین کو کئی کئی میل دور پیدل چل کر جانا پڑتا ہے، کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہیں، اسپتال ، تعلیم جہاں خواب وخیال ہے۔ آج بھی ملک بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے جنھیں سال میں ایک بار قربانی کے موقع پرگوشت کھانا نصیب ہوتا ہے۔

سبزی اور دال جوکبھی عوام کی دسترس میں تھی آج وہ ان کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہے اور اس کمزوری اور بھیانک پہلوکوکیش کرا کے کچھ مفاد پرست لیڈر کا روپ بھر کے ’’ آزادی مارچ ‘‘ کا سرکس لگاتے رہتے ہیں، یوں ملکی منظر نامے میں پاکستان کا ’’شہر اقتدار‘‘ کنٹینروں کا دیار بنتا رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کی طرف جانے والی شاہراہوں پرکنٹینروں کی بھر مارکے مظاہرے انجانے خوف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی آزادی مارچ میں ’’ انقلاب‘‘ کے خواب لے کر آنے والے دیوانوں کے پاس کھونے کو ایک بے کیف زندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہم نے یہ بار بار دیکھا ہے کہ اس شہر اقتدار میں جو بھی وزیر اعظم بن کر آتا ہے وہ کچھ ہی عرصے میں اجنبی اجنبی سا ہو جاتا ہے۔ اس کا چہرہ اور آواز تو پرانی ہوتی ہے لیکن اس کا لب و لہجہ اور انداز فکر بدل جاتا ہے۔ وہ اپنا دشمن خود بن جاتا ہے اور جو بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرے وہ اسے بھی اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ وزیر اعظم خوشامدیوں میں گھر کر رسوائیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے شہر اقتدار میں آنے والے اکثر حکمران رسوائیوں کا شکار ہوئے اور یہ شہر اقتدار خود بھی بڑا بدقسمت ہے۔ نام تو اس کا اسلام آباد ہے لیکن اسلام کے ساتھ سب سے زیادہ دھوکے اسی شہر میں ہوتے ہیں۔

یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جو بھی اس شہر اقتدار میں حکمران بن کر آتا ہے اس کا مقدر رسوائیاں ہی بنتی ہیں کیونکہ اس شہر میں ہونیوالے اکثر فیصلوں سے عوام کے لیے خیر کی بجائے خرابی جنم لیتی ہے۔ اسلام کے نام پر بنائے گئے اس شہر میں ریاست مدینہ کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن ریاست مدینہ والا کام نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ عوام اور رعایا کو آزادی دلانے کے لیے جب بھی کوئی جدوجہد ہوئی تو اس کے لیے قربانیاں تو ٹوٹی چپل والے عام افراد نے دیں مگر اس کے ثمرات سیاست دانوں نے سمیٹے۔ جنھیں رہبر سمجھا گیا وہ رہزن ثابت ہوئے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو اس کا اصل امتحان اس کی کارکردگی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کامیابی کا پیمانہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ آپ نے عام لوگوں کی معاشی حالت بہتر کی ہے یا خراب کی؟ موجودہ حکومت اس حوالے سے ابھی تک کوئی بڑا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی۔ ہماری دانست میں حکومت نے چلنا ہے تو اسے بدلنا ہوگا اور اگر حکومت نے اپنے طور اطوار نہ بدلے تو پھر حکومت کا رہنا مشکل ہوگا۔ یہ کرکٹ نہیں کہ سب ٹیموں اور سب کھلاڑیوں سے لڑ کر آپ جیت جائیں۔ اس کھیل میں جتنے زیادہ اتحادی ہوں، جتنی مفاہمت ہو اتنا ہی سیاسی کھیل کامیاب رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔