حکومت سائنس دان پیدا کرنے پر توجہ دیں

لیاقت راجپر  ہفتہ 7 دسمبر 2019

ساری دنیا جانتی ہے کہ ہم جو بھی سہولتیں لے رہے ہیں اس میں سائنس کا بڑا ہاتھ ہے اور زندگی کے اس پہلو کو ترقی دینے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک ہم سائنس دانوں کی پیداوار میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں جس کی وجہ بھٹو کے علاوہ باقی ہمارے سیاست دانوں کی عدم دلچسپی اور دنیا میں ترقی کرنے کے اصولوں کے بارے میں کم علمی ہے۔ ابھی تک کئی لوگوں کو یہ ہی پتا نہیں ہے کہ سائنس کیا ہے۔

لیکن میں عام آدمیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ سائنس کی تشریح بڑی آسان ہے یعنی مشاہدہ اور تجربہ ہی سائنس ہے اور یہ صرف آسمان، زمین اور بارشوں وغیرہ یا بم بنانے کا نام ہی نہیں ہے اس کی وسعت انسان کے ہر چیز سے وابستہ رکھتی ہے ۔

بہرحال جب میں نے پڑھا کہ ہم لوگ دوسرے ممالک سے سائنس پر توجہ دینے، سائنس دان پیدا کرنے یا اس کے فروغ کے لیے بہت کم بجٹ رکھتے ہیں تو مجھے یہ خیال آیا کہ اﷲ نے مسلمانوں کو بھی دماغ اور اور وسائل سے بہت نوازا ہے تو پھر ہم اس میں دوسروں سے کیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ مسلمان سائنس دانوں نے کئی بڑے کارنامے انجام دیے مگر پھر کیا ہوا کہ گزشتہ 5 صدیوں سے ہم سائنس سے دور رہے ہیں جب کہ یو این او نے سائنس کا دن منانے کے لیے 10 نومبر کو پوری دنیا کے لیے مختص کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جب اسکولوں اور کالجوں سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ سائنس سبجیکٹ پڑھانے والے ہی نہیں ملتے ہیں اگر وہ ڈگری لے بھی آتے ہیں تو ان میںefficiency نہیں ہوتی اور پھر طلبہ اور طالبات کا Mindset ہی نہیں بنتا۔ جو بھی حکومتیں آئی ہیں انھیں اس اہم سبجیکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اس سلسلے میں میری ملاقات جناب رضی الدین سے ہوئی جو  21 سال سے اردو میں ایک سائنس ڈائجسٹ نکالتے تھے۔ جسے اس نے 1فروری 1981 میں نکالا اور مالی وجوہات کی وجہ سے بند کردیا۔ اس سے پہلے وہ اردو اخبار میں ہفتہ وار سائنس صفحہ نکالتے تھے۔ سائنس کی پاکستان میں ترقی کی رفتار، سائنس دان اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے پاکستان میں بجٹ پر بات چیت کرنے کے لیے رابطہ کیا جس کی باتیں بڑی کام کی ہیں جو میں پڑھنے والوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں۔ اس نے ایم اے کرنے کے بعد PCSIR (پاکستان کائونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ) میں نوکری کرنی شروع کی جہاں پروہ نکلنے والے کاروان سائنس ڈائجسٹ میں 1-1-1971 سے سب ایڈیٹر کام کرنے میں مصروف ہوگئے اور 1979 تک کام کرتے رہے۔ اس ڈائجسٹ کے ایڈیٹر عظمت علی خان تھے۔

جیسا کہ رضی صاحب کو سائنس سے بڑا لگائو تھا جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا سائنس ڈائجسٹ نکال کر سائنس کی خدمت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ جو سائنس کی دنیا کو پسند کرتے تھے انھوں نے اس میں لکھنا شروع کردیا اس کے علاوہ اسے جرنلزم سے بھی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے انھیں سائنس کے فروغ میں آسانی ہوئی۔ جب انھوں نے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا تو وہ ایم ایس سی کرنا چاہتے تھے مگر دوستوں کے بڑے اسرار پر انھوں نے ایم اے جرنلزم میں کرڈالی مگر سائنس سے دوستی جاری رکھی۔ اس کے نکالے ہوئے ڈائجسٹ کو پڑھنے سے لوگوں کو سائنس سے دلچسپی پیدا ہوئی اور سائنس سبجیکٹ کو فروغ ملا۔ اس ڈائجسٹ میں سائنس کے علاوہ سوشل، کلچرل، تاریخی مضامین بھی چھاپے جس کی وجہ سے پڑھنے والوں کو ہر موضوع پر نالج مل جاتی تھی۔ سیاسی لیڈروں کے انٹرویو بھی شامل ہوتے تھے کہ وہ سائنس کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دیتے تھے۔

رضی نے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سائنس ایک خشک موضوع ہے بلکہ بڑا دلچسپ مضمون ہے۔ افسوس ہے کہ مسلمان ممالک میں 5 صدیوں تک سائنس دان پیدا کرنے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس مسلمانوں کو مذہب سے دور کردیتی ہے۔ جو بالکل غلط ہے جب کہ سائنس دانوں کا ایمان مذہب میں پکا ہوتا ہے کیونکہ وہ قدرت کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں اور قدرت کے اصولوں کو بہت ہی قریب اور گہرا جانتے ہیں۔

1990 میں یو این او نے ایک Resolution پاس کیا کہ ترقی پذیر ملک اس وقت تک اپنی معاشی حالت بہتر نہیں بناسکتے جب تک وہ اپنے GDP کا ایک فی صد سائنس پے خرچ نہیں کریں گے اور معاشی مسائل میں گھرے رہیں گے۔ یہاں پر دو قسم کی ترقی ہوتی ہے جس میں ایک Material کی ترقی اور دوسری ہوتی ہے روحانی ترقی جس کے لیے مادے کی ترقی بہت ضروری اور اہم ہوتی۔ اس میں اگر آپ کا پیٹ خالی ہو تو بندہ میں روحانیت کہاں سے آئے گی اور پھر وہ ناکچھ سوچ سکتا ہے اور نا کچھ کرسکتا ہے۔ اگر صحیح ترقی ہوگی تو خوشحالی ہوگی جس میں سائنس، ٹیکنوکریٹس اور عالم کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

دنیا میں ایک پاپولر سائنس ہوتی ہے جس کے بارے میں عام آدمی کو بھی جانکاری ہونی چاہیے چاہے اس کا تعلق سائنس سے ہو یا نہ ہو کیونکہ اس سائنس میں بنیادی انفارمیشن ہوتی ہے جو ہر ایک کو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ رضی الدین کا سائنس ڈائجسٹ بھی اسی طرح کا تھا جس میں پڑھنے والوں کے لیے بنیادی نالج دی جاتی تھی۔ اس طرح کے میگزین پوری دنیا میں نکلتے ہیں۔ اس طرح دنیا کا پہلا میگزین 1846میں امریکا سے شائع ہوا تھا، دوسرا 1869 میں اور تیسرا نیشنل جوگرافک کے نام سے 1888 میں شائع ہوا۔ اس وقت بھی امریکا سے پاپولر سائنس کے زمرے میں 50 ہزار سے زیادہ میگزین کا اجرا ہوتا ہے اس میں ٹیکنالوجی کے بارے میں بھی انفارمیشن ہوتی ہے جب کہ ہندوستان سے بھی اسی طرح کے تین ہزار پاکستان سے صرف 5 شائع ہوتے ہیں جس میں 2کراچی سے، 2 لاہور سے اور ایک اسلام آباد سے شامل ہیں ۔

سائنس ڈائجسٹ جسے ملک سے باہر بھی پڑھا جاتا تھا اور جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ بند ہوگیا ہے تو انھوں نے رضی الدین کو اپنے خرچے پر امریکا بلوایا اور کہا کہ وہ اس کی مدد کریں گے اور وہ اسے دوبارہ شائع کریں مگر ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ ان کی امریکا وزٹ کے دوران بی بی سی ریڈیو نے اور ایک پاکستانی چینل نے انٹرویو بھی کیے جس میں اس نے سائنس کی اہمیت پر بہت سارے پیغام دے ڈالے تاکہ پاکستانی عوام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں دلچسپی پیدا ہو۔ رضی کہتے ہیں کہ انھیں عجیب سا لگتا ہے کہ ہماری قوم کرکٹ کے بارے میں تو بڑی دلچسپی رکھتے ہیں مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے کوئی جذبہ نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے ایسے پروگرام شروع کریں جس سے نوجوانوں میں دلچسپی پیدا ہو۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔