بانیان پاکستان سے احسان فراموشی

عثمان دموہی  ہفتہ 7 دسمبر 2019
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

ہم اپنی فوج پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ اس نے دفاعِ وطن کے علاوہ اندرون ملک امن و امان قائم کرنے میں جو مثالی کردار ادا کیا ہے، اس کے لیے پوری قوم ہمیشہ ان کی شکرگزار رہے گی۔

اگرچہ ہمارا پڑوسی جو ہمارا دشمن بھی ہے ہم سے فوجی طاقت میں کئی گنا زیادہ ہے مگر وہ ہماری بہادر افواج کے آگے ہمیشہ ڈھیر رہا ہے اگر مشرقی پاکستان میں غداری نہ ہوتی تو ہرگز بھارت وہاں کامیاب نہ ہوتا اور کبھی بھی مشرقی بازو، مغربی بازو سے جدا نہ ہوتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی بنگلہ دیش نہیں بن سکا ہے یہ ملک ادھورا ہے۔ یہ اس وقت ہی مکمل ہوگا جب اس میں بھارتی بنگال بھی شامل ہوگا۔ وطن عزیز کو اس وقت بھی بیرونی دشمنوں کے علاوہ اندرونی دشمنوں سے بھی خطرہ لاحق ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے عوام میں بھی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو غداروں اور وطن فروشوں کے بہکائے میں آجاتے ہیں مگر جب ان کی اصلیت سامنے آتی ہے تو پھر ان سے اپنی قربت پر ندامت کا اظہارکرنے لگتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ’’را‘‘ ’’موساد‘‘ اور ’’سی آئی اے‘‘ کے ایجنٹ ملک میں موجود ہیں انھیں یہ مملکت خدا داد ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ وہ اسے تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان میں گزشتہ دنوں جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

یہ دسمبر کا مہینہ ہے اس مہینے کی 16تاریخ کو ہم یوم سقوط ڈھاکہ مناتے ہیں اور پھر 25 دسمبر کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا جشن ولادت بھی مناتے ہیں۔کاش کہ ہم نے اپنے عظیم قائد کے اصولوں کو مشعل راہ بنایا ہوتا تو ملک ہرگزکسی بحران کا شکار نہ ہونے پاتا اور ہم اپنے مشرقی بازوکو بھی نہ کھوتے۔ قائد اعظم کی عظمت اور دانش کے ان کے دشمن بھی قائل تھے۔ انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ ہماری فوج قائد اعظم کی عظمت اور وقارکو سربلند کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔

معمول کے مطابق اس سال بھی ماہ دسمبر کو رینجرزکی جانب سے ’’ رینجرز شکریہ جناح‘‘ کے نام سے منسوب کیاگیا ہے۔ قائداعظم کی ولادت کے حوالے سے وہ اس ماہ میں مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں جن کا مقصد قائد اعظم کے نصب العین اور ان کی وطن کے لیے انتھک جدوجہد کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ یہ پاکستان رینجرزکا انتہائی قابل تحسین اقدام ہے جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔ تحریک پاکستان میں قائد کے رفقا نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہم نہ جانے کیوں ان کی یاد سے غافل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انھیں بھی سلام عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی پیدائش کے ایام پر پروگرام منعقد کریں اور ان کے بارے میں عوام میں آگہی پیدا کریں۔

قیام پاکستان کے سلسلے میں اہم مقام رکھنے والے چوہدری رحمت علی کو تو ہم بالکل ہی نظر انداز کرچکے ہیں حالانکہ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا۔ آپ نقاش پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ معماران پاکستان میں اہم مقام کے مالک ہیں۔

آج حال یہ ہے کہ لوگ ان کے نام سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے تمام اکابرین کے بارے میں مضامین ہمارے بچوں کے تعلیمی نصاب میں شامل کیے جاتے مگر افسوس کہ ایسا ابھی تک نہیں ہوسکا البتہ ہماری حکومتوں نے ایک مہربانی ضرور کی ہے کہ ان تمام شخصیات کی شبیہہ اور نام کے ساتھ ڈاک ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

چوہدری رحمت علی 25 نومبر 1897 کو ضلع ہوشیار پور کے ایک گائوں موہراں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی حاجی شاہ محمد تھا۔ آپ کی تعلیم کا آغاز آپ کے گائوں سے ہوا۔ سب سے پہلے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے آٹھویں جماعت کا امتحان ضلع جالندھر میں واقع ایک قصبے کے اسکول سے کیا۔ میٹرک جالندھر کے ہائی اسکول سے پاس کیا چونکہ بلا کے ذہین تھے چنانچہ اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے والد نے لاہور کے اسلامیہ کالج میں داخل کرایا۔ یہ کالج اس وقت پورے برصغیر میں لائق و فائق اساتذہ کا گہوارہ تھا۔

یہاں علم کے ساتھ ساتھ ادب کا بھی بول بالا تھا۔ یہاں کی کھلی فضا میں آپ کے جوہر کھلے۔ ادب سے دلچسپی ایسی رنگ لگائی کہ کالج میگزین کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور ساتھ ہی کالج یونین کے عہدیدار بھی بنے۔ پھرکالج میں مختلف موضوعات پر تقاریرکرتے رہے۔ ساتھ ہی لکھنے کا جادو بھی چمکنے لگا۔ اسی زمانے میں آپ برصغیر میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو اپنا الگ وطن قائم کرنا ہوگا۔

مسلمانوں کو صرف انگریزوں سے ہی نہیں برہمن سامراج کے چنگل سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اس طرح مسلم قومیت کا نظریہ آپ کی زندگی کا نظریہ بن گیا تھا۔ اسلامیہ کالج میں تعلیم کے دوران ہی آپ علامہ اقبال سے متاثر ہوئے۔ اسلامیہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور اخبار ’’ کشمیر میگزین ‘‘ میں بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کرنے لگے۔ پھر ایچی سن کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔

یہ اس وقت جاگیرداروں کا مخصوص تعلیمی ادارہ تھا اس کا پرنسپل انگریز تھا جو ہر قومی تحریک کے خلاف تھا۔ چنانچہ اس گھٹن زادہ ماحول سے جلد ہی رستگاری حاصل کرلی۔ آپ اسلامیہ کالج میں تعلیم کے دوران ہی مولانا شبلی نعمانی کی سیاسی بیداری تحریک سے منسلک ہوچکے تھے۔ 1910 میں لاہور میں بزم شبلی قائم کی اس کے 1915میں منعقدہ اجلاس میں تقسیم برصغیر کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کیا جو مطالبۂ پاکستان کا پیشہ خیمہ ثابت ہوا۔

آپ مسلسل تقسیم ہند کا پرچار کرتے رہے مگر اس وقت اس نظریے کو مجذوب کی بڑ سمجھاگیا۔ دراصل اسلامیہ کالج میں طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ اس نظریے کو اپنا چکے تھے۔ آپ کا نظریہ تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں اور مسلمانوں کو اپنی بقا اور تحفظ کی خاطر انگریزوں اور ہندوئوں دونوں سے اس مطالبے کو بنوانا ہوگا۔ وہ شدت سے محسوس کرتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی سیاسی منزل نہیں ہے۔ محض آئینی تحفظات کسی قوم کی منزل نہیں ہوسکتے چنانچہ منزل کی نشاندہی ہونا چاہیے۔ آپ کچھ عرصہ بعد بیرسٹری کے لیے برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے ایم اے اور ڈبلن یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

کیمبرج میں تعلیم کے دوران آپ نے ہندوستانی طلبا میں ان کے برصغیر میں سیاسی حقوق کے بارے میں پرچار شروع کر دیا تھا۔ 1930میں علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد کے تناظر میں آپ نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے جدوجہد کو مزید تیزکر دیا تھا۔ اسی دوران آپ نے پاکستان نیشنل موومنٹ نامی تنظیم قائم کی اور 1930-31 میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں شریک قائدین کو برصغیرکی تقسیم سے متعلق نظریات پر مبنی پمفلٹس تقسیم کیے۔

1935 میں آپ نے اپنا یادگار پمفلٹ Now or Never ’’اب ورنہ کبھی نہیں‘‘ شائع کیا۔ یہ ایک انقلابی پمفلٹ تھا جس نے برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کی راہ ہموار کردی تھی۔ اس تاریخی پمفلٹ میں کہا گیا تھا ’’انڈیا ایک ملک نہیں بلکہ کئی قومیتوں پر مشتمل خطہ ہے۔ مسلمانوں کا مذہب اورکلچر، تاریخ و روایات، معاشرتی ضابطہ اور معاشی نظام ، قوانین وراثت اور نکاح بنیادی طور پر ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ ہم اکھٹے کھانا تک نہیں کھا سکتے۔ ہم آپس میں شادی نہیں کرسکتے۔ ہمارا کلینڈر اور خوراک بھی مختلف ہیں۔

اگر مسلمان پاکستانی قومیت کی ان واضح علامات کے باوجود بھی انڈین فیڈریشن کے جھانسے میں آگئے تو گھٹ کر ایک اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ یہ حقائق ہیں اور تلخ حقائق ہیں مگر سچائی سے بھرپور ہیں۔ چنانچہ ہم مسلمان متحدہ ہندوستان کے نظریے کو چیلنج کرتے ہیں اور دونوں قوموں میں تضاد کی بنیاد پر قیام پاکستان کے مستحق ہیں اور اسی لیے ہم قیام پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان ہی حقائق کو قائد اعظم نے گاندھی اور انگریزوں کے سامنے رکھ کر انھیں لاجواب کردیا تھا۔ اور آخر کار انھیں مطالبہ پاکستان کو ماننا پڑا اور آج ہم اس طویل جدوجہد کی بدولت ایک آزاد جمہوری اسلامی ملک کے مالک ہیں مگر اس جدوجہد کی ابتدا چوہدری رحمت علی سے ہوئی انھوں نے ہی اس سرزمین کو ’’پاکستان‘‘ کا نام دیا پھر یہ جدوجہد مختلف مراحل سے ہوکر آخر کار قائداعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

کاش کہ ہم چوہدری رحمت علی جیسے مسلمانوں کے غم خوار اور دیگر بانیان پاکستان کو بھی یاد کرلیا کریں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی لندن کے ایک عیسائی قبرستان میں فن ہے آخر ہم کب اسے چوہدری صاحب کے خوابوں کی سرزمین پاکستان میں لاکر دفن کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔