ٹڈی دل کا حملہ اور قحط کا اندیشہ

عبدالرحمان منگریو  ہفتہ 7 دسمبر 2019

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہمارا ملک انتہائی مشکل حالات سے گذر رہا ہے ۔ کبھی سیاسی بھونچال تو کبھی معاشی عدم استحکام ، کبھی انتظامی غفلت تو کبھی حکومت کی نااہلی اور کبھی مذہبی و نسلی تضادات کا طوفان تو کبھی عوامی جہالت ، مطلب کہ قیام سے اب تک ملک میں کوئی ایسا دور نہیںآیا جسے ہم خوشحال ، پُرامن یا پُرسکون کہہ سکیں ، اور نہ ہی کوئی ایسی حکومت آئی ہے جو اہل ، قابل اور عوامی دردوں کا درمان بن سکی ہو۔ یہ تو تھی قومی نااہلی سے پیدا ہونے والی مصائب کی کہانی لیکن ساتھ ہی آسمانی آفتیں بھی اس ملک پر کڑی ہی رہی ہیں۔

حالیہ ٹڈی دَل کا آنا بھی ایک سنگین نوعیت کا حملہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ملک میں زلزلہ ، سمندری طوفان اور بے موسمی برساتوں و سیلابوں تباہ کاریوں اور ڈینگی مچھروں ،کتے کے منہ جیسے چمگادڑ کے بعد ٹڈی دَل کا فصلوں پر حملہ ایسی چیز ہے جو آنے والے دنوں میں ملک میں غذائی قلت بلکہ قحط کی صورتحال سے دوچار کرسکتا ہے اور قحط کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ شاید ہماری مرکزی حکومت ، صوبائی حکومت اور سیلفی زدہ نسل کو نہ ہو لیکن سنجیدہ اور بڑی عمر کے شہریوں کو ضروراندازہ ہوگا کہ کیسے ماضی میں ٹڈیوں کے حملے کے باعث ملک میں اناج کی کمی ہوئی اور لوگ بھوک سے مرنے لگے۔

غذائی قلت کی حالت یہ تھی کہ آٹا ، چاول ، چینی اور گھی سمیت اشیائے خوردو نوش راشن کارڈ پر گوہر نایاب کی طرح ملتی تھیں اور وہ بھی گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد کہیں جاکر میسر ہوتی تھیں ۔قحط کیا ہے ذرا گوگل پر صومالیہ ٹائپ کرکے انٹر کریں یا یو ٹیوب پر افریقہ اور صومالیائی قحط کی ویڈیوز دیکھیں کہ ڈھائی سال کے بچے بھوک و افلاس کی وجہ سے ہڈیوں کے پنجرے بن کر زندگی کی آخری ہچکیاں لیتے دکھائی دیں گے اور پاس ہی گدھ اُنہیں نوچنے کے لیے تیار بیٹھے نظر آئیں گے جب کہ تھوڑی ہی دوراُنہی کی طرح نڈھال ایک 50سال کی عمر کے باپ کی آنکھوں میں لاچارگی اور بے بسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجائے گا۔

ماضی بعید میں مصر میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فرعون کی حکومت کے دوران ٹڈی دَل کا خطرناک حملہ ہوا تھا۔ جس سے مصر جو اُس وقت دریائے نیل اور اس سے نکلنے والی نالیوں کی وجہ سے ایک خوشحال اور سرسبز ملک تھا وہ ٹڈی دَل کے اس حملے کی وجہ سے ایک بھیانک قحط کا شکار ہوگیا۔ ٹڈی دَل روس میں حد سے زیادہ نقصانات کرتے رہے ہیں ۔ روس کے سائنسدانوں نے مختلف تجربے کیے اور بالآخر الٹرا برائیٹ ایل ای ڈی ریز ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹڈیوں کے دماغ ماؤف کرکے انھیں پکڑ کر پانی میں مچھلیوں کی خوراک بنادیا ۔ لیکن روس اور آفریقہ سے ملحقہ ممالک میںآج بھی اکثر ٹڈی کے یہ حملے ہوتے رہتے ہیں خاص طور پر قازقستان سب سے زیادہ متاثر ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں کے حسابی چارٹ کے حساب سے 60سال میں یہ ٹڈی دَل ہر 7سال میں ایک بار نمودار ہوتا ہے ۔ گذشتہ نصف صدی میں تقریباً 65ملکوں میں تباہی مچانے والی یہ ٹڈی کا ایک کروڑ دَل نارمل انداز میں صرف 24گھنٹے میں تقریباً 20 لاکھ ٹن خوراک کھاجاتے ہیں۔ پاکستان میں غالباً ٹڈی کا بڑا حملہ 1976-77 میں ہوا تھا ۔ اس حساب سے سندھ میں ٹڈی دَل کا حالیہ حملہ تقریباً 42سال بعد ہوا ہے ۔ جس میں تازہ کاشت ہونے والی گندم ، سبزیاں ، تیلی بیج اور دیگر فصلیں تباہ ہوگئی ہیں ۔ اس آفت کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر کنٹرول پروگرام اور ہر ملک کی جانب سے علیحدہ وارننگ نظام کئی عشروں سے جاری ہے لیکن دیگر اُمور کی طرح تیسری دنیا کے ممالک اس معاملے سے بھی نمٹنے میں ناکام رہے ہیں ۔

ٹڈی ایک ایسا اُڑنے والا کیڑا ہے جو لشکر کی طرح مل کر اُڑتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک نر ٹڈہ اس لشکر کا سپہ سالار مقرر ہوتا ہے ۔ جہاں وہ اترتا ہے تو تمام ٹڈیاں وہیں اُترتی ہیں اور جب تک وہ نہ اُڑے تب تک پورا دَل اُسی زمین یا علاقے میں ہی رہتا ہے ۔ یہ فصلوں پر حملہ کرتے ہیں اور پھل ، سبزیوں اور اناج کے ساتھ ساتھ گھاس اور نئے نکلنے والے گونچوں و پودوں اور درختوں کے پتوں تک کو کھاجاتے ہیں ۔ اوراگر انھیں کھانے کو کچھ نہ ملے تو یہ کمزور و نڈھال پڑے جانوروں تک پر بھی حملہ کرکے اُنہیں نوچ ڈالتے ہیں ۔

وبا کی طرح پھیلتی یہ خطرناک ٹڈی جب رواں سال کے مئی مہینے کے آخر میں ملک کے کچھ علاقوں بالخصوص چولستان ، تھر، اچھڑو تھراور اُن سے ملحقہ اضلاع پر حملہ آور ہوئی تو اُس علاقے کے لوگوں خصوصاً کاشتکاروں نے حکومت سے کافی اپیلیں کیں کہ اس کا تدارک کیا جائے ، لیکن حسب ِ روایت یہ حکمران اندھے ، گونگے اور بہرے بنے رہے اور کوئی حفاظتی و تدارکی اقدامات نہیں کیے بلکہ عوام کو تو مشورہ دیا کہ یہ نعمت ہے ۔ اِسے پکڑو اور کھاؤ۔

اسمبلی کے فلور پر ایسے مشورے دیتے ہوئے ماہر باورچی کی طرح پکانے کی تراکیب بھی دی گئیں اور مزے لے لے کر ٹڈی کڑائی اور ٹڈی بریانی کے مینو بتاکر کسانوں و کاشتکاروں کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ۔ پھر میڈیا بھی اس عوامی وسماجی مسئلے پر تب تک خاموش رہا جب تک یہ کراچی نہ پہنچ گئیں ۔ پھر ایک نیا تماشہ نظرآیا ۔ لوگوں سے ، بچوں سے پُرلطف تاثرات لیے گئے ۔ گویا یہ عذاب، پریشانی یا مصیبت نہیں بلکہ Entertainmentکا ساماں ہو، پھر لوگ بھی بڑے Excited نظر آئے ۔ کاش کہ اُس وقت اُنہیں کوئی فرعون کے ماتحت مصر کی طاقتور ترین زرعی معیشت کی تباہی کا سامان ثابت ہونے والی ان ٹڈیوں کی داستان یاد دلاتا۔

ملک بالخصوص سندھ میں مہنگائی کے مارے عوام پر ٹڈی دَل ایک بہت بڑی مصیبت بن کر آئی ہے ۔ لیکن ٹڈی دَل کے اس حملے پر مقامی ، صوبائی اور مرکزی حکومت و انتظامیہ چشم پوشی کرتی رہی ہے تو مذہبی حلقے اِسے عذاب ِ الٰہی بتاکر لوگوں کونصیحتیں کر رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میںحکومت خاموش ، میڈیا خاموش یہاں تک کہ عوام خاموش ۔

یوں لگتا ہے کہ یہ صرف کسان اور کاشتکار کا مسئلہ ہے ۔ بھلے ہی اس سے ظاہری طور پر شعبہ زراعت سے وابستہ افراد کا روزگار چلتا ہو لیکن ایک تو 70سال سے ملک میں جاری زرعی پالیسیوں کی بدولت کسان و کاشتکار کی حالت پہلے ہی ابتر ہے اور اس آفت کے مقابلے کی ان میں سکت نہیں ہے، اس کے باوجود اگر وہ اس کا مقابلہ کرنا چاہیں تو مطلوبہ سہولیات ، ادویات کی ملک میں عدم دستیابی کے باعث بھی وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ دوسرا یہ کہ یہ صرف کسی ایک شعبے کی تباہی کا معاملہ نہیں ہے ۔ اس آفت سے تو ملک میں غذائی قلت ایسے انسانی المیے کا باعث بن سکتی ہے جس کا تصور کرکے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ آج بھی جب اِس ٹڈی دَل نے بلوچستان اور چولستان کے کچھ حصوں اور سندھ بھر میں فصلوں کو چٹ کردیا ہے اور کاشتکاروں و کسانوں کی چیخیں نکال دی ہیں اُس وقت بھی کوئی ہنگامی اقدامات کرنے کے بجائے صوبائی ، مرکزی حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاسی Game Practice کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ سندھ حکومت ایک کروڑ کی رقم وفاق کو دیکر اب تمام تر ذمے داری اُس پر ڈال کر خود لمبی تان کر سو گئی ہے ، جب بھی ٹڈیوں سے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو وہ اراکین ِصوبائی کابینہ وفاقی حکومت کی لاپرواہیاں اور صوبہ سے عناد گنوانا شروع کردیتے ہیں ۔

سندھ کے وزیر زراعت اسماعیل راہو اسمبلی میں ایک طرف صوبہ میں برپا ہونے والی تباہی کا اعتراف کرتے ہیں تو دوسری طرف ضلعی سطح پر ٹیموں کی فعالیت کے دعوے کرتے ہیں ۔ اُن کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے پاس ٹڈی دَل کو صرف بھگانے کی دوائی ہے ، جس سے ہم اُسے ایک جگہ سے بھگاتے ہیں تو وہ دوسری جگہ پر حملہ کردیتا ہے ، جب کہ انھیں مارنے کی دوائی صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے جوکہ بیرونی ممالک سے منگاتی ہے ۔ وہ دوائی ہمیں فراہم نہیں کی جارہی ۔ پھر وہیں موصوف یہ بھی بیان دیتے ہیں کہ وفاق نے ہمیں ایک اسپرے جہاز (ایئرکرافٹ) اور کچھ دوائی دی ہے ۔ جس سے بہت جلد اس مسئلے پر قابو پالیا جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 28مئی 2019کو آنے والے اس ٹڈی دَل کو تقریباً 6ماہ گذرگئے ہیں، تو کیوں کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے گئے ؟ جب یہ ٹڈی یہاں آئی اور اُس کے ایک ماہ بعد وہ انڈے دینے کے لیے سندھ و بلوچستان کے غیر آباد علاقوںمیں پہنچی تو اُس وقت اُسے ختم کرنے کا وہ ایک بہترین موقع تھا کیونکہ اُس وقت وہ اُڑنے سے قاصر تھی ۔ اُس وقت محدود علاقوں میں ایک چھوٹے سے اسپرے آپریشن سے اُن کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا مگر اب ایک تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ صوبہ بھر میں پھیلی ہوئی ہے ، تو اب اس پر کیسے ایک اسپرے جہاز اور محدود دوائیوں کی مقدار سے اس پر کنٹرول کیا جائے گا؟

جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کے جھوٹے اعداد و شمار دکھا کر عوام پر احسانات جتائے جارہے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں ایک ماہ قبل نومبر کے آغاز میں یہ معاملہ پہنچنے کے باوجود بھی اس پر کوئی تدارکی پالیسی یا اقدامات نہیں ہوسکے۔ FAOکی طرف سے ٹڈی دَل کی تازہ موجودگی کے نقشے جاری کیے ہیں ، جن کے مطابق موراکو ، الجیریا سے لے کر ایران اور انڈیا تک کے ممالک اس ٹڈی دَل کے حملوں کی لپیٹ میں ہیں لیکن رپورٹ میں پاکستان میں ٹڈی دَل کے حملوں کی صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن لگتا ہے کہ ہماری مدبر حکومت کو شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ ایسی رپورٹس کے پیچھے سابقہ کرپٹ حکومتی لوگوں کو بچانے کی ایک چال ہے ، اس لیے اس پر کوئی بھی این آر او دینے اور عمل کرنے کی کوئی صورت ہی نہیں بنتی۔ پھراس ملک میں اقتدار کی مسند پر بیٹھے جینیس حکمرانوں کے پاس ہی ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے مہنگائی اور ٹڈی دَل بھی نعمتیں نظر آنے لگتی ہیں ۔

عوام کو اگر یہ نعمتیں نظر نہیں آتیں تو اس کی وجہ اُن کا اِس ’’جدید ٹیکنالوجی ‘‘ سے دور ہونا ہے۔ یہ نہ تھری ڈی ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی سیون ڈی ٹیکنالوجی کے تحت ہے یہ تو ’’نیا پاکستان کی اقتداری تبدیلی ٹیکنالوجی ‘‘ کے تحت ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کی اس کمال ذہانت کا ہی یہ کمال ہے کہ 10ارب ڈالر کے اضافی عالمی قرضے لینے ، ٹیکس آمدن بڑھانے اور تمام سبسڈیز بند کرنے کے بعد جاکر کہیں ملک میں یہ مہنگائی کرپانے میں کامیاب ہونے والی حکومت کی شاید یہ بھی مدبرانہ پالیسی ہوکہ ٹڈی دَل کے حملے سے ملک میں غذائی قلت ہونے سے یہ مہنگائی کی نعمت جاری رہ پائے گی اور اس سے گندم و دیگر اشیائے خورونوش امپورٹ کرنی پڑیں گی، جس سے امپورٹ کی تجارت کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اب بھلا یہ اتنی دور اندیشی والی بات عوام کہاں سمجھ سکتے ہیں ۔

اس وقت تک یہ ٹڈی دل تقریباً سندھ بھر کے 11اضلاع میں تباہی برپا کرچکا ہے ۔ گڈو بیراج کے گھوٹکی فیڈر اور سکھر بیراج کے نارا کینال کے درمیانی اضلاع جیسے گھوٹکی ، سکھر ، خیرپور ، نوابشاہ ، مٹیاری ، سانگھڑ ، عمر کوٹ اور تھرپارکر میں صورتحال سب سے زیادہ سنگین ہے ۔ جہاں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں ، مویشیوں کا چارہ ، درخت اور سبزے کا یا تو ٹڈی دَل نے صفایا کردیا ہے یا پھر اُس کے نشانے پر ہے۔

ٹڈیاں کہیں کھڑی گھاس و سبزیوں کا ستیا ناس کرچکی ہیں تو کہیں پر میوہ جات کے درختوں کو چاٹ کر گنجا کرچکی ہیں ۔جب کہ سب سے بھیانک صورتحال اس وقت گندم کی فصل کو لاحق ہے ۔ کہیں گندم کے پودے ابھی نکلے ہیں تو کہیں وہ پودے ایک فٹ قد تک کے ہوگئے ہیں اور کہیں تو پودے گندم کے سنگ آنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر اس گندم کی فصل پر یہ ٹڈی دل حملہ کرتا ہے تو اِس کا منٹوں میں صفایا کردے گا ۔ جس کی کئی جگہوں سے اطلاعات بھی ملی ہیں کہ ٹڈی دَل اُگائی گئی گندم کی فصل کو مکمل طور پر کھاگیا ہے ۔ ایسے میں ملک میں اناج کی قلت ہوجائے گی جوکہ پہلے سے غذائی کمی کے شکار اِس خطے میں بھیانک تباہی برپا کردیگی۔

لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ 6ماہ کا عرصہ گذرجانے کے باوجودتدارکی اقدامات کرنا تو دور کی بات صرف ٹڈی دَل کے آنے ، متاثرہ علاقوں اورہونے والی تباہی کا اندازہ لگانے کے لیے سروے تک بھی نہیں کرایا جاسکا ہے۔ ملک میں سرکاری ایمبولینس اور فائر برگیڈ گاڑیوں کی طرح پلانٹ پروٹیکشن سیل کے ٹڈی مار اسپرے جہاز بھی خراب اور Out of Maintenanceہیں تو ٹڈی مار ادویات بھی عدم دستیاب ہیں ۔ جب کہ پیسٹی سائیڈ کی دوکانوں پر موجود ادویات بھی Expiredہیں جس کے استعمال سے ٹڈی دَل پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔

سندھ حکومت کی جانب سے3 ایئرکرافٹس ، فیول ، اور ادویات کی مد میں مرکزی حکومت کو ایک کروڑ روپے پیشگی ادا کرنے کے باوجود مناسب اور بروقت انتظامات نہ کرنے پر سندھ کے عوامی حلقوں میں سخت طیش پایا جاتا ہے ، جب کہ متاثرہ علاقوں کے مکینوں کے مطابق اتنے بڑے متاثر ایریا میں صرف ایک جہاز اور معمول میں دی جانے والی ادویات کی عدم دستیابی ، پھر اس پر بھی جہاز کی خرابی ، جہاز کے ایندھن کی عدم دستیابی مرکز ی حکومت کی سندھ کے ساتھ روایتی روش کو ظاہر کرتا ہے ۔

پھر پیشگی اطلاع کے نظام کی موجودگی کے باوجود ٹڈی دَل کے آنے کی اطلاع والی نااہلی تو رہی ایک طرف لیکن 6ماہ قبل آنیوالی ٹڈی کے خاتمے کے لیے ادویات آرام سے منگائی جاسکتی تھیں ، ایئرکرافٹس کی فعالیت کا بندوبست کیا جاسکتا تھا لیکن ایسے اور اس طرح کے کوئی بھی تدارکی اقدامات نہ کرنا حکومت کی نااہلی اور Bad Governanceکی بدترین مثال ہے ۔ یہاں تو ’’اندھیر نگری ، چوپٹ راجہ ‘‘ کا شاہکار ماحول برپا ہے ۔ جس میں ہر چیز میں بدعنوانی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے ۔

کرپشن صرف رشوت ستانی کا نام نہیں بلکہ اپنے ملک میں عالمی سطح کے چلنے والے پولیو طرز کے پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے نامکمل اقدامات کیے جانا اورقدرتی آفتوں کی صورت میں ملنے والی امدادی رقوم کا مناسب استعمال نہ ہونا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ۔اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ادویات منگانی چاہئیں ، ایئرکرافٹس کی تعداد بڑھاکر اُن کی مینٹی ننس اور فیول دستیابی و عملے کی فعالیت کو یقینی بنانا چاہیے۔

اس کے لیے سندھ حکومت سے وصول کردہ پیسوں کے حساب سے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ مرکزی حکومت کو سندھ صوبہ کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے اس آفت سے نمٹنے کے لیے اپنا بجٹ بھی استعمال کرنا چاہیے کیونکہ بالآخر سندھ براہ راست زرعی پیداوار میں 23% آمدن اور ملکی مجموعی آمدن میں 70%دینے والا ملک کا اہم ترین صوبہ ہے ۔ اس لیے سندھ اپنے آمدن میں سے حصہ کوئی احسان جتاکر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر اس آفت سے بچاؤ پر لگایا جائے ۔ ویسے بھی یہ ٹڈیاں ہماری پہلے سے کمزور زراعت و معیشت کو نیست و نابود کرنے کا سبب بن سکتی ہیں ۔ اس لیے انھیں روکنے ، بھگانے یا ختم کرنے کے فوری انتظامات کرنے چاہئیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔