قرآن پاک کی بے حرمتی اور عمر الیاس  (دوسرا اورآخری حصہ)

نسیم انجم  ہفتہ 7 دسمبر 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

عمل کرنے سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ رب العزت نے آپس میں محبت و پیار کا پیغام دیا ہے، صبر و شکر ، عفو و درگزر ، صبر و تحمل، عزیز و اقارب حتٰی کہ پڑوسیوں تک کے حقوق کی ادائیگی اور عادات رذیلہ ، جوا، شراب اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم آیا ہے، عورتوں کی عزت و احترام ان سے شفقت و محبت کا ذکر موجود ہے بلکہ اﷲ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے خود عمل کرکے دکھایا ہے۔ اپنی گوشۂ جگر نور نظر حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کے وقت آپﷺ احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے۔

آپ آقائے دو جہاں قرآن پاک کی تفسیر ہیں جو قرآن پاک میں ہے اس کا عکس آپﷺ کی زندگی میں مکمل طور پر نظر آتا ہے۔ آج مسلمان اپنی بیٹیوں کی عزت کرتے اور نہ ان کی شادیاں کرتے وقت ان کی رضا کا خیال رکھتے ہیں، نہ جائیداد میں حصہ دیتے ہیں بلکہ بیٹیوں پر بیٹوں کو فوقیت دیتے ہیں اسی طرح خاوند ذرا ذرا سی بات پر طعنے تشنوں کے نشتر چبھوتا ہے اور اکثر اوقات تشدد کرنے اور قتل کرنے سے باز نہیں آتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، حضور ﷺ کے امتی ہیں؟

مسلمانوں کے زوال نے کفار کو شہہ دی ہے، مریں کو ماریں شاہ مدار والا معاملہ ہے ۔ مغربی طاقتیں شاہ مدار کا کردار ادا کررہی ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں ۔ مذہبی حوالے سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔ مسلمان ویسے بھی اس معاملے میں بے ضرر ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انجیل مقدس کی بے حرمتی کریں ۔ مسلمانوں کے لیے دنیا کے تمام مذاہب قابل احترام ہیں، تمام پیغمبروں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا قسمت کا یقین کرنا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے، ایمان مجمل اور ایمان مفصل میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

عیسائی حضرت عیسیٰ کو اﷲ کا بیٹا مانتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ رشتوں سے پاک ہے وہ واحد ہے، یکتا ہے اور بڑی قدرت والا ہے، سورہ اخلاص میں اﷲ وحدہ لاشریک کی مکمل تعریف بیان کی گئی ہے۔

اس بات سے مسلم اور غیر مسلم سب واقف ہیں کہ قرآن پاک کا ہر لفظ سچا ہے اسی لیے مخالف قوتیں خائف رہتی ہیں اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کے لیے شرپسندوں کو اکساتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں تاکہ فتنہ و فساد پھیلے اور ہنگاموں اور مسلمانوں کے احتجاج کو دہشتگردی کا نام دے کر طاقت کے بل پر انھیں جانی ومالی نقصان پہنچائیں۔

تبلیغ دین کا فریضہ ہر مسلمان پر واجب ہے تاکہ جو غیر مسلم ہیں انھیں اسلام کی حقانیت سے آگاہ کیا جائے۔ ہمارے ملک کے قابل احترام علماء بیرون ممالک میں جاکر اسلام کا پیغام پہنچارہے ہیں اس کوشش کے نتیجے میں اﷲ کی مہربانی سے کفار دائرہ اسلام میں ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں اور ماضی کے گناہوں کا احساس کرکے گھنٹوں اشکبار رہتے ہیں گو کہ اﷲ تعالیٰ جو کہ بڑا مہربان اور رحیم ہے وہ نو مسلموں کو ایسی زندگی میں داخل کردیتا ہے جہاں وہ ہر گناہ سے پاک اور نوزائیدہ بچے کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر یہ ہی مسلمان دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور افسوس جو نسلاً مسلمان ہیں وہ برے کاموں میں ملوث ہیں اور اپنے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں، جاننے کے لیے شوق اور ولولہ کی ضرورت ہے، قرآن پاک کا ترجمہ باوضو ہوکر توجہ سے سنیں تو یہ بات سو فیصد درست اور آزمودہ ہے کہ دنیا ہی بدل جائے گی۔ ایک ایسی دنیا خوش آمدید کہے گی۔ جہاں سکون ہے، عزت و مرتبہ ہے، دولت ہے ۔ اﷲ فرماتا ہے کہ تم ایک قدم آگے بڑھائو اﷲ دس قدم آگے آئے گا۔ کیوِں؟ اس کی وجہ مالک حقیقی کو انسان کی نیتوں کا علم ہے وہ علم و عرفان فتح ونصرت اور دولت و ثروت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ صدقہ و خیرات رزق کو بڑھاتے ہیں، اﷲ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ’’جو لوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے ، نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو اﷲ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے ۔ (البقرہ263)

آج کا دور فتنوں کا دور ہے، اقربا پروری ، جھوٹ، بددیانتی عروج پر ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں یہ برائیاں خوب پنپ رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایسے عالم بھی موجود ہیں جو قرآن پاک کی ان آیات کو اپنے فائدے کے لیے پڑھتے اور اس کی تشہیر کرتے ہیں اور جن کی انھیں ضرورت پیش نہیں آتی ہے اس سے وہ لاتعلق رہتے ہیں۔ ہماری حکومتوں میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔

تورات کے ساتھ یہودی اور انجیل کے ساتھ پادری یہ ہی کرتے رہے ہیں۔ ایسے علماء کے لیے جو قرآن پاک میں تحریف کرتے ہیں یا آیات کا ترجمہ اپنے مطلب کیمطابق کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے اﷲ نے سزا مقرر کی ہے کہ دنیا میں ذلت کے ساتھ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور آخرت میں سخت ترین عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ مسلمانوں نے آپس کی رنجشوں اور مختلف فرقوں میں بٹ کر اپنے آپ کو بے حد کمزور کرلیا ہے۔

اب دشمنانِ اسلام جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور مسلمانوں کے جان و مال کے سخت ترین دشمن بن کر سامنے آتے ہیں۔ ویسے تو تاریخ گواہ ہے جب بھی مسلم حکمران اور عوام عیش و طرب میں مبتلا ہوئے دشمنان اسلام نے ان سے ان کی عزت، خودداری ، آزادی اور تعیشات زندگی کی ہر چیز چھین لی اور وہ سڑکوں پر آگئے۔ شہزادے، شہزادیاں بھیک مانگنے پر مجبور ہوئیں۔ بہادر شاہ ظفر جو کہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار تھے ان کی غفلت نے انھیں قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا بلکہ شاہی خاندان بکھرگیا اور برے انجام کو پہنچا۔

ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، مساجد میں مسلمانوں کا عبادت کرنا مشکل ہوگیا۔ ناروے میں پھر ایک واقعہ پیش آیا۔ واقعات تو پوری دنیا میں ایسے سامنے آرہے ہیں جن میں مسلمانوں کو ذلت سے دوچار کیا جارہا ہے۔ پیروں میں روندتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہے چونکہ حکومت ان کے ساتھ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحبِ ایمان شخص ناروے کی ایک مسجد میں تلاوت کررہا تھا اسی دوران ناروے کی پولیس کتے کی زنجیر پکڑے مسجد میں داخل ہوتی ہے اور اس نمازی پر کتا چھوڑ دیتی ہے۔ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم کتنا بھی ظلم کرلیں ہمارا کوئی بال بیکا نہ کرسکے گا۔

اس قسم کے حالات پیش آنے کے باوجود مسلم حکومتیں خاموش ہیں بلکہ ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ تجارت کرنے میں مصروف ہیں۔ انھیں فائدے پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔ اﷲ نے سورہ نور میں فرمایا ہے کہ رسولﷺ کے حکم کے خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں لیکن صد افسوس یہ زمین فتنوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ اﷲ اپنا رحم عطا فرمائے آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔