میری طرح شرمسار ہی ہوں گے آپ!!

شیریں حیدر  اتوار 8 دسمبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ توبہ… اتنے گندے نوٹ!!‘‘ میں نے منہ بسور کر کہا تو صاحب کی گھوری کا سامنا ہوا۔

’’ گندے ہیں تو کیا ہوا… کون سا میں نے خود بنائے ہیں، سارے خرچ ہی تو کرنا ہیں آپ نے، بلکہ آخری تاریخوں میں کوئی نہ کوئی عذر پیش کر کے اور بھی وصول کرنا ہیں ! ‘‘ ایک تو ایسا لیکچر سننے کو جواز میں خود ہی انھیں فراہم کر دیتی ہوں اور پھر پچھتاتی ہوں ۔ بہر حال، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ان سار ے نوٹوں کو شکریہ کے ساتھ وصول کیا اور اپنے والٹ میں رکھنے کی بجائے ایک کاغذی لفافے میں ڈال کر رکھا کہ بٹوا خراب نہ ہو۔ اسی لفافے پر میں نے ان نوٹوں کا بجٹ بنایا اور پرس میں رکھ لیا۔

فارغ وقت میں، میں نے ان میں سے قدرے بہتر نوٹوں کی چھانٹی کی اور انھیں اپنے بٹوے کی زینت بنایا کہ بندہ بازار میں جائے تو لفافوں میں سے نوٹ نکالتا ہوا کیسا برا لگے ۔ ’’ بیوی ان سب نوٹوں کی وہی قدر اور وقعت ہے جو اسی مالیت کے نئے نوٹوں کی ہوتی ہے!!‘‘ ایک تو ان مردوں کو علم نہیں کہ عورتوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے، جانتے ہی نہیں کہ نئے نوٹ ہوں تو انھیں سنبھال سنبھال کر خرچ کیا جاتا ہے اور نسبتاً بچت ہو جاتی ہے۔ مگر انھیں کیا علم، کبھی ایسے نکور نوٹ دیے ہوں تو علم ہو کہ بیوی نے بھی کوئی بچت کی ہے۔

ایسے گندے اور مسلے ہوئے نوٹ، داغ داغ، کئی رنگوں کی سیاہی سے ان پر لکھی ہوئی نامعقول عبارتیں ۔ انھی گندے مندے نوٹوں میں سے میں نے تمام ملازمین کی تنخواہیں نکالیں، اس کے بعد بلوں میں ان کی مطلوبہ رقوم لپیٹیں ، بلوں کی رقوم نکل جانے کے بعد بھلا بچا ہی کیا تھا جو میں نئے اور پرانے میں تمیز کر پاتی۔ پھر بھی میرے معیار سے کمتر چند نوٹ رہ گئے تو میں نے انھیں اپنی گاڑی میں رکھ لیا کہ کسی راہ خدا مانگنے والے کو دے دوں گی۔

کسی کی عیادت کو اسپتال جا رہی تھی، گاڑی میں ریڈیو لگا ہوا تھا اور اس پر کوئی مذہبی پروگرام، میںنے اسے سننا شروع کر دیا۔ کوئی عالم واقعہ سنا رہے تھے کہ ایک ولی اللہ کسی بزرگ کے پاس گئے اور سوال کیا ، ’’ انسان عظمت کی انتہا تک کب اور کیسے پہنچتا ہے۔؟‘‘ ان بزرگ نے کہا ’’ جب اسے اللہ تعالی کی ذات دنیا کی ہر چیز اور پھر اپنی ذات سے بڑھ کر پیاری ہو جاتی ہے! ‘‘ سوالی بہت حیران ہوا اور کہا ، ’’ جناب یہ تو بڑی ہی عجیب سی منطق ہے، کون انسان اور بالخصوص مسلمان ہے کہ جسے اللہ تعالی کی ذات اپنی ذات اور دنیا کی ہر چیزسے افضل نہ ہو، اس میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں ! ‘‘ ان بزرگ نے کہا ، ’’ چند دن یہاں رہو، ہمیں شرف میزبانی بخشو اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا موقع ڈھونڈو کہ تم ہمیں اپنے عمل سے ثابت کردو کہ تمہیں اللہ سے خود سے بڑھ کر محبت ہے! ‘‘ اس سوالی نے چیلنج قبول کیا۔ وہ اپنی زبان سے بار ہا کہہ چکا تھا کہ اسے اللہ تعالی سے خود سے بھی بڑھ کر پیار ہے، لیکن ان بزرگ کو یقین دلانا لازم تھا تو اس نے ان کی مہمانی کی دعوت کو قبول کیا اور وہاں قیام پذیر ہوا۔

اگلی صبح اس کے سامنے ناشتے کے وقت انواع و اقسام کے لوازمات سے سجی ٹرے پیش کی گئی، تازہ تازہ بنا ہوا حلوہ، دیسی گھی کے اشتہا انگیز پراٹھے، دہی اور دودھ۔ اسی ٹرے میں ایک طرف ایک پلیٹ میں رات کی باسی دو روٹیاں اور چنے کی دال کا تھوڑا سا ٹھنڈا سالن بھی تھا۔ اسے سمجھ میں نہ آیا کہ اس اشتہا انگیز ناشتے کے ساتھ اس روکھی سوکھی کی تک کیا بنتی ہے۔ تاہم اپنے ناشتے کی خوشبو میں کھو کر اسے اس پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اور اس نے اپنی پلیٹ میں دہی اور حلوہ ڈالا، اسے کھانے کے لیے پراٹھا ہاتھ میں پکڑاہی تھا کہ اس کے دروازے پر دستک ہوئی، اس نے دروازہ کھٹکھٹانے والے کو اندر آنے کو کہا، اس نے وہیں سے سوال کیا، ’’ سخیا… دو دن کا بھوکا ہوں، کچھ کھانے کو نہیں ملا، اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو! ‘‘ اس نے اسے لوٹ جانے کو کہا اور ساتھ ہی بھیک مانگنے پرلعنت ملامت بھی کی۔ اس نے پھر صدا لگائی، ’’ دو دن سے سوائے پانی کے کچھ نصیب نہیں ہوا، سخیا، اللہ پاک کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو! ‘‘ اس کی دوبارہ آواز سے چڑ کر اس نے اپنی ناشتے کی سجی ہوئی ٹرے میں سے وہ پلیٹ اٹھائی جس میں ٹھنڈی دال اور سوکھی روٹی تھی اور دروازے تک جا کر اسے دے دی۔ وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔

ناشتے کے بعد اس سوالی کی حاضری ان بزرگ کے سامنے ہوئی ، انھوں نے اس سے پوچھا کہ اس کی رات کیسی گزری، سکون سے سویا، ناشتہ کیا کہ نہیں ، ناشتہ کیسا لگا؟ اس نے ہر طرح سے اطمینان دلایا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس کی خوشی اور آرام کا اتنا خیال رکھا۔ مگر ساتھ ہی اس نے کہا کہ اسے اپنے سوال کا جواب کب اور کس طرح ملے گا۔ ان بزرگ نے کہا، تم نے رات میرے سامنے دعوی کیا کہ تمہیں اللہ تعالی سے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اور بالخصوص اپنے آپ سے بڑھ کر پیار ہے، زبانی دعوی تو کیا مگر عملی طور پر تم نے اپنی ہی بات کو پہلے دن باطل ثابت کر دیا۔

’’ نعوذ باللہ!!‘‘ اس نے جذباتی پن سے کہا، ’’ جناب، میںنے کوئی کھوکھلا دعوی نہیں کیا، میں نے وہی کہا جو میرے دل میں ہے اور وقت آنے پر میں ثابت کردوں گا کہ… ‘‘

’’ تم کیا ثابت کرو گے جوان، تم نے تو اپنے سامنے نعمتوں سے بھری ٹرے میں سے، اللہ کے نام پر سوال کرنیوالے کو جو کچھ دیا، وہ تم جانتے ہو۔ تم نے اللہ کے نام پر مانگنے والے کے لیے کیا دیا، ٹھنڈی دال اور رات کی باسی روٹی؟ اس سے ثابت ہو گیا کہ تمہیں اللہ سے کتنا پیار ہے اور تمہارا دعوی کتنا سچا ، اگر تمہیں اللہ سے پیار ہوتا تو تم اپنے سامنے رکھی ہوئی تازہ ناشتے کی ٹرے، اس کے نام پر مانگنے والے کو دے دیتے۔ اگر یہ نہیں، تمہیں اللہ سے اپنی ذات جتنا پیار ہوتا تو تم اپنے ناشتے میں سے آدھا ناشتہ ہی اسے دے دیتے جس نے تمہیں اس سوہنے کے نام کا واسطہ دیا تھا!!‘‘ اس کے بعد وہ کیا بول رہا تھا وہ میں سن کہاں رہی تھی، میںتو جانے کس خیال میں تھی۔

میں نے اسی دن کا پہلا حصہ یاد کیا، میں نے اپنی گاڑی میںوہ سارے نوٹ رکھ دیے تھے جنھیں میں نے اپنے بٹوے میں رکھنا گوارا نہیں کیا تھا اور کس لیے… کہ ان کو دوں گی جو مجھ سے اللہ کے نام پر کچھ مانگیں گے۔ میں، آپ اور وہ… ہم سب یہی تو کرتے ہیں۔ جو کپڑا پرانا اوربیکار لگتا ہے اسے اللہ کے نام پر دینے کے لیے رکھ لیتے ہیں، اجناس میں کیڑے پڑ جائیں تو انھیں چھان پھٹک کر کسی غریب کو اللہ کے نام پر دے دیتے ہیں، گلے ہوئے پھل اور مرجھا جانیوالی سبزیاں ، ناکارہ فرنیچر، اپنے بچوں کے پرانے کپڑے، ٹوٹے ہوئے کھلونے، ان کی استعمال شدہ پھٹی ہوئی کتابیں، گھر کا بیکار اور فالتو سامان۔ یہ ہے ہماری اللہ سے محبت؟؟

سوچ سوچ کر، اتنی دھند ہو گئی کہ گاڑی چلانا مشکل ہو گیا۔ دل شرمساری سے کانپ رہا تھا، کیسے اتھلے، بے حوصلہ اور منافق لوگ ہیں ہم۔ زبانی دعوؤں میں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ سے بہت محبت ہے، دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر، یہانتک کہ خود سے بھی بڑھ کر۔ اس وقت خیال آیا کہ خود سے بڑھ کر کسی سے محبت کرنا، فقط کہنا آسان ہے، عملی طور پر ہم بہت بودے ہیں۔ ہم تو اللہ کی دی ہوئی ا مانتیں اور چیزیں بھی اسے واپس کرتے وقت کئی کفر کے کلمات کہہ جاتے ہیں، دل میں ایسے گھٹیا اور اتھلے خیال آتے ہیں کہ زبان پر انھیں لاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

ہم کیا کریں گے اللہ سے محبت اور کیا ثبوت دیں گے اس محبت کا، کیا اور کس منہ سے جواب دیں گے اسے کہ ہم نے اس کی محبت کو ایک بیانیہ بنا رکھا تھا۔ جب اس محبت کے مظاہرے کا وقت آتا ہے تو ہم اس محبت کے اظہار میں شکست کھا جاتے ہیں۔ ہم تو اس کانام لے کر کام کا آغاز کرنا بھول گئے ہیں، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں اور اس کی بنائی ہوئی خوبصورتیوں کی تعریف کرنے میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں اور دل ہی دل میں حسد کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ سب کچھ ہمیں کیوں نہیں ملا اور اوروں کے پاس کیوں ہے۔ اپنا محاسبہ کریں، جوں جوں سوچتے جائیں گے، میری طرح شرمسار ہی ہوں گے آپ!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔