قیمتی کبوتروں کی سرحد پار اڑانوں سے کبوتر باز پریشان

آصف محمود  اتوار 8 دسمبر 2019
پاؤں میں چھلے اور پروں پر نشانیاں لگاتے ہیں، بھارت جاسوس سمجھ لیتا ہے، مالکان۔ فوٹو: بشکریہ اوڈٹی سینٹرل

پاؤں میں چھلے اور پروں پر نشانیاں لگاتے ہیں، بھارت جاسوس سمجھ لیتا ہے، مالکان۔ فوٹو: بشکریہ اوڈٹی سینٹرل

لاہور: پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے کبوتربازوں کا کہنا ہے کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے ان کے قیمتی اورنایاب نسل کے کبوترایک سے دوسرے ملک میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں نقصان برداشت کرنا پڑتاہے۔

لاہورکے سرحدی علاقوں واہگہ، بھانوچک،  نروڑ، لبان والا، ٹھٹہ ڈھلواں میں درجنوں افرادایسے ہیں جنہیں کبوتربازی کا شوق ہے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے یہ لوگ انتہائی قیمتی کبوتر پالتے ہیں مگرکئی بارایسا ہوتا ہے کہ ان کے کبوترہوا میں اڑان بھرتے سرحدعبورکرجاتے ہیں، اکثرکبوتر واپس اپنی چھت پرآجاتے ہیں لیکن بعض اوقات کئی کبوتر واپس نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

مقامی کبوتر باز محمد ریحان نے بتایا کہ ان کے پاس سیکڑوں کبوترموجود ہیں جن میں سے کئی ایسے ہیں جن کی قیمت ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے، وہ ان کبوتروں کی اپنے بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں مگراس وقت انھیں دکھ ہوتا ہے جب ان کے کبوترچند فرلانگ کے فاصلے پر واقع بھارتی سرحدعبورکرجاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے۔

انھوں نے بتایا کہ تیزہواؤں کی وجہ سے بعض اوقات کبوتربھارتی ایریا میں زیادہ دورتک چلے جاتے ہیں ،کئی بارایسا بھی ہوتا کہ بھارت جانے والے کبوترکئی روزبعد واپس لوٹ آتے ہیں۔

کبوتروں کے شوقین محمدعرفان کہتے ہیں عام قسم کے کبوترچلے بھی جائیں توان کا دکھ نہیں ہوتا مگرکچھ کبوترخاص ہوتے ہیں، ان میں ٹیڈی، گولڈن، رام پوری، کمان گر، فیروزپوری، لاکھے، لاکھے جالندھری اور انمول شامل ہیں، ان میں سے ایک ایک کبوتر کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زائد ہے،انھوں نے بتایا کہ قیمتی کبوتروں کے پروں پر مہریں لگائی جاتی ہیں اوران کے پاؤں میں خاص نشان والے چھلے پہنائے جاتے ہیں تاکہ پہچان ہوسکے مگرجب یہ دوسرے ملک چلے جاتے ہیں توپھران کی واپسی کم ہی ہوتی ہے۔

پاکستانی کبوتربازوں کا کہنا تھا کہ جس طرح ہمارے کبوتربھارت میں چلے جاتے ہیں اسی طرح بھارت سے بھی کئی قیمتی کبوتراڑکرپاکستان پہنچ جاتے ہیں اوریہاں ان کی چھتوں پربیٹھ جاتے ہیں، اب کسی اعلیٰ اور قیمتی نسل کے کبوترکواپنے پاس رکھنا درست نہیں ہے مگرہم وہ کبوترکس کوواپس کریں کیونکہ ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا مالک کون ہوگا۔

بھارتی سرحدی گاؤں اٹاری کے رہائشی ایک کبوترباز راجیندر سنگھ روبی نے ٹیلی فون پرایکسپریس کو بتایا کہ ویزا اورآنے جانے کی پابندی تودونوں ملکوں کے شہریوں پرعائد ہوتی ہے، یہ پرندے ان سرحدی پابندیوں سے آزادہوتے ہیں، بھارت سے اکثرکئی جنگلی جانورپاکستان چلے جاتے ہیں، اسی طرح ہمارے یہاں سے کبوتراڑکر پاکستان اوروہاں سے یہاں آتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ دونوں جانب کے کبوترباز اپنے کبوتروں کو نشانی لگاتے ہیں لیکن کبوتروں اورجنگلی جانوروں کی واپسی کا کوئی طریقہ کارنہیں،دونوں ملکوں کی حکومتوں کو سوچناچاہیے کہ اگرکوئی کبوتربازاپنے کبوترکی درست نشانی بتائے تواس کا کبوترواپس مل جانا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں لگتاہے۔

واضح رہے کہ پاکستان سے اڑکربھارت جانے والے کئی کبوتروں پر بھارت کی طرف سے جاسوسی کا الزام لگا کر انھیں پکڑابھی جاتا رہا ہے، پاکستانی کبوتربازکبوتروں کے پروں پر اردومیں لکھی گئی مہرلگاتے ہیں جسے بھارتی ایجنسیاں کوئی خفیہ پیغام سمجھ لیتی ہیں، بھارت میں پکڑے جانیوالے کئی پاکستانی کبوتر تو جاسوسی کے الزام کی وجہ سے خاصی شہرت بھی پاچکے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔