دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل اردو اپنے ہی ملک میں دربدر ہے، مقررین

اسٹاف رپورٹر  اتوار 8 دسمبر 2019
’’اْردوفکشن، معاصرمنظر نامہ‘‘ کے موضوع پرسیشن میں نجمہ عثمان ،عرفان جاوید،اخلاق احمد ،اختر رضا سلیمی نے مقالے پیش کیے۔ فوٹو: ایکسپریس

’’اْردوفکشن، معاصرمنظر نامہ‘‘ کے موضوع پرسیشن میں نجمہ عثمان ،عرفان جاوید،اخلاق احمد ،اختر رضا سلیمی نے مقالے پیش کیے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: آرٹس کونسل کراچی میں عالمی اْردو کانفرنس کے تیسرے روز ’’اْردو فکشن، معاصر منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر منعقد سیشن کی مجلس صدارت اسد محمد خاں، حسن منظر اور مسعوداشعرنے کی۔

برطانیہ سے آئی نجمہ عثمان نے ’’اردو فکشن انگریزی فکشن کے تناظر میں‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ افسانے نے کئی منازل طے کی، پہلا افسانہ ہندوستان میں منشی پریم چند نے لکھا تھا، تقسیم سے پہلے جو افسانے لکھے گئے اس زمانے میں راشد الخیری نے پہلا افسانہ لکھا جواصلاحی اور سماجی نوعیت کا تھا، منشی پریم چند کے بعد جدیدیت کا دور آیا مگر یہ دور زیادہ نہیں چل سکا، پھر اس کے بعد افسانے نے ایک نئی راہ اختیارکی جس میں جمالیاتی تصور بھی افسانے میں شامل ہونے لگا۔

قرۃ العین حیدر نے مشرق اور مغرب کا بہت خوبصورت امتزاج پیش کرکے کئی افسانے تحریرکیے، اس کے بعد عصمت چغتائی آئیںاور پھر راجندر سنگھ بیدی، یہ سب اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے ہی لکھتے رہے ، عرفان جاویدنے ’’فکشن کیوں پڑھا جائے‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ فکشن کے مطالعے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں۔

اخلاق احمد نے ’’جدید افسانے میں عصری حسیت‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ادب اپنے سماج کا آئینہ نہیں ہوگا تو ادب ہی کیوں کہلائے گا، میں نے اپنی زندگی کے تقریباً 28سال صحافت میں گزارے ہیں مگر جیسی خاموش سنسر شپ آج ہے ایسی ہم نے کبھی نہیں دیکھی، اختر رضا سلیمی نے ’’اْردو میں ناول کی کمی: ایک بحث‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اْردو دْنیا کی 5بڑی زبانوں میں سے ایک ہے مگر ہم اس کو اپنے ہی ملک میں قومی زبان نہیں بنا سکے، اْردو اپنے ہی ملک میں دربدر ہے۔

خالد محمود سنجرانی نے ’’جدید افسانہ اور سماجی معنویت‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہماری کلاسیکی کہانیاں ڈھول پر تھاپ جیسی ہیں،جو فرق ڈھول اور ڈرم میں ہے وہی فرق کہانی کی کلاسیکی اور جدید صورت میں سامنے آیا ہے، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ’’اْردو افسانے، 9/11 کے تہذیبی وسیاسی اثرات‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تعریف متعین نہیں کی جاسکتی۔

ٹوکیو یونیورسٹی کے سویامانے یاسرنے ’’جاپان میں اْردو افسانے کا مطالعہ‘‘پر اْردو زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جاپان میں اب تک 200سے زائد اْردو افسانوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے، صبا اکرام نے ’’روشن خیالی اور ہم عصر افسانہ‘‘ پراظہارِ خیال کرتے ہوئے مختلف افسانہ نگاروں کے طرزِ تحریر پر روشنی ڈالی۔

اردو اور سندھی نے ایک دوسرے کو بہت کچھ دیا، نور الہدی شاہ

عالمی اردو کانفرنس میں جدید سندھی ادب کے موضوع پر منعقد سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز بخاری، مظہر جمیل، نورالہدی شاہ، ریاضت برڑو، پروفیسر نور احمد جنجہی نے کہاکہ سندھی ادب کو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ ادب کی مزید ترقی ہواس کی حفاظت نوجوان لکھنے والوں کو کرنا ہے جن کواربنائزیشن کی طرف آنا ہو گا۔

مقررین کہنا تھاکہ دیگرادب کی طرح سندھی ادب بھی دباؤکا شکاررہا مگر سندھی زبان میں لکھی گئی کہانیوں نے معاشرے پرگہرااثرچھوڑا،موجودہ وقت میںکہانی اور ناول میں تبدیلی آئی ہے، یہ دراصل سوچ میں تبدیلی ہے، وقت کے گزرنے کے ساتھ معاشرتی تبدیلیوںکااثر ادب پر بھی پڑتاہے،اردو اور سندھی نے ایک دوسرے کوبہت کچھ دیا،آج لکھنے والے کے پاس زمین کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی کمی ہے، فرزانہ شائین، ضراب حیدر ،ظفر جنونجو، حسیب کائیوطارق قریشی نے بہت اچھی کہانیاں لکھی جو سماج کی عکاسی کرتی ہیں۔

قومی ثقافتی پالیسی کے لیے مشاورت لازمی ہے، سرداراحمد

عالمی اْردو کانفرنس میں ’’پاکستانی ثقافت، تخلیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر ثقافت سید سردار احمد نے کہا کہ برصغیر میں سندھ واحد صوبہ ہے جہاں زبان کے تحفظ کے لیے پہلی یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے، قومی ثقافتی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ وفاق تمام یونٹوں سے مشاورت اور اتفاق کرے ،قومی ثقافتی پالیسی کے لیے مشاورت لازمی ہے۔

امجد اسلام امجد نے کہا اس خطے کی تاریخ ہے کہ حملہ آوروں نے اس خطے کو بار بار روندا، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تاریخ کے فیصلے نہ پسندیدہ بھی ہوں اس کو ماننا ہوگا اور جو غلطیاں ہوئیں اس کا ازالہ کرنا ہو گا۔

قاسم بگھیونے کہاکہ ثقافت لوگوں سے ہوتی ہے اور یہاںکے علاقوں میں رہنے والوں نے ہمیشہ نئی نئی ثقافتیں پروان چڑھائیں،غازی صلاح الدین نے کہاکہ ہم اس وقت تہذیبی پسماندگی کا شکار ہیں اس کا دور ہونا ضروری ہے، اس کے لیے جمہوری آزادیوں کا ہونا لازمی ہے،سیشن سے ثروت محی الدین ،اباسین یوسف زئی نذیر لغاری افضل مراد نے بھی خطاب کیا۔

پنجابی ادب کا بہت بڑاخزانہ موجود ہے، ثروت محی الدین

عالمی اردوکانفرنس میں ’’پنجابی ادب‘‘ پر مبنی سیشن کا انعقادکیاگیا،محمد حنیف نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میںاور کچھ کامیاب ہو نہ ہو اْردو زبان ضرور کامیاب ہوئی ہے، ہمارے ہاں مڈل کلاس پنجابیوں کا زبان سے رشتہ کافی مضبوط ہے، ہمارے اسکول کے دور میں ہمارے استادوں نے ہمیں اْردو بھی پنجابی میں پڑھائی، لیکن آج کل کے دور میں اسکولوں میں بچے بھیجنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ مادری زبان سے دور ہوجائیں، میرا یہ ماننا ہے کہ ہمارے جیسے پاور فل لوگ پنجابی نہیں بولیںگے تو پھر کون بولے گا۔

ثروت محی الدین کاکہنا تھاکہ ہمارے پاس پنجابی ادب کا بہت بڑا خزانہ موجود ہے جیساکہ بابا فرید، بلھے شاہ، وارث شاہ، گرونانک ، میاں محمد ان تمام افراد نے پنجابی ادب کے لیے بہت خدمات انجام انجام دی ہیں، انھوں نے کہاکہ ہمارے پاس بارہویں صدی سے پنجابی کلاسیکل لٹریچر موجود ہے جوپڑھایا نہیں جاتا، یہ بات ٹھیک ہے اردو رابطے کی زبان ہے جس کے بغیر ہم گفتگو نہیں کر سکتے لیکن اپنی مادری زبان کی قدر کرنا بھی بہت ضروری ہے، ثروت محی الدین نے پنجابی میں اپنی شاعری بھی پیش کی۔

ڈائریکٹرز اور فنکار کبھی رٹائرڈ نہیں ہوتے، قوی خان

ٹی وی ڈراموں کے ڈائریکٹرز اور فنکاروں کی کبھی بھی رٹائرمنٹ نہیں ہوتی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا تجربہ بڑھتا ہے ،آج کا ڈرامہ اس لیے خوشحال ہے کہ پیسے زیادہ مل رہے ہیں مگر معیار کم ، ماضی میں جو لوگ ڈرامے سے وابستہ تھے وہ پڑھے لکھے اور ڈرامے کو سمجھنے والے تھے مگر اب ایسی کوئی قید نہیں، ٹی وی ڈراموں پر سینسر شپ نہیں ہے، جو چاہا لکھ دیا اور جسے چاہا اداکاری کرنے کا موقع دے دیا یہ سوچے بغیر کہ جو مکالمے وہ بول رہا ہے وہ فیملی کے ہمراہ سنے جا سکتے بھی ہیں یانہیں،ان خیالات کااظہارسینئر فنکارقومی خان اور منورسعید نے ’’پاکستان میں فنون کی صورت حال‘‘ پرمنعقدہ سیشن میں گفتگوکرتے ہوئے کیا۔

رائٹر حسینہ معین نے کہا کہ آج کے ڈرامے اپنی تہذیب کو بھول چکے ہیں، کئی مکالمے تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں، خالد انعم ، شیماکرمانی،ایوب خاور،کیف غزنوی اور شاہد رسام ودیگر نے بھی گفتگومیں حصہ لیا۔

آزادی اور قیدکے معیار اپنے اپنے ہیں،سعیدغنی

وزیراطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ آزادی اور قید کے معیار اپنے اپنے ہیں،آج جو میڈیا پر اگرکوئی پابندی لگانے کی کوشش کرے تو اس کا فائدہ نہیں ہو رہا،خبر سب کو مل جاتی ہے لہٰذا اب ڈائیلاگ ہونا چاہیے،یہ بات انھوںنے اردوکانفرنس میں ’’میڈیاکتناقید کتناآزاد‘‘پرمنبی سیشن سے خطاب میں کہی۔

مظہرعباس نے کہاکہ آج اگر صحافت آزاد ہے بھی توصحافی آزاد نہیں ،اگرصحافی کو معاشی فکر لائق ہو جائے توآزادی اظہار پرکون بات کرے گا،ہم نے لڑنا چھوڑ دیا ہے  جواحتجاج سڑکوں پر ہوتے تھے وہ کانفرنسوں تک محدود ہوگئے ،اسی لیے لڑانے والے زیادہ مضبوط ہوگئے،سیشن سے  عامر ضیا اویس توحید نے بھی خطاب کیا۔

نعیم بخاری کی زندگی کے قصے سن کرہال قہقہوں سے گونجتا رہا

نعیم بخاری نے کہا کہ ملک میں پہلا احتساب کا قانون نواز شریف کے زمانے میں بنا اس پر منو بھائی نے جو شاعری میں تنقید کی وہ بعد میں سچ ثابت ہوئی، نعیم بخاری نے اردوعالمی کانفرنس میں اپنے اساتذہ کے قصے بھی سنائے، انھوںنے کہا کہ منیر نیازی  کمال انسان تھے، احمد فراز اپنے بارے میں تنقید برداشت نہیں کر سکتے تھے، نعیم بخاری نے اپنی زندگی کے ایسے قصہ سنائے کہ ہال وقفے وقفے سے قہقہوں سے گونجتا رہا۔

سرور بارہ بنکوی کی 2کتابوںکے مجموعے کو ساتھ شائع کرنے پرخوشی ہوئی، افتخار عارف

عالمی اردو کانفرنس میں کلیات سرور ( سرور بارہ بنکوی ) کا اجرا کا پروگرام منعقد ہوا جس افتخار عارف ، ذکیہ سرور ، اشفاق حسین اور حوری نورانی نے شرکت کی ،اس موقع پر سرور بارہ بنکوی پر ایک وڈیو دکھائی جو 1919 سے 1980 تک کی فلموں اور گانوں کی کلپنگ پر مبنی تھی،افتخار عارف نے کہا کہ بہت خوشی ہوئی کہ سرور بارہ بنکوی کی دونوں کتابوں کے مجموعے کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے، ہمارے ادب کو اپنی زمین اور لوگوں سے جڑا ہونا چاہیے۔

عالمی اردوکانفرنس میں کئی کتابوںکی رونمائی

عالمی اردوکانفرنس کے تیسرے روز مختلف کتابوں کی رونمائی ہوئی،انعام ندیم کی کتاب ’’دوزخ نامہ‘‘ پر غازی صلاح الدین نے، قاسم بگھیو کی کتاب ’’لسانیات تا سماجی لسانیات‘‘ پر رؤف پاریکھ نے ، فراست رضوی کی کتاب ’’سلامِ فلسطین‘‘ پر اشفاق حسین نے اور نوید احمد کی کتاب ’’کلیات احمد نوید ‘‘پر محمد احمد شاہ نے خیالات کا اظہار کیا۔

صوفی بنتا نہیں، صوفی ہوتا ہے، امر جلیل

عالمی اردو کانفرنس میں ممتاز مصنف امر جلیل کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس کے میزبان نور الہدیٰ شاہ اور ڈاکٹر ایوب شیخ تھے، امر جلیل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوفی بنتا نہیں ہے صوفی ہوتا ہے، بس ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی کا دل نہ دکھائیں اور کسی کے عقیدے کو برا نہ کہیں، انسان کو ڈر جب لگتا ہے جب اس کے پاس اثاثے ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں میں اکیلا ہوں اور زندگی کے 85 بہاریں دیکھ چکاہوں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔