نظریاتی تقسیم

نصرت جاوید  بدھ 30 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1930ء کی دہائی سے ہمارے لکھنے والوں کو نظریاتی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا۔ ذاتی طورپر مجھے یہ تقسیم کبھی سمجھ نہیں آئی۔ سعادت حسن منٹو کا قصہ ہی لے لیجیے۔ اُردو ادب کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت میں پوری دیانت داری کے ساتھ میں یہ اصرار کرتا ہوں کہ وہ جدید اُردو ادب کا سب سے زیادہ حساس ادیب تھا جس کی قوت مشاہدہ حیران کن تھی اور وہ اپنے خیالات کو بیان کرتے ہوئے جس جرأت کا مظاہرہ کرتا تھا ہمارے کسی بھی ادیب کو آج میسر نظر نہیں آتی۔ اسی منٹو کو مگر ترقی پسندی کے انتہاء پسند ’’صالحین‘‘ نے فحش نگار اور رجعت پسند قرار دے کر اپنی صفوں سے باہر رکھا۔ قرۃ العین حیدر یقینی طورپر یوپی کی اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے اس تعلق پر کوئی ندامت ہرگز محسوس نہ کی۔ مگر انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں انتہائی ایماندارانہ مشاہدہ کی بناء پر ٹھوس سیاسی حقیقتوں کو بھی ہمارے کئی نابغوں سے کہیں پہلے دریافت کرلیا تھا۔ ان کی تحریروں میں مذہبی انتہاء پسندی، مشرقی پاکستان میں شدت سے بڑھتے ہوئے احساسِ محرومی اور بیگانگت کی 1960ء کے ابتدائی سال ہی میں بھرپور عکاسی نظر آنا شروع ہوگئی تھی۔ ’’سیتاہرن‘‘ پڑھ لیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ سندھی بولنے والے بھارت سے آئے اُردو بولنے والے مہاجرین کے لیے قطعی طورپر اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔

’’ ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ نے 1947ء کے بعد والے کراچی میں تیزی سے اُبھرتی نفسانفسی کو بڑی نفاست سے بیان کرکے رکھ دیا۔ اس قرۃ العین حیدر کو بھی ’’ترقی پسندوں‘‘ نے کبھی اپنا نہ سمجھا۔ اقبال نام کا بے پناہ شاعر کئی برسوں سے  ہمارے ملائوں اور قوالوں نے اچک رکھا ہے۔ اب وہ ہماری ’’نظریاتی سرحدوں‘‘ کے اپنے تئیں محافظ بنے لوگوں کے قبضے میں چلاگیا ہے۔ ’’کمیونسٹ‘‘ اور ’’غدار‘‘ کہلانے والے فیض احمد فیض مگر ان کے شدید مداح ہوا کرتے تھے۔ فیض صاحب دھیمے مزاج کے ملنگ آدمی تھے۔ بے جا بحث اور تکرار سے ہمیشہ دور رہا کرتے تھے۔ انھیں بہت کم لوگوں نے غصے سے مغلوب ہوتے دیکھا تھا۔ کئی محفلوں میں اسی فیض احمد فیض کو میں نے اپنی آنکھوں اور کانوں سے اقبال کا بڑے جذباتی انداز میں دفاع کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک دفعہ تو انھوں نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ اگر اقبال نہ ہوتے تو شاید فیض جیسے ’’ترقی پسند‘‘ شاعر بھی پیدا نہ ہوتے جو غزل کو محض ’’عورتوں سے گفتگو کرنا‘‘ نہیں سمجھتے تھے۔ اسے ٹھوس مقامی اور عالمی مسائل کے بارے میں سوچی سمجھی رائے کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔

جدید اُردو ادب کی تاریخ اور روایات کی تفصیلات میں اُلجھنے کے بجائے میں اس کالم میں اصرار یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک پاکستان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ذرایع ابلاغ کا معاملہ ہے اس کے Dominant Discourseپر اس سوچ کا ہرگز کوئی توانا اظہار نہیں ملتا جسے ’’لبرل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود بھی اس اصطلاح کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ میرے جیسے نام نہاد پڑھے لکھے جب اس اصطلاح کو پوری طرح سمجھ نہ پائیں تو عام قاری یا ناظرین سے شکوہ کیوں۔ ان کو تو نام نہاد ’’لبرل‘‘ لوگوں کے مخالفین نے قائل کردیا ہے کہ پاکستان کے ’’لبرل‘‘ درحقیقت ’’فاشسٹ‘‘ ہیں۔ یہ اسلام کے دشمن نہ  ہوں تو بھی ’’اچھے مسلمان‘‘  نہیں ہیں۔ مغربی روایات کی شدید احساسِ کمتری کے ساتھ پیروی کرتے ہیں۔ یہ بات یاد ہی نہیں رکھتے کہ پاکستان آئینی طورپر ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن وسنت یہاں نافذ ہونے والے قوانین کی واحد اور حتمی اساس ہیں۔ اسی لیے تو ہمارے آئین میں 62اور 63والی شقیں ہیں جن کی روشنی میں سیاسی عہدوں کے طلب گاروں کی پڑتال ضروری ہے۔ عوام سے ووٹ مانگنے سے پہلے ان طلب گاروں کو انتخابی انتظامیہ کے سامنے خود کو ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ ثابت کرنا ضروری ہے۔ کینیڈا سے آئے شیخ السلام کی مذمت کیوں؟ وہ بے چارے ’’صداقت‘‘ اور ’’امانت‘‘ کی تصدیق کے لیے ایک کڑے نظام ہی کا مطالبہ تو کررہے تھے۔ وہ جو خود کو ’’لبرل‘‘ بنائے بیٹھے ہیں انھیں ’’فاشسٹ‘‘ قرار دینے والوں کا جرأت سے مقابلہ ہی نہیں کرپائے۔ بلھے شاہ کب کا مرکھپ گیا جو بڑے فخر سے برملا کہہ دیتا تھا کہ اگر کوئی اسے کافر پکارے گا تو وہ پورے جنون سے ’’ہاں‘‘ کہے گا۔ اپنے دفاع میں کوئی جواز گھڑنے میں وقت ضایع نہیں کرے گا۔

دہشت گردی اس وقت پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ اس کی جڑیں مذہبی انتہاء پسندی کی سوچ سے پروان چڑھی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے چند ہی ماہ بعد ’’قراردادِ مقاصد‘‘ نے اس سوچ کو فروغ دینے اور مستحکم کرنے کی ذمے داری ریاست کے سرتھونپ دی اور پھر لاہور میں جو پہلا مارشل لاء لگا وہ اسی قضیے کا شاخسانہ تھا۔ 1974ء میں ایک مسلک کو ریاستی سطح پر ’’غیر مسلم‘‘ قرار دینے کے بعد ہم 1977ء تک پہنچے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے ’’روشن خیال‘‘ نے وہ سب کچھ مان لیا جس کا ’’نظامِ مصطفیٰؐ‘‘ والے مطالبہ کررہے تھے۔ وہ یہ سب مان کر بھی پھانسی چڑھ گیا۔ مگر اس کا نام لے کر جنرل ضیاء کے خلاف طویل جدوجہد کے دوران کوڑے کھانے والے پھر بھی سمجھ نہ پائے۔ ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنے اور اسے طویل تر کرنے کے چکروں میں اُلجھ کر رہ گئے۔ وہ محض اقتدار کی سیاست میں ملوث ہوگئے تو ’’نظریاتی سیاست‘‘ دوسرے گروہوں کی یرغمال بن گئی۔ جب یہ طے ہوچکا کہ پاکستان میں صرف ’’اسلامی نظام‘‘ رائج ہوگا تو یہ ڈھونڈنا بھی ضروری ہوگیا کہ ’’حقیقی اسلام‘‘ کیا ہے اور ’’سچا مسلمان‘‘ کون ۔ یہ دونوں چیزیں طے کرتے ہوئے ہم مسلکی اختلافات کو گہرے سے گہرا کرتے چلے گئے۔ مجھ جیسے لکھنے والے اپنی جان کے خوف سے اس ضمن میں دن بدن گھمبیر ہوتی ہوئی معاشرتی تقسیم کا ذکر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اِدھراُدھر کی ہانک کر اپنے کالم لکھ ڈالتے ہیں۔

اب کسی اور سے شکوہ کیوں کرنا اگر نواز شریف سے لے کر اپوزیشن کی تمام جماعتوں تک اس بات پر اتفاق کر بیٹھے ہیں کہ طالبان اس ریاست کےStake Holdersہیں۔ ان سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بھیک مانگنا ہوگی اور مذاکرات کے لیے ہمارے ’’ناراض بھائی‘‘ صرف اسی صورت آمادہ ہوں گے جب امریکا ان کے ساتھیوں پر ہماری ’’خود مختاری‘‘ کو پامال کرنے والے ڈرون طیاروں کے ذریعے میزائل پھینکنا چھوڑ دے گا۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اب ڈرون حملے رکوانا بن گیا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ نواز شریف صاحب کی صدر اوبامہ سے ملاقات کے بعد شاید ان حملوں میں کوئی تعطل آجائے۔ مگر کب تک؟ اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ آیندہ کچھ دنوں میں کوئی ڈرون حملہ ہوا تو خیبرپختونخواہ کی حکومت نیٹو افواج کے لیے اپنی سڑکوں سے افغانستان رسد نہیں جانے دے گی۔ ایک صوبائی حکومت نے وہ رسد بند کردی تو مرکزی حکومت کیا کرے گی۔ اسے بیرونی دُنیا کس انداز سے جانچے گی۔ ان سوالات پر کوئی غور ہی نہیں کررہا۔ میں نے بھی پنجابی محاورے والے ’’میٹھے چاول‘‘ نہیں کھارکھے۔ اس لیے فی الوقت خاموش رہنا ہی زیادہ بہتر محسوس کرتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔