کنفیوزڈ معاشرہ

مقتدا منصور  بدھ 30 اکتوبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے ایک بزرگ کامریڈ کے حوالے سے ایک لطیفہ چاردہائیوں سے زبان زدِ عام ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ وہ بائیں بازو کے ایک جلسے میں شرکت کے لیے لیاری جارہے تھے کہ ان کی گاڑی صدر کے علاقے میں ٹریفک میں پھنس گئی۔ انھوں نے ساتھ بیٹھے ساتھوں سے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ یہ CIA کی سازش ہے کہ ہم جلسے میں نہ پہنچ سکیں اور جلسہ درہم برہم ہوجائے۔ یعنی اگر وہ وقت پر پہنچ جاتے توشاید دنیا میں انقلاب بپا ہوجاتا اور امریکا پسپا ہوجاتا ۔آج کل دائیں بازو کے سیاسی رہنماء اور دانشور صبح شام ،اٹھتے بیٹھتے امریکا کو کوستے رہتے ہیں۔اب تومعاملہ دائیں یا بائیں بازو کے سیاستدانوں اور دانشوروں تک محدود نہیں رہا ہے، بلکہ ہر شہری کے حواسوں پر ہر وقت امریکا اور بھارت سوار رہتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ، حادثہ یا سانحہ ہوجائے ،اس کی ذمے داری انھی دونوں ممالک پرڈال کر حکمرانوں سے عوام تک سبھی مطمئن ہوجاتے ہیں۔

اسی ذہنی کیفیت کے تناظر میں وزیراعظم کے دورہِ امریکاکودیکھیں، تو ناکامی کے سوا کچھ نظرنہیں آئے گا۔حالانکہ اگر مکمل غیر جانبداری کے ساتھ ان پیچیدہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دورے کا جائزہ لیا جائے، جن سے ملک دوچار چلاآرہا ہے، تو اسے ناکام قطعی نہیں کہا جاسکتا۔بلکہ بعض ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو خاصے روشن ہیںاور جن سے بہتری کے امکانات واضح ہوتے نظر آتے ہیں۔ملاقات میں پائے جانے والے اسقام اور کمزوریوں سے قطع نظر،اس بات کی بہر حال تعریف کی جانی چاہیے کہ ایک ایسی ریاست جو 66 برس گذرنے کے باوجود  مختلف قومی امور میں کوئی واضح نقطہ نظر اختیار کرنے میںمسلسل ناکام چلی آرہی ہو اور جس کی خارجہ پالیسی تضادات کا مجموعہ ہو،اس کے منتخب وزیر اعظم نے پہلی بار اپنا اور اپنے ملک کا موقف سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کے ساتھ امریکی صدر اور حکام کے سامنے پیش کیا۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میںعموماً جو تحاریر سامنے آتی ہیں وہ یک طرفہ ہوتی ہیں۔شاید ہی کوئی پاکستانی قلمکار یا تجزیہ نگارایساہو،جس نے  حقیقت پسندانہ انداز میں ان تعلقات کاجائزہ لیاہو۔ایک عمومی رویہ یہ رہا ہے کہ ہر خرابی کی ذمے داری امریکا کے سر منڈھ دی جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 65 برسوں پر محیط ان تعلقات میں گرمجوشی اور سردمہری کے جو ادوار آئے ہیں، ان میں امریکا کا جو کردار رہا وہ اپنی جگہ، خود ہماری کوتاہیوں اور غلط حکمت عملیوں کا بھی خاصا عمل دخل رہاہے،جنہیں ہم چھپانا چاہتے ہیں۔یہی وہ دہرا معیارہے جسے ہم ڈپلومیسی سمجھتے ہیں ، ہمارے لیے مسائل کا سبب بنتا رہااور ہم عالمی بے اعتمادی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے فوراً بعد امریکاکی اولین ترجیح بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا تھی،تاکہ وہ بھارت کے ذریعے ایک طرف کمیونزم کے ایشیاء میں پھیلائو کو روک سکے اور دوسرے بھارت میں سرمایہ کاری کرکے اپنی تجارت میں اضافہ کرسکے۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو کا فکر و فلسفہ مختلف تھا۔ وہ تیزی سے دو قطبی ہوتی دنیا میںاپنے ملک کو غیر جانبدار رکھتے ہوئے خود انحصاری کے ذریعے معیشت میں بہتری کے خواہشمند تھے۔جس کی وجہ سے امریکا بھارت تعلقات میں کسی قسم کا بریک تھرو نہیں ہوسکا اور امریکا کو مجبوراً پاکستان کی جانب توجہ دینا پڑی۔ اس کے برعکس پاکستان روزِ اول ہی سے امریکاکے ساتھ تعلقات اور اس سے امداد لینے کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ خود بابائے قوم کی خواہش بھی امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات کاقیام تھی۔یہی سبب تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے سوویت یونین کے دعوت نامے کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکا جانے کو ترجیح دی۔یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا پاکستان کو سوویت یونین کے گرم پانیوں تک پہنچنے اورکمیونزم کامشرق وسطیٰ میںراستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا خواہشمندتھا۔ جب کہ پاکستان اپنی فوجی قوت میں اضافہ کا خواہشمند تھا۔

ہنری ٹرومین کے دور میں شروع ہونے والے پاک امریکا کے تعلقات میں آئزن ہاور کے دور(جنوری1953ء سے جنوری1961ء) میں گرمجوشی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔اس دوران سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں پر دستخط ہوئے (1954ء،1955)۔ان دونوں معاہدوں میں واضح طور پر یہ شرائط تحریر تھیں کہ ان معاہدوں کے تحت ملنے والی امداد صرف کمیونزم کے خلاف استعمال ہوگی اور کسی طور بھارت کے خلاف استعمال نہیں کی جائیں گی۔جنوری1961ء میں جان کینیڈی صدر ہوجاتے ہیں اور1962ء میں دو اہم واقعات ہوتے ہیں۔ اول، امریکا میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کرلیتا ہے۔دوئم، تبت کے محاذ پر سرحدی تنازعہ چین بھارت جنگ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔یہ وہ موڑ ہے،جب پاکستان اور امریکا کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور سرد مہری کا پہلا دور شروع ہوتا ہے۔

1965ء میں پاک بھارت جنگ میں امریکی اسلحہ کا استعمال امریکا کی مزید ناراضگی کا سبب بنا،کیونکہ پاکستان نے طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی کی تھی۔یہی وجہ تھی کہ امریکا اس جنگ کے دوران مکمل طورپر غیر جانبدار رہتا ہے۔ جب کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور بعد ازاں تاشقند معاہدہ اس وقت کے روسی وزیر اعظم کوسیجن کراتے ہیں۔سرد مہری کا یہ دور 1970ء میں کسی حد تک کم ہوتا ہے، جب پاکستان اس وقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجرکوپاکستان کے راستے چین کے خفیہ دورے پر جانے میں تعاون کرتاہے۔مسٹر بھٹو کے پورے دور میںبھی پاک امریکا تعلقات سردمہری کا شکار ہی رہے۔یہ سرد مہری اس وقت ختم ہوئی جب دسمبر1979ء میںسوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور جنرل ضیاء الحق نے اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا۔لیکن گرمجوشی کایہ دور محض چند سال ہی چل سکا،کیونکہ جب جنرل ضیاء نے جنیوا معاہدے کے بعد امریکاکی مخالفت کے باوجودجنگجو جتھوں کو کشمیر میں استعمال کرنا شروع کیا تو سرد مہری کا ایک نیا دور شروع ہوگیااورامریکا نے پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی فوجی امداد بند کردی۔ 1988ء سے1999ء تک منتخب حکومتوں کا دور اورستمبر2001تک پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دوران سردمہری کا دور جاری رہا۔ لیکن 9/11کے بعد جب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا اور پاکستان نے اس میں بغیر کسی شرط شرکت کا فیصلہ کیا تو گرمجوشی کا نیا دور شروع ہوا۔لیکن یہ گرمجوشی بھی عارضی ثابت ہوئی اور عدم اعتماد کی ایک نئی فضاء پیدا ہوگئی۔

پاک امریکا تعلقات میں جو باتیں اختلافات کو ہوا دینے کا سبب بنتی رہی ہیں،ان میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان کے اپنے طرز عمل سے رہاہے۔پاکستان نے نہ کبھی امریکا کے ساتھ معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور طے کرنے کی کوشش کی اور نہ اپنے عوام کو اس بارے میں اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ ہر حکومت جس طرح اپنے عوام کو بول بچن دے کر بیوقوف بنانے میں مہارت رکھتی ہے اس نے یہی اندازامریکا کے ساتھ بھی استعمال کیا۔اگرچند سوالات پر غور کریں تواختلافات کے اسباب تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔اول، سیٹو اور سینٹومیں درج شرائط کی خلاف ورزی ہم نے کی یا امریکا نے؟دوئم، افغانستان میں کمیونزم کے خلاف جنگ کے لیے امریکی امداد سے تیار کیے جانے والے جنگجو جتھوں کو جنیوا معاہدے کے بعد کشمیر میں کس نے برسرپیکارکیا؟سوئم،قبائلی علاقوں میں امریکا مخالف جنگجوئوں کے خاتمے کے لیے ڈرون حملوں کی اجازت کس نے دی اور کیوں دی؟چہارم،امریکی شہری عافیہ صدیقی کوگرفتار کرکے امریکا کے حوالے کس نے کیا اور اب جب کہ اسے شدت پسندوں کی معاونت کرنے پر سزا ہوگئی ہے،تو اس کے بارے میں واویلا کون مچا رہاہے؟پنجم،امریکا کو سب سے زیادہ مطلوب شدت پسند اسامہ بن لادن ایبٹ آبادمیں کیوںاور کس کی اجازت سے موجود تھا؟ششم،IMFکے درپر سر کون ٹیکتاہے اور کیوں؟ پھر اس کی جائز شرائط پر عمل کرنے کے بجائے اپنے ہی عوام کا خون کون چوستاہے؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جن کے جوابات سے اندازہ ہوتاہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بگاڑ کی زیادہ ذمے داری امریکا کے بجائے خود ہماری پالیسیوں اور غلط فیصلہ سازی پر عائد ہوتی ہے۔لہٰذاعدم اعتمادکی طویل تاریخ اور غلط فہمیوں کے انبار میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سے یہ توقع کرنا کہ وہ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط پیچیدہ امور کو پلک جھپکتے طے کرلیں گے ،محض دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ سنبھل کر چلنے کی کوشش کی جائے تو دنیا کو آنکھیں دکھانے کے بجائے اس کے ساتھ احترام کے رشتے مضبوط کیے جائیںاور ہر قسم کے کنفیوژن سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔